نظم کے نئے معمار: آفتاب اقبال شمیم

محرک: زیف سید (ظفر سید)

 

فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ

 

مطالعہ نظم:

 

ایک نظم زید کے نام۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

 

جن کے ہم راہ چلتا ہوں

چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں

دال روٹی کی گردان میں

عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

رزق اور روزی کی ابجد سے

بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

یہ گاؤں، یہ شہر آباد ہیں

میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں

میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے

کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی یہ لڑکیاں

عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں

جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن

چشم و لب اور جان و بدن کی

عبارت میں

لکھی ہوئی داستانوں میں

دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

بھٹکا ہوا

اور جیون امر ہے

مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے

ان کے لیے

ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

دوزخ میں ہیں

کیا پتا کل نہ ہوں

کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

گلیوں محلوں کے

لُچے، لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

تنگ دامانیوں کی سزا سے

رہائی ملے

میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

خاک خود اپنا آئین ہے

نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

جو مساوی کرے

کیسی مایوسیاں

اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

تسخیر ہونا ہی ہے

٭٭٭

 

تجزیہ نظم۔۔۔ علی محمد فرشی

 

جنابِ صدر!

آفتاب اقبال شمیم نے جب شاعری کے شہر میں قدم رکھا تو ترقی پسند تحریک اپنا ساز و سامان سمیٹ رہی تھی۔ میرا جی، راشد اور مجید امجد نظم کو پروپیگنڈے کی مشقت سے آزاد کر کے آرٹ کے منصب پر فائز کر چکے تھے۔ میرا جی کی سیادت میں حلقۂ ارباب ذوق نے جدید نظم کے لیے جو راہیں متعین کی تھیں ان پر نئے سنگِ میل قائم ہو رہے تھے۔ یہاں اس مغالطے کا استرداد ضروری ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک اصل میں ترقی پسند تحریک کی ضد یا رد عمل تھی۔ جواز میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ بھی خاصی معقول لگتی ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق نے ترقی پسند تحریک کی ’خارجیت‘ کو ’داخلیت‘ میں بدل دیا۔ ترقی پسندوں نے ’ادب برائے زندگی‘ کے نعرے کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا تھا اور ادب کو پروپیگنڈے کا ذریعہ نہ ماننے والوں کو ’ادب برائے ادب‘ کا قائل قرار دے کر ایک طرح سے مہمل اور بے مقصدیت کا اسیر قرار دے کر ادب بدر کرنے کی کوشش کی تھی۔ منٹو جیسے ادیب کو ترقی پسندوں کے ہاتھوں جن اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لہٰذا ردِ عمل میں بھی شدت پسندی کے احتمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا۔ ہوا صرف یہ کہ ترقی پسند تحریک اپنا فعال کردار ادا کر چکنے کے بعد اپنے انجام کی جانب گام زن تھی، ایسی بڑی تحریکوں میں بے اعتدالی کے عناصر کا در آنا بھی کسی اچنبھے کی بات نہیں۔ اور ایسی تحریریں جو ادب کے درجے تک نہیں پہنچتیں، خود بہ خود زمانہ برد ہو جاتی ہیں، ان کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی! طرفہ یہ ہے کہ ہم ادب کوتو تبدیلی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں لیکن خود اسے تبدیل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ادب کا بنیادی وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ یکسانیت اور جمود کی تہ کو توڑے اور تازگی کو پنپنے کا موقع فراہم کرے۔ میرا جی، راشد اور مجید امجد نے نظم کا نیا جہان دریافت کیا تھا، ترقی پسند تحریک کے آباد کردہ شہر کو مسمار کرنے کی سازش نہیں کی تھی۔ یہ درست ہے کہ نئی نظم داخلیت کی کھڑکی سے زندگی کا نظارہ کرتی ہے اور قلم کو عَلَم بنانے پر یقین نہیں رکھتی، لہٰذا اوّل اوّل کہیں کہیں بے اعتدالی کی دھند بھی دبیز ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں آنے والے با شعور نظم نگاروں نے خاصی احتیاط کا مظاہرہ کیا۔

آفتاب اقبال شمیم کی نظم ’خارجیت، اور ’داخلیت، کی مثبت اقدار کے فنی امتزاج کا نام ہے۔ اُس نے اجتماعی زندگی کو اپنے باطنی فرد کی خرد افروز آنکھ سے دیکھا اور دردمند دل کی کٹھالی میں فن کی آنچ پر پخت کرنے کے بعد سپردِ قرطاس کیا۔ یوں اس کی فکرِ مثبت نعرۂ انقلاب کی بہ جائے ایسے احساس کا سانچ بن گیا جو فن کا خاصہ ہے۔ اس کا یہ نظریۂ فن اس کی نظموں کے پہلے مجموعے ’فردا نژاد‘، جو ۱۹۸۴ میں شائع ہوا، سے لے کر، تا حال، آخری مجموعے ’میں نظم لکھتا ہوں‘ تک اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتا دکھائی دیتا ہے۔

زیرِ بحث نظم ’ایک نظم زید کے نام‘ اپنے عنوان ہی سے قاری کو شاعر کی فکر کے مرکزے تک رسائی فراہم کر دیتی ہے اور ذہن خود بہ خود اس کی دوسری کتاب کے عنوان ’زید سے مکالمہ‘، جو طویل نظموں کو محیط ہے، کی طرف جست لگاتا ہے۔ زید کا یہ کردار ’فردا نژاد‘ میں شامل ایک نظم ’زید آ‘ سے شاعر کی فنی زندگی میں اُس کے ساتھ ساتھ منزلیں مارتا یہاں تک پہنچا ہے۔

اگر ہم سرسری بھی شاعر کے کلام سے گزریں تو ’زید‘ کا استعارہ شاعر کی فکری و فنی کلّیت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ثابت ہو گا۔

’زید‘ کو شناخت کرنے کے لیے میں ’زید آ‘ کو نقل کر دوں تو بہت سا ابہام دور ہو جائے گا:

رات کے کھیت سے پھوٹتی رُت کی خوش بُو اڑی

جسم میں آہٹیں سی ہوئیں

نوجواں فصل کو کاٹنے کے لیے

دستِ آئندہ آگے بڑھا

خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں

روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جراتیں

سر لٹانے لگیں

زید آ، ہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں

ورنہ اس جہل کی اوٹ میں چھپ کے بیٹھے ہوئے

کیسے بچ پائیں گے

سچ کی دوپہر

یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں

ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے

اور اپنے ہی پیچھے کھڑے

خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں

خود کلامی کی تکنیک میں لکھی ہوئی یہ نظم ’زید، کی پہلی جہت جو خود شاعر کی اپنی ہی شخصیت کا جمود ہے، کو مخاطب بناتی ہے لیکن موضوع کا خارجی حوالہ جو سیاسی سماجی جبر سے مرکب ہے، اس کردار کی دوسری جہت کو خارج کا نمائندہ بناتا ہے۔ یوں داخلیت اور خارجیت ایک ہی حقیقت کے دو رخ قرار پاتے ہیں۔ نظم کا موضوع بھی اکہرا نہیں۔ سطح کا سوال تو یہ ہے کہ سیاسی سماجی جبریت کے خلاف جد و جہد کا آغاز ہو چکا ہے لیکن غفلت شعاروں کی روش ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لیتی۔ ممکن ہے کہ نظم کا اکھوا ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک سے پھوٹا ہو یا ضیائی مارشل لا کے خلاف عوامی سیاسی مزاحمت سے، لیکن اس سے نظم کی کہانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ چوں کہ نظم کی تخلیق کا زمانہ ہماری قومی تاریخ کے انھی دو سیاہ ادوار کو نشان زد کرتا ہے اس لیے لامحالہ دھیان ادھر جاتا ہے ورنہ نظم اپنی ساخت میں زمانی وسعت کا لامحدود قرینہ لیے ہوئے ہے۔ جیسا کہ منٹو کا ’نیا قانون‘ اپنی زمانی واقعیت سے جڑے ہوئے بھی اپنی علامتی حیثیت میں زمان و مکاں سے آزاد رہتا ہے۔

فردا نژاد ہی میں شامل نظم ’لا (ایک مکالمہ)‘ میں ’زید‘ شاعر کے تخلیقی وجود، اس کے سماجی کردار اور خارج میں فرد مع اجتماع کی کلیت میں ڈھل گیا ہے:

’آ چلیں، سامنے بائیں جانب کو مُڑتے ہوئے راستے پہ چلیں۔ کیوں، وہاں اُس طرف کیوں چلیں، اِس طرف کیوں نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ مگر سوچتا ہوں کہ یہ اور وہ ایک ہی راہ کے دو زمانے ہیں، دو حالتیں ہیں، صدی دو صدی کے شعور اور رفتار کے مظہروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ کیوں چلیں، اُس طرف موسموں کی ہوا۔۔۔۔ چھوڑ، ہم اڑتے پرزوں کے انبوہ سے کس لیے جا ملیں اور پھر زید کے تنگ جوتے مجھے کاٹتے ہیں۔ اُسے یا مجھے زرد آنکھوں کی تکلیف ہے۔ آ یہیں۔۔۔۔ آ یہیں بیٹھ جائیں، یہیں گھاس پر۔۔۔ جانتے ہو یہ پاؤں میں روندی ہوئی گھاس بنجر زمیں اور زرخیز ماں اور قدموں کی گرمی کی اولاد ہے۔۔۔۔۔‘

اسی (۸۰) کی دہائی کے اوائل تک سیاسیات اور سماجیات میں کیمونزم کو معاشی/ معاشرتی انصاف کے حصول کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتا تھا۔ ادب میں ترقی پسند فکر کے نمائندہ لکھاری استبدادی قوتوں کے خلاف اسے نجات دہندہ خیال کرتے تھے۔ اس نہج پر سوچنے والوں کی نیک نیتی پر شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں۔ ترقی پسندی نے اردو ادب کو نیا خون فراہم کیا، توانا اور مثبت فکر عطا کی۔ آفتاب اقبال شمیم کی فکری ساخت و پرداخت اسی نظریے کی آغوش میں ہوئی۔ لیکن ایک اصیل شاعر کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک نظریے کے جوتے پہن کر آنکھیں بند کیے کسی ایک راستے پر چلتا رہے۔ جیسا کہ اس شاعر نے کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنا راستہ ہٹ کر بنایا ہے۔ اس کی وابستگی اپنی زمین سے اور روندے ہوئے عوام سے ہے۔ نظم میں ’زرد آنکھیں‘ سبز اور سرخ نظریات کو بہ طور ہتھکنڈا استعمال کرنے والی قوتوں پر عدم اعتماد کا مظہر ہیں۔ ایک ایسے وقفے کی علامت ہیں جہاں شاعر اپنی باطنی دانش سے راہ نمائی لیتا ہے۔ نظم آگے بڑھتی ہے تو اِن دونوں بازوؤں پر کھل کر حملہ کرتی ہے:

’کس طرف! کس طرف!۔۔۔۔ میرے آقا! مجھے دائرے کے مسلسل سفر سے رہائی دلا۔ انگلیاں، انگلیوں پر لپیٹے ہوئے میں کہاں تک گرہ بندیوں سے نکلنے کی خواہش کروں اور لفظوں کی بارش میں بھیگے ہوئے، آنے والے خطوں کے مضامین بے معتبر نامہ بر کی زباں سے سنوں۔۔۔۔۔۔ اور رنگوں کی آلائشیں۔۔۔۔۔۔ سب منافق ہیں۔ ہر بات سچی بھی ہے اور جھوٹی بھی ہے‘

دائیں بائیں کے دونوں دھڑوں کی منافقت اور دو بڑی غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کاروں کے خلاف یہ رد عمل ایک خود بین و خود آگاہ دانش ور اور خود مختار شاعر کا کھرا نقطۂ نظر ہے۔

اس تمہیدِ طولانی کا مدعا یہ تھا کہ شاعر کے ابتدائی فکری و فنی سفر کے نشانات کو بھی ذہن میں رکھا جائے جن پر چل کراس نے اپنی شعری کائنات تخلیق کی۔

آفتاب اقبال شمیم کی دیگر نظموں کی طرح زیرِ بحث نظم بھی ابہام سے پاک ہے، اور مجھ ایسے شاعر کے لیے جو ابہام کو فن کی خوبی سمجھتا ہو، اس نوع کی نظم کو بحث کے لیے چننا ’ابہام، کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے وضاحت ضروری ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ نقاد کو کسی خارجی منطق اور طے شدہ تنقیدی نظریے سے لیس ہو کر فن پارے سے نبرد آزما نہیں ہونا چاہیے بل کہ فن پارے کو کھولنے کے لیے کلید بھی اسی فن پارے سے لینی چاہیے۔ میر کتنا ہی عظیم ہو اور اس کا نقاد خواہ کتنا ہی فاضل، اقبال کی تفہیم کے لیے میر پر قائم کیے ہوئے اُس کے اصول اور اوزار ناکارہ ثابت ہوں گے۔ فیض مجھے پسند ہیں البتہ راشد، میرا جی اور مجید امجد بہ طور نظم نگار فیض سے زیادہ پسند ہیں۔ لیکن فیض کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر میں راشد، میراجی اور مجید امجد کی شاعری کو ذہن سے نکال کر باہر نہیں رکھوں گا تو فیض سے بھی نا انصافی کروں گا اور خود سے بھی زیادتی کا مرتکب ٹھہروں گا کیوں کہ اس طرح میں فیض کے کلام سے فیض یاب نہیں ہو پاؤں گا۔ میں اقبال کو اردو نظم کا سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں جس کے ہاں ابہام نام کو نہیں۔ لہٰذا یقین رکھیے کہ میرے نزدیک ابہام نہ کوئی خامی ہے نہ خوبی، بل کہ یہ تو موضوع کی غایت ہے، اسلوب کی ضرورت ہے اور شاعر کے فنی میلان کا تقاضا ہے۔ ابہام کی موجودگی یا عدم موجودگی کو فن پارے کی داخلی منطق مان لیا جائے تو یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات فن پارے کی نا مانوسیت کو بھی ابہام کی ذیل میں ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں جب کہ ہر اصیل شاعر یا فن پارے کا اپنے نئے پن کے باعث نامانوس ہونا ایک لازمی امر ہے۔ غالب کی شاعری اپنے عہد کے لیے مبہم تھی آج نہیں ہے۔ غزل اور روایتی نظم کے تربیت یافتہ قاری کے لیے جدید نظم نامانوس ہونے کی وجہ سے بھی مبہم ہو سکتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم ابہام سے پاک ہونے کے باوجود ناقدین کی ضروری توجہ سے محروم ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی پسند اور آسانی کے اسیر ہیں۔

زیرِ بحث نظم شروع ہی میں اپنے موضوع کا دھاگا ہمیں تھما دیتی ہے اور ہم اس کے سہارے نظم کے اندر دور تک سفر کر سکتے ہیں۔ قدم قدم پر زبان کے تازہ اور تخلیقی استعمال سے ہمارے جمالیاتی ذوق کو توانائی ملتی ہے اور شاعر کی محروم طبقات سے دلی وابستگی ہماری فکر کی لو کو فزوں کرتی ہے۔ نظم کا واحد متکلم بہ یک وقت شاعر کی ذات بھی ہے اور اصیل فن کاروں کا استعارہ بھی:

’چشم و لب اور جان و بدن کی

عبارت میں

لکھی ہوئی داستانوں میں

دل شہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

بھٹکا ہوا‘

اعلیٰ ادب ہمیشہ معاشرے میں مروج منفی رویوں کے خلاف اور مثبت انسانی اقدار کی حمایت میں جد و جہد کرتا نظر آئے گا۔ مذہبی، سماجی، سیاسی صداقتیں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن ادبی صداقت غیر متغیرہ اصول کے طور پر ادب میں ہمیشہ رائج رہتی ہے۔ کون سا بڑا فن پارہ ہے جو محبت، انسان دوستی، وفا داری، رحم اور ایثار کی دشمنی پر قائم ہوا ہے۔ یہی وہ ’دل شہ زادہ‘ ہے جو ’گم نام صدیوں سے‘ انسانی ہم دردی کے جذبے سے سرشار تاریخ کے تاریک جنگلوں میں، عظیم انسانی خواب کی تعبیر کی تلاش میں، سر گرداں ہے۔ اس نظم کے شاعر نے اپنی ذات کو اسی ادبی روایت سے جوڑ کر اپنے وجود کے جواز کی دلیل دی ہے اور اپنے مقصد حیات اور نظریہ فن کی وضاحت بھی کر دی ہے۔

نظم کا واحد متکلم، جو نظم کا پرسن بھی ہے، معاشی معاشرتی انصاف کے آدرش کا امین ہے لیکن وہ اپنے آدرش کے حصول کے لیے عوام کو، جن کی عمریں پیٹ کے تندور کا ایندھن بن جاتی ہیں، ظالموں اور غاصبوں کے تخت گرانے پر اکساتا ہے نہ ان کے تاج اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے۔

’جن کے ہم راہ چلتا ہوں

چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں

دال روٹی کی گردان میں

عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

رزق اور روزی کی ابجد سے

بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

یہ گاؤں یہ شہر آباد ہیں

میرے بیٹے ہیں وہ، میرے اجداد ہیں‘

نظم کی یہ ابتدائی سطور واضح کر دیتی ہیں کہ شاعر کسی بلند سٹیج پر چڑھ کر تقریر نہیں کر رہا بل کہ اس کا ہونا نہ ہونا انھی عوام کے وجود سے وابستہ اور انھی کے ماضی و مستقبل سے پیوستہ ہے۔ خارج اور داخل کی حدود کو مٹاتی ہوئی یہ سطور شعری جمالیات، تازہ اسلوب اور شاعر کی گہری دردمندی کے احساس کا ابلاغ اس قرینے سے کرتی ہیں کہ نظم قاری کے دل و دماغ میں تیز رفتار شارک کی طرح آگے بڑھنے لگتی ہے۔ ’دال روٹی کی گردان میں عمروں کا بیت جانا‘، ’رزق اور روزی کے ’الف با‘ سے انسانی وجود کی شناخت کا متعین ہونا‘ ایک لمحے کو ہمیں ایسے کرب کی چکی سے گزار دیتے ہیں جس میں عوام کی اکثریت مدتِ مدید سے پِس رہی ہے۔ عین اس مقام پر جب درجِ ذیل دو مصرعے سامنے آتے ہیں تو قاری کی سلگتی ہوئی آنکھوں میں شاعر کی وابستگی کے باعث خوشی کے آنسو جھلملا اٹھتے ہیں۔

’میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے‘

نظم نہ کسی آورد کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے نہ کسی تصنع کا شکار ہوئی ہے۔ بے ساختگی، فطری روانی، فنی تسلسل اور ’جذبہ‘ اور ’دانش‘ میں صنعتِ تضاد کے استعمال اور ’قبیلے‘ اور ’وسیلے‘ کے قوافی کا انتہائی بر محل جواز کے ساتھ وارد ہونا شاعرانہ کمال کی نشانی ہے۔

استبدادی قوتوں کے بنائے ہوئے جہنم میں شاعر کا وجود جمہور کا جز بن کر اذیت کے دن گزارتے ہوئے اس احساس سے بھی دوچار ہے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ شاید اس کی اپنی زندگی میں نہ بن پائے۔ مایوسی کے شعلوں کی لپیٹ میں آئے ہوئے فرد کا یہ خوف دفعتاً ایک خواب گوں احساس سے امکان کا ایک روزن بناتا ہے:

پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

گلیوں محلوں کے

لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

تنگ دامانیوں کی سزا سے

رہائی ملے

’کل کا دیکھا ہوا خواب‘ نظم کے زمان کا تعین کرتا ہے۔ یہ خواب ایک آزاد، خوش حال اور سیاسی سماجی انصاف کے امین معاشرے کا خواب تھا۔ یہاں نظم نے اپنے عمودی دائرے کے ساتھ ساتھ اپنے افقی دائرے کو بھی کشادہ کیا ہے۔ ایسا فن پارہ جس کی جڑیں زمین میں گہری نہ ہوں، خلا میں معلق تو ہو سکتا ہے آفاقی نہیں۔ اس نظم نے اسلوبیاتی سطح پر مقامیت سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے اور شعری روایت سے بھی استفادہ کیا ہے لیکن یہ دونوں باہم دست و گریباں نہیں بل کہ شیر و شکر ہو کر نظم کی نامیاتی وحدت کا تخلیقی حصہ بنے ہیں۔ یوں یہ نظم مقامی ثقافت، شعری روایت اور آفاقی اقدار سے آمیز ہو کر ایک زندہ فن پارے میں ڈھل گئی ہے جو نہ صرف شاعر کی نمائندہ قرار پا کر اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتی ہے بل کہ اردو کی بہترین نظموں میں بھی اعتماد سے رکھی جا سکتی ہے۔

نظم کو مختلف بندوں میں تقسیم نہیں کیا گیا لیکن بہ غور مطالعے سے یہ تین حصوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا حصہ معاشرے کی زبوں حالی کا نقشہ دکھاتا ہے۔ دوسرا حصہ مزید دو ضمنی اجزا میں بٹا ہوا ہے۔ پہلے جز میں حالات کے تبدیل نہ ہونے کے خوف سے ایک کلائمکس بنتا ہے لیکن نظم پھرتی سے پینترا بدل کراس شکنجے سے نکل جاتی ہے اور خواب کا روشن دان کھول دیتی ہے یوں گھٹا ٹوپ میں امید کی کرنیں نظم کو نیا منظرنامہ عطا کر دیتی ہیں۔ نظم کا تیسرا حصہ نظم کا ماحصل بھی ہے اور غزل کی زبان میں حاصلِ نظم بھی۔

میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

خاک خود اپنا آئین ہے

نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

جو مساوی کرے

کیسی مایوسیاں

اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

تسخیر ہونا ہی ہے

نظم نے مصرع بہ مصرع ارتقا کرتے ہوئے ہمیں اب اس منزل پر پہنچا دیا ہے جہاں اس ’خراب آباد‘ سے نکلنے کی تدبیر کی ضرورت کا احساس خود بہ خود زور پکڑنے لگتا ہے۔ یہاں تقدیر کے مروجہ مغالطے کو رد کیا گیا ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے اور تاریخ کا پہیا چرخِ نیلی فام کے تابع گھومتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تقدیر کا یہ تصوّر قابض حکم رانوں کی ناجائز بادشاہت کو جواز بخشنے کے لیے، درم پرست اور کم زور شخصیت کے مالک نام نہاد علما کے ذریعے کس طرح پھیلایا گیا۔ اردو شاعری میں اس تصورِ تقدیر پر کاری ضرب اقبال نے لگائی تھی لیکن اقبال کا خواب اس سر زمین پر جس طرح مسمار کیا گیا اس نے نہ صرف عوام بل کہ شعرا کو بھی مایوسی کے اندھیروں کی جانب دھکیل دیا۔ اقبال کے پاس درپیش خرابے سے نکلنے کا واضح راستہ موجود تھا جس کے باعث اس کے ہاں یقین کا محکم اور عمل کا پیہم ہونا عین فطری تھا۔ بٹوارے کے دوران میں فسادات نے انسان کی بہیمت کا وہ کریہہ چہرہ بے نقاب کیا کہ شاعر کو اجالا داغ داغ ہی دکھائی دینا چاہیے تھا اور سحر شب گزیدہ! اقبال کی رجائیت کا یاسیت میں بدل جانا کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں بل کہ انسانی محسوسات کا سادہ ردِ عمل تھا۔ پاکستان بنتے ہی جعلی کلیموں کے ذریعے جس معاشی کرپشن کی بنیاد رکھی گئی اس کا تسلسل آج تک نہیں ٹوٹا۔ پے در پے مارشل لاؤں نے ہماری قومی تاریخ کو مسخ کر دیا۔ فوجی آمروں نے قرونِ اولیٰ کے غاصبوں کی طرح تقدیر کے اسی منفی تصور کے ہتھکنڈے سے ہر بار عوام کو گم راہ کرنے کی کوشش کی۔

اقبال سے آفتاب اقبال کی اس نظم تک آتے آتے بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہ گیا تھا۔ خیال رہے کہ زیرِ تجزیہ نظم ’میں نظم لکھتا ہوں‘‘ سے لی گئی ہے جو ۲۰۰۹میں منصۂ شہود پر آئی۔ ’سرخ سویرا‘ جو کئی نسلوں کی امیدوں کا چراغ تھا، سرمایہ داری کی تند آندھی کے سامنے اس کی حیثیت اب معمولی خذف ریزے سے زیادہ نہ تھی۔

آفتاب اقبال شمیم نے اپنی روایت سے روشنی لی اور نظم کو صدیوں کا وسیع تناظر فراہم کر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ فردا نژاد میں شامل نظم ’لا (ایک مکالمہ)‘ میں جب اُسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی تو اُس نے وہاں بھی دائمی حقیقت کی طرف رجوع کیا تھا:

’کس طرف! کس طرف!۔۔۔۔ میرے آقا!‘

آفتاب اقبال شمیم کے کتنے ہی معاصرین صرف اِس وجہ سے شاعری میں زیادہ دیر نہ چل سکے کہ ان کے قدموں تلے نہ اپنی زمین تھی نہ سر پر اپنا آسمان۔ اپنی روایت کٹے ہوئے ادب کی دل دادہ صرف دیمک ہوتی ہے! روایت کوئی جامد شے نہیں بل کہ ایک زندہ اور متحرک قوت ہے۔ جس فن کار نے اس کا ہاتھ تھاما وہ کم از کم بھٹکا نہیں اور جس نے اُسے تخلیقی اضافے کے ساتھ آگے بڑھایا وہ کبھی مرا نہیں!

یہ فردا نژاد زمیں زاد اب اُس مقام پر آ پہنچا ہے جہاں اُسے اپنے آقا سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ درپیش حالات کو انسانی بد اعمالیوں کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ نظم نے اسی داخلی منطق سے یہ نکتہ بھی نکالا ہے کہ اگر گنتی کے کچھ بدکردار افراد پورے معاشرے کو قعرِ مذلت میں پھینک سکتے ہیں تو معاشرے کی اجتماعی مثبت قوت اس سے نکلنے میں کیوں کر ناکام ہو سکتی ہے۔

نظم کی ایک اور اضافی خوبی اس کی تانیثی فکر بھی ہے۔ مردانہ معاشرے کی جبریت میں عورت کا فعال وجود اپنے جمالیاتی وفور کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور زندگی کی مثبت قوت کو ہمارے داستانوی ادب کی عظیم روایت سے مربوط کر کے خواب کو حقیقت میں بدل دینے کی تخلیقی جہت سے مستنیر کر دیتا ہے:

کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی

یہ لڑکیاں

عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں

جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن

چشم و لب اور جان و بدن کی

عبارت میں

لکھی ہوئی داستانوں میں

دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

بھٹکا ہوا

صدیوں سے بھٹکا ہوا یہ عشق شہ زادہ نظم کی آخری سطور میں تمام مایوسیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پورے تیقن سے سچ کی فتح یابی کی بشارت دیتا ہے۔ (تمام نا تمام)

جنابِ صدر! میری معروضات اختتام کو پہنچیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ میری حاشیہ آرائی اربابِ علم و فن کی علمی بحث کے لیے نقطۂ آغاز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اور اس امید کے ساتھ کہ مجھے احبابِ حاشیہ کے علم سے استفادے کا موقع ملے گا۔ مزید یہ کہ اس نظم پر بحث کے وسیلے سے جدید نظم کی تفہیم کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔ ایک بات اور کہ اس ابتدائی اختصاریے میں اٹھائے گئے نکات کی وضاحت کے لیے احباب مجھے موجود پائیں گے۔

جنابِ صدر! آپ کا، منتظمِ حاشیہ ظفر سید صاحب اور معزز اربابِ حاشیہ کا شکریہ جنھوں نے مجھے آفتاب اقبال شمیم کی اس نظم کو توجہ سے پڑھنے اور اس سے حظ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔

٭٭

 

 

سحر آفریں

 

جناب صدر! ایک عہد ساز شخصیت بذات خود ایک علمی میراث ہوتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم (شاعری) کی معنویت اور فنی حوالے سے ہمیشہ ہی قابل تحسین نقد و نظر دیکھنے کو ملی ہے۔ زیر بحث نظم بھی دلکشی سے بنی گئیں ایسی سطور ہیں جن میں شاعری تو ہے ہی حقیقت نگاری نے لفظی بانکپن مرنے نہیں دیا۔ ورنہ عموماً جن نظموں میں تخیلاتی استعارہ سازی کی بجائے زمینی حقائق یا زمانی تلخی کی آمیزش ہو ان کا باطنی حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ جبکہ اس نظم میں شاعری اپنے بھر پور احساس کے سا تھ مو جود ہے اس لئے ہمیں نظم کا فی پسند آئی ہے۔ نظم ’زید‘ کے نام معنون کی گئی ہے اور زید ایک استعاراتی کردار ہے جو شاعر کی نظم سے منسوب ہو چکا ہے۔۔ نظم کے آغاز میں اسی کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ

جن کے ہم راہ چلتا ہوں

چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں

دال روٹی کی گردان میں

عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

رزق اور روزی کی ابجد سے

بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

یہ گاؤں، یہ شہر آباد ہیں

میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں

میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

وہ قبیلہ جس میں شمولیت کی واحد شرط وفا ٹھہری ہے اس سے نسبت محض جذباتی نہیں بلکہ اس کی نظری ضروریات اور احتیاجات بھی وفا داری کے آئین سے مشروط ہو چکی ہیں۔ اب وہ کون لوگ ہیں جن کے ہمراہ چلنے کے ہنر نے نمک حلالی کا درس دیا اور جن کی زمینوں پہ جاہ و حشمت کی آبیاری کرتے ہوئے زندگی کی کہانی رزق سے آ گے نہیں بڑھ پائی جو بیگار کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں اور جن کی گنتی سوائے آ بادی میں اضافے میں کسی شمار میں نہیں آ تی۔ وہ تمام کردار اسی اکائی میں ضم ہیں لیکن اس نظم کی خاصیت یہی ہے کہ آغاز میں ایک طبقے کی نمائندگی کرتیں سطروں سے عسرت و بے بسی کی بجائے خلوص نیت کا پسینہ ٹپک رہا ہے۔ پھر آ گے چل کر یہ نظم دم لینے کو ٹھہرتی ہے اور ثا بت کرتی ہے کہ معاشی تنگ دستی اور معاشرتی استعمار میں آدم و حوا دونوں ہی شریک اور متاثرین ہیں

کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی یہ لڑکیاں

عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں

جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن

چشم و لب اور جان و بدن کی

عبارت میں

لکھی ہوئی داستانوں میں

دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

بھٹکا ہوا

اور جیون امر ہے

مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے

ان کے لیے

ازل کی گدلائی ہوئی آنکھوں کے بوسیدہ خوابوں کو اپنے لہجے میں سمو کر جیون کی سفید چادر پہ سا نسوں کے پھول کاڑھتی لڑ کیوں کے دلوں کی حا لت منکشف کر دی ہے جو خواب کی غیر مرئی دنیا کی مکین ہوتی ہیں اور جن کی جا گتی آنکھوں کی تان خوابوں پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے۔ اور بدن کی دیواروں پہ کہانیاں خود بخود رقم ہوتی رہتی ہیں۔ اور بدن کی سلطنت کا بے تاج شاہزادہ دل محبت کے لمس کی تلاش میں بھٹکا ہوا راہرو بن گیا ہے اور شاعر اس کرب کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوا رہ ہے ان کے لئے

اور اس کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے گو یا ہے کہ

ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

دوزخ میں ہیں

کیا پتا کل نہ ہوں

کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

گلیوں محلوں کے

لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

تنگ دامانیوں کی سزا سے

رہائی ملے

بہت معنی آفریں اور احساس میں گندھی سطریں ہیں۔ کیا پتہ کل نہ ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کلا می کی کیفیت میں ایک تسلی آ میز ہچکی باندھتے ہوئے گو مگو ہے۔ خوابوں کی بے یقینی امید کے رنگوں میں ڈھلتی ہے اور خوش آئند مستقبل کی جھلک دکھائی پڑتی ہے۔ جیب کترے دنوں کی اصطلاح کتنی بھلی لگ رہی ہے۔ جنہیں شہروں کی تنگ پڑتی شبوں کی تنگ دامانی سے رہائی کی خواہش ہے اور یہ خوابوں کی اڑن طشتری ہی تو ہے جس پہ سوار ہو کے شاعر کا تخیل وسیع المعانی جہتوں سے نبرد آزما ہے۔

میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

خاک خود اپنا آئین ہے

نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

جو مساوی کرے

کیسی مایوسیاں

اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

تسخیر ہونا ہی ہے

یہاں ہمیں دو سطور

میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

خاک خود اپنا آئین ہے

اس لئے بھی زائد لگ رہی ہیں کہ موضوع اور ترتیب سے میل کھاتی محسوس نہیں ہوتیں لیکن یہ صرف ہما را خیال بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگلی لائنوں میں وہی تسلسل بر قرار ہے جو نا ممکن کو ممکن بنا نے کی سعی کرتا ہے۔ یعنی تقدیر پہ تدبیر حا وی ہے اور شاعر نے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک کرن خوابوں کے سو رج سے مستعار لے کر پھینکی ہے۔ جسے اپنی سچائی پہ پو را اعتماد اور تیقن ہے۔ احباب نے اس نظم میں ’زید‘ کو اشتراکیت اور نظامیاتی حد بندیوں کے خلاف جنگ آزما دیکھا ہے اور ہم نے اسے خوابوں کے سہا رے اپنی تفریق سے نفی کے کا نٹے چنتے اور اثبات میں حل ہوتے محسوس کیا ہے۔

٭٭

 

قاسم یعقوب

 

صاحبِ صدر!

متن پر گفتگو کرتے ہوئے ہم تعبیرِ متن کی مختلف ترجیحات سے گزرتے ہیں۔ نظم کا متن اس حوالے سے اور بھی مشکل شکل اختیار کر لیتا ہے جب متن کے مندرجات کو منشائے مصنف، منشائے قاری، متن کی خود مکتفی حالت اور تشریح کرنے والے کی فکری و فنی و جمالیاتی ترجیحات کے تناظر سے پڑھا جائے۔ یوں کسی بھی تنقیدی ڈسکورس کے اندر تعین قدر کوئی بڑا مسئلہ نہیں جتنا جدید ادبی تھیوری کے ضمن میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے۔ نئی تھیوری تو اس حوالے سے خاطر خواہ اہتمام بھی کرتی ہے۔ ’ایک نظم زید کے نام‘، آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم تو نہیں مگر ’زید‘ اُن کا نمائندہ استعارہ یا کردار ضرور رہا ہے۔ گو ’زید‘ شاعر کے کسی ایک فکری جہت کا احاطہ بھی نہیں کرتا۔ نظم کی پڑھت میں تشریحی دائرہ [Hermencutical Circle] اپنی حدود میں شاعر کے اس کردار کے تمام تخلیقی مفاہیم کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ آفتاب صاحب خود لکھتے ہیں: ’’میں اپنی گمبھیر تنہائی میں ’زید‘ سے ملتا ہوں۔ وہ میرا آسیب یا ہمزاد یا ضمیر نہیں۔ شاید وہ میری اصل ہے۔ نا وقت اور نا لفظ میں چھپی ہوئی اصل۔۔۔ جس سے گفتگو تو کرتا ہوں لیکن یک طرفہ۔ وہ میرے سامنے ہوتا ہے لیکن میری پہچان سے باہر رہتا ہے۔ پہچانوں بھی کیسے کہ کئی زمانے نوکِ سوزن سے آنکھ پر کھینچی ہوئی خراشیں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اور میں زندگی کے دو اہم کردار ہیں، ایک دوسرے کی دسترس سے ذرا ہٹے ہوئے۔ اُس کے بہت سے اندھیرے میری حسیات کے ٹٹولنے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اُس کی بہت سی آوازیں میری سماعت کے منطقوں سے نیچے یا اوپر رہتی ہیں۔ وہ میرا اور میں اس کا محرم نہیں بن سکتا کہ وہ میری پوری سچائی ہے اور میں اپنی آدھی سچائی۔ میں اس سے یک طرفہ مکالمہ کر رہا ہوں۔ ’’ (میں اور وہ، دیباچہ ’زید‘ سے مکالمہ)۔ حمید شاہد صاحب نے ’زید‘ کی وضاحت کے لیے فردا نژاد سے آفتاب صاحب کی ایک مثال پیش کی ہے۔ مگر نظم کے اندر وہ ایک مختلف کردار کے ساتھ ابھرتا ہے۔ مذکورہ بالا نظم میں ’زید‘ کا کردار نظم کے Content میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

نظم بنیادی طور پر تین مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ اپنے ارد گرد بکھرے لوگوں کو اپنی دانش کا وسیلہ بتاتا ہے، اپنے جذبے کے قبیلے کا انکشاف کرتا ہے۔ (یہ وہ نام ہیں جو دال روٹی کی گردان میں عمر گزار رہے ہیں) دوسرے مرحلے میں شاعر اپنے آپ کو بھی ان میں شامل کرتے ہوئے ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ ’’ہم کہ جورو جفا اور بے مہر صدیوں کی دوزخ میں ہیں‘‘۔ نظم کے اسی مرحلے میں شاعر منظر نامہ کی تبدیلی کا خواب دیکھتا ہے اور اس شک میں اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ شاید یہ دنیا بدل جائے۔ تیسرے مرحلے میں شاعر کا یہ شک (جو خواہش کی حد تک موجود ہے) دنیا بدل جانے اور خاک کا آئین بن کر ایک ناگزیر عمل کی صورت سامنے آتا ہے۔ خاک کے آئین نے نا مساوی کو مساوی میں بدلنا ہے جھوٹ نے سچ سے تسخیر ہو جانا ہے۔ لہٰذا ’کیسی مایوسیاں‘

اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ متن کی ساخت اتنی سادہ اور واضح ہے تو قاری متن کے عرصے [Space] میں خود کو متن کے ایک ہی پرت میں ملفوف رکھنے پر اکتفا کر لے گا۔ نظم کے متن کی جس خوبی کی طرف علی محمد فرشی صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ یہ ابہام سے ’پاک‘ ہے میرے خیال میں اس نظم کی یہی خامی بھی ہو سکتی ہے۔ غیر طے شدہ صورتِ حال [Undicidability] کے نہ ہونے سے ہم ’زید‘ کے کردار میں کسی پیچیدگی کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ زید کا کردار یہاں بہت نمایاں اور نظم کا مرکزی ہیولہ لے کر نظم کو آگے بہاتا ہے۔

ایک اہم نقطے کی طرف توجہ ضروری ہے۔ علی محمد فرشی صاحب نے تانیثی حوالے سے بھی اس نظم میں ایک اشارہ دیا ہے۔ نظم کے Content میں تانیثیت [Feminist] نہیں بلکہ تثنیتی تخالف [Binary Opposition] رویہ ابھارا گیا ہے۔ اور یہ نظم کا اضافی جزو ہے، لازمہ [Essential] نہیں۔ اصل میں شاعر نے ’زید‘ کی قسمت (رزق اور روزی کی ابجد سے بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے یہ گاؤں، یہ شہر آباد ہیں) اور اُس کے لوکیل (گلیوں، محلوں کے لچے، لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو، فلاں اور فلاں اور شہر کی تنگ دامانیوں کی سزا سے رہائی ملے) میں اپنی رومانی جذباتیت کا لگاؤ بھی تلاش کیا ہُوا ہے۔ اُسے زید کی ان گلیوں سے اس لیے بھی رغبت کہ وہ ان سے زندگی کے معنی کشید کرتا آ رہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُس کا دُکھ ’زید کا دُکھ‘ ہی نہیں رہتا بلکہ ’جنم دُکھ‘ بن گیا ہے۔ اُس کا دل شاہزادہ ہے چشم و لب اور جان و بدن کی عبارت میں لکھی ہوئی داستانوں میں، زندگی کی معنیاتی توجیح شاعر کو عشق کے قاف کی پری زاد سکھا رہی ہیں وہ کیوں نہ اس تیقن سے گزرے کہ نا مساوی نے ترکیب کے زور سے مساوی ہونا ہے ایک دن۔ اسی لیے اُس کا جذبہ زید کے قبیلے سے ہے۔

نظم کے اندر تانیثی جمال کا بھرپور احساس نظم کے متن میں Dissemination کا تقاضا ہے۔ قاضی افضال نے ڈریڈا کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’Dissemination متن کی زرخیزی کی وہ قوت ہے جو کثرتِ معنی بلکہ خود معنی کے مروجہ تصور سے متن کو آزاد کرتی ہے۔‘‘ میرے خیال میں یہی وہ قوت ہے جو شاعر کو زندگی آشنا اور جمال آفریں جذبات میں چیزوں کو دیکھنے پر مائل کرتی ہے جس نے بے مہر صدیوں کی دوزخ میں یہ تیقن عطا کر دیا ہے کہ جھوٹ کو سچ نے تسخیر کر کے نا مساوی کو مساوی کے آئین میں بدل دینا ہے۔

قاسم یعقوب: آفتاب اقبال شمیم کا فن سمجھنے کے لیے ہمیں اُن کی ایک دو نظموں کے تجزیے سے تشفی نہیں ہوتی۔ آفتاب شمیم نے جہاں طویل فارم اختیار کی ہے وہ زیادہ کھل کر اپنا اظہار کر پائے ہیں۔ فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر اور یں نظم لکھتا ہوں میں اُن کا نظمیہ آرٹ ’زید سے مکالمہ‘ میں زیادہ جان دار سطح پر ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں ۶، یا ۷ طویل نظمیں شامل ہیں۔ مجھے تو مذکورہ زیرِ بحث نظم میں ایسے لگ رہا ہے کہ وہ کسی بڑی نظم کی تمہیدی لائنوں کے بعد ہی اختتام کی طرف چلے گئے اور ابھی نظم شروع ہونی تھی۔ ’میں نظم لکھتا ہوں‘ میں بیشتر نظموں کا یہی حال ہے۔ اس نظم کو پڑھتے اور اس پر بحث اُٹھاتے ہوئے اس نقطے پر دھیان بہت ضروری ہے۔

نئی نظم، جو راشد کے ساتھ ظہور میں آئی، نے بیک وقت اپنی روایت سے بھی رشتہ جوڑے رکھا اور نئے امکانات کو بھی خوش آمدید کہا۔ اسّی کی دہائی تک یہی منظر نامہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا مگر موجودہ نظم کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ وہ روایت سے منقطع ہوتی جا رہی ہے۔ آپ خود نظم کے اچھے شاعر ہیں آپ آفتاب شمیم صاحب پر گفتگو میں اس اہم مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاتے جائیں۔ نثری نظم میں یہ المیہ زیادہ شدید ہے۔ عبد الرشید، افضال احمد سید اور زاہد امروز کی نثری نظمیں اس حوالے سے پیش کی جا سکتی ہیں جن میں روایت سے حد درجہ انقطاع موجود ہے مگر نیا امکان زیادہ ہی اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ظہور کرتا نظر آتا۔ زاہد امروز نے تو کافی حد تک اس ڈھیلے پن کو سنبھالا ہے۔ آفتاب اقبال شمیم نے نئی نسل کو یہ پیغام تو دیا ہے کہ انحراف کے لیے بھی مٹی پر کھڑے ہونا ضروری ہے۔

٭٭

ظفر سیّد

 

جنابِ صدر: نظم پر اچھی بحث ہوئی ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو شاعر کی مجموعی فکر کے پس منظر میں بھی رکھ کر دیکھا گیا ہے۔

اس بات پر بھی بہت کچھ کہا گیا ہے کہ زید کون ہے، اور اس ضمن میں خود شاعر کے خیالات بھی پیش کیے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ زید نہ تو ان کا ہمزاد ہے، نہ آسیب اور نہ ہی ضمیر، بلکہ ’شاید میری اصل ہے۔، اگر ہم صرف نظمِ زیرِ بحث پر توجہ مرکوز کر کے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظم میں بیان کردہ گروہ اور متکلم نہ صرف مختلف ہیں بلکہ زندگی کے دو الگ دھاروں سے تعلق رکھتے ہیں۔

جن کے ہم راہ چلتا ہوں

چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں

دال روٹی کی گردان میں

عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

یہ زیدوں یا ’عام‘ آدمیوں کا وہ گروہ ہے جو دن رات دال روٹی کی گردان میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بات کہ وہ خود اس بات کی شکایت نہیں کر رہے، صرف شاعر ہی کو ان کے دکھ کا احساس ہے۔ یہ بات زید اور شاعر کو دو الگ طبقوں کا باسی بنا دیتی ہے (شعر میرے ہیں گو خواص پسند/گفتگو پر مجھے عوام سے ہے)

یہ سطریں پڑھتے ہوئے مجھے فرانسیسی ادیب فلابئیر سے منسوب ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب فلابئیر چھوٹے چھوٹے دکان داروں کو اتوار کے دن اپنی اپنی فیملیوں کے ہمراہ پکنک منانے کے لیے خوشی خوشی تیاری کرتے دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ مجھ سے تو یہی لوگ بہتر ہیں۔ یہ معاشرے کا نچلا طبقہ ہے جن کا دامن فلابئیر کی طرح کون و مکاں کے مسائل کی خار دار جھاڑیوں سے الجھا ہوا نہیں ہے اور وہ بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں، لیکن وہ کم از کم فلابئیر کی طرح ذہنی اور نفسیاتی اذیت کا شکار نہیں ہیں۔

آفتاب اقبال شمیم کے ہاں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے دنیا آباد ہے، انھیں مسائلِ روزگار کی چوہا دوڑ کسی اور طرف متوجہ ہونے ہی نہیں دیتی۔ لیکن متکلم واضح طور پر ان کا حصہ نہیں ہے، اس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہے، لیکن وہ اپنی جکڑ بندیاں پھلانگ کر ان میں آ ملا ہے۔

یہاں شاعر کی اذیت دہری ہے، کیوں کہ وہ فلابئیر کی طرح چھت پر بیٹھا ’جنم دکھ، اور ’بے مہر صدیوں، کا بوجھ دل پر لیے نیچے گلی میں ہونے والا تماشا نہیں دیکھ رہا، بلکہ وہ فکری اور جسمانی طور بھی ’عوام، کے ساتھ ساتھ ہے۔

شاعر کا یہی احساس ہے جو اس نظم کو عمدہ کی سطح سے اٹھا کر اعلیٰ نظموں کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔

جنابِ صدر: نظموں کے انتخاب پر ایک سوال آیا تھا۔ اس پر فرشی صاحب پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔ میں صرف یہ کہتا چلوں کہ حاشیہ کے کسی بھی اجلاس کا سب سے مشکل مرحلہ نظم کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ صرف عمدہ نظم ہی چننے سے کام نہیں چلتا، بلکہ ایسی نظم ڈھونڈنا پڑتی ہے جس پر بحث کی بھی بھرپور گنجائش موجود ہو۔ بعض نظمیں ایسی ہوتی ہیں جو متاثر تو کرتی ہیں لیکن دو تین ہفتے تک بحث ’سہنے، کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ بعض نظمیں ایسی ہوتی ہیں جن پر بحث تو ہو سکتی ہے لیکن وہ فنی سطح پر متاثر نہیں کرتیں۔

ظاہر ہے کہ کسی شاعر کی سینکڑوں نظموں میں سے ایک نظم کا جب انتخاب کیا جاتا ہے تو اس پر سب کا اتفاق ممکن نہیں ہے۔ تاہم ’حاشیہ، کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا محدودات کے اندر رہتے ہوئے بہترین نظم چنی جائے۔

٭٭

 

آفتاب اقبال شمیم

 

میرے خیال سے زید Elemental Man ہے، کوئی فلسفیاتی معما نہیں۔ ’زید، امید و موجود اور آدمی کے لیے بڑے خواب تک پھیلی ہوئی زندگی کا استعارہ بھی ہے اور حوالہ بھی۔ وہ فرد میں شامل بھی ہے اور اس سے ماورا بھی۔ وہ اپنی جبلتوں میں ثابت اور تمناؤں میں سیار۔ وہ میری طویل خود کلامی میں مجھے محوِ گفتگو رہتا ہے، اور مجھے مایوس نہیں ہونے دیتا۔

میری نظم پر علی محمد فرشی صاحب کا ابتدائیہ ایک مختصر مگر جامع مضمون ہے جو نظم میں گہرائی تک اتر کر اور عصر کے سیاق و سباق سے مشورہ کر کے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اس نے ایک آسان سی نظم کو مزید آسان کر دیا ہے۔ جلیل عالی صاحب نے اسے انسان سے میری کمٹمنٹ اور وجودی ویژن کا تخلیقی اظہار قرار دیا ہے۔ حمید شاہد صاحب نے اجنبیائے جانے اور کایا پلٹ کے پس منظر میں اس نظم کا جائزہ لیا ہے۔ قاسم یعقوب صاحب نے دریدا کے حوالے سے (کہا ہے کہ) نظم کے متن کے اندر ہی ایک تخلیقی اور منطقی محرک متن کو معنی کے مروجہ تصور سے آزاد کر دیتا ہے۔

صدر نشین سعید احمد صاحب خود نظم گو ہیں، اور ایک نظم گو کی واردات کو سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات نظم کی بعض جہتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ میں یامین صاحب، سحر آفرین صاحبہ، ظفر سید، اور دیگر احباب کا بھی شکرگزار ہوں جنھوں نے دوڑتے سمے میں رک کر نظم کو ذرا غور سے دیکھا۔

کیا کہوں، بہت پرانا آدمی بھی ہوں اور بہت نیا آدمی بھی ہوں۔ صدیوں میں رہتا ہوں اور گزرتے ہوئے لمحے کی چاپ بھی سنتا ہوں۔ نام وری میرا مسئلہ نہیں۔ گلیوں محلوں میں پلا بڑھا ہوں۔ یہ ہمیشہ سے دکھ سہنے والے اور بے خبری کی قناعت میں رہنے والے لوگ مجھے میرے لگتے ہیں۔ ان سے میرا یک طرفہ سمبندھ ہے، بہت مضبوط، زمین کی استقامت جتنا مضبوط۔

حسن کا خواب میں لڑکپن میں لڑکیوں کی شکل میں دیکھتا تھا۔ میرا فلیش بیک کا اپریٹس کبھی خراب نہیں ہوا۔ میرا تصور رونقِ حسن میں رہتا ہے اور یہ رونق میرے غم کو معتدل کرتی رہتی ہے۔ وقت کہتا ہے کہ میں پہچان کے سفر میں ہوں۔ اور لاشعور میں مجھ پر جھلکیوں کے روزن کھلتا لا وقت کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں اور میں بڑے خواب کی تعبیر کی حد و زد میں ہوں۔

میں سیاسی آدمی نہیں ہوں، لیکن تاریخ کے جبر کا یہ تماشا بہ چشمِ خود عمر بھر سے دیکھ رہا ہوں کہ اربوں کی آبادیوں پر اشرافیہ، اس کی زر خریدہ دانش، پیر، پروہت، پادری اور اسلحہ بردار قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور اس اندھیر کا کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔ انسانی آزادیوں کا خواب میری خود کلامی کی ایک اہم جہت ہے۔ شاید اسی لیے اس نظم کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ کسی حد تک براہِ راست نظم میرے مزاحمتی شعور کا احاطہ تو کرتی ہے لیکن مجھے اور بھی غم درپیش ہیں۔ وجودی مسائل، سوال اٹھاتی ہوئی فکری پیچیدہ روی، وقت لا وقت اور نہ معلوم کیا کیا۔ قاسم یعقوب صاحب ’ایک نظم زید کے نام، کو میری نمائندہ نظم نہیں گردانتے۔ اگر مجھ سے انتخاب کے لیے کہا جاتا تو میں ’میں نظم لکھتا ہوں، میں شامل نظم ’وقت نما، پیش کرتا، جو قدرے طویل تو ہے لیکن میری کچھ اور جہتوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔

چلیے، یہ کون سا مشکل مرحلہ ہے، کوئی نظم کسی بھی وقت ’حاشیہ، کے فورم پر دستک دے سکتی ہے۔

اب کچھ ابہام کے بارے میں، جس کا تذکرہ فرشی صاحب نے اپنے ابتدائیے میں کیا ہے۔ ابہام شاعری کا وصف ہے، ورنہ ریشنیلٹی کی اقلیم کا تاج دارِ اول افلاطون اپنی خیالی ریاست سے شاعروں کو خارج کرنے کا کیوں سوچتا۔ ابہام شاعروں کا لازمہ ہے جو نظم کے دورانیے میں آدھے آدمی کو پورا آدمی بننے کی آزادی دیتا ہے، ریشنیلٹی کو اِر ریشنیلٹی سے جوڑتا ہے۔ یہ ابہام اتنا بھی کم نہ ہو کہ نظم شروع شروع کی نظموں کی طرح عنوان گرفتہ جواب مضمون بن جائے، اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ غزل اور میڈیا کا قاری حواس باختہ ہو جائے۔

شاعر بھی چالاک ہوتا ہے اور کم و بیش کا حساب خوب جانتا ہے۔ لیکن نظم میں جہاں کمٹمنٹ کی بات ہو وہاں ابہام نہیں چلتا۔

٭٭

سعید احمد

 

محترم اراکین حاشیہ! مجھے افسوس ہے کہ میری ذاتی مجبوریوں کی بنا پر آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی۔ نظم پر بحث تمام ہوئی نسبتاً کم ارکان کی شرکت کے باوجود زیر بحث نظم اور جناب آفتاب اقبال شمیم کی مجموعی نظم نگاری کے حوالے سے بہت سے اہم نکات پر گفتگو ہوئی۔ جناب آفتاب اقبال شمیم نظم کے تخلیقی انہماک میں عمر بسر کرنے والے شاعر ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے خود اپنی گفتگو میں اس بات کا ذکر کیا کہ ناموری ان کا مسئلہ نہیں۔ یہ محض ان کا زبانی کلامی دعوی’ نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی برس کی محبت آمیز آشنائی کے دوران ہم نے یہی دیکھا ہے کہ وہ ہمہ وقت نظم کے تخلیق میں محو رہنے والے شاعر ہیں۔ نام نہاد شہرتوں کی خواہش میں رسوا ہوتے اس عہد میں آفتاب اقبال شمیم جیسے نظم نگار کا ہمارے درمیان ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں انہیں بار بار ایک اصیل شاعر قرار دیا ہے نیز انہوں نے نظم کے تجزیے سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے آفتاب اقبال شمیم کے نظریۂ فن، فکری ابعاد اور اسلوبیاتی خصائص کی احسن انداز میں وضاحت کی ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ آفتاب اقبال شمیم نے نظم نگاری کا آغاز اس وقت کیا جب ترقی پسند تحریک اپنا ساز و سامان سمیٹ رہی تھی۔ راشد، میرا جی اور مجید امجد نظم کو پروپیگنڈے سے رہائی دلا کر آرٹ کے منصب پر فائز کر چکے تھے لیکن انھوں نے اس امر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ یہی وہ وقت تھا جب افتخار جالب، جیلانی کامران اور انیس ناگی وغیرہم نئی نظم کا ڈول ڈال چکے تھے۔ آفتاب اقبال شمیم کے حوالے سے نئی نظم کی تحریک کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ انھوں نے جدید نظم کے اس تیسرے دھارے سے بھی اکتساب کیا ہے چاہے یہ اکتساب اس ابہام کے خلاف رد عمل کی صورت میں ہو جو افتخار جالب اور نئی نظم کے دوسرے شاعروں کی نظموں کی تفہیم میں مشکلات پیدا کر رہا تھا یا غزل کی شعریات سے عبارت اس زبان کے خلاف ہو جس کی تبدیلی کے لیے پہلے پہل جیلانی کامران نے استانزے میں تنقیدی و تخلیقی ہر دو سطحوں پر آواز بلند کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آفتاب اقبال شمیم نے نظم کی ایک نئی تخلیقی جہت دریافت کی ہے جو اپنی پیش رو نظم کے تینوں دھاروں کے فنی و فکری امتزاج کے باوجود ان سے الگ اور منفرد بھی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم کے مطالعے کے دوران اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ ان کی یہی انفرادیت ہے جس کی بنا پر ہم انہیں نظم کے مقبول اسالیب کے ساتھ بریکٹ کر کے نہیں دیکھ سکتے اس پر مستزاد یہ کہ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ ’ان کی فکری ساخت و پرداخت ترقی پسند نظریے کی آغوش میں ہوئی ہے شاید اس آگاہی کا نتیجہ ہے کہ ہم انہیں ایک جدید نظم نگار سمجھنے کے باوجود ان کی نظموں کی تعبیر ہمیشہ ترقی پسند فکر کے تناظر میں کرتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال زیر بحث نظم کی تفہیم کے ساتھ بھی پیش آئی ہے۔ حالانکہ جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں واضح طور پر یہ کہا تھا کہ ’’آفتاب اقبال شمیم ایک اصیل شاعر ہے اور کسی اصیل شاعر کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک نظریے کے جوتے پہن کر آنکھیں بند کیے کسی ایک راستے پر چلتا رہے جیسا کہ اس شاعر نے کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنا راستہ ہٹ کر بنایا ہے‘‘ پھر جناب جلیل عالی نے آفتاب اقبال شمیم کی نظم کی چند اور جہتوں کے بیان کے لیے شاعر کے ’انسان مرکز شعری ویژن‘، ’وجودی کرب‘ اور ’وجودی ویژن‘ کی طرف درست انداز میں اشارے کیے ہیں۔ حتیٰ کہ خود آفتاب صاحب نے یہ کہہ کر کہ ’’شاعر بھی چالاک ہوتا ہے اور کم و بیش کا حساب خوب جانتا ہے‘ شاید ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ نظم کی بار دگر خواندگی کر کے دیکھیے شاید کوئی اور پرت بھی کھل جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور علی محمد فرشی کے ابتدائیے سے جناب رفعت اقبال کی گفتگو تک نظم کی تفہیم معروف ترقی پسند اصطلاحات محروم طبقات، معاشی معاشرتی انصاف، ظلم کی چکی میں پستے عوام اور طبقاتی کلاس وغیرہ کی روشنی ہی میں ہوئی۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میرا اختلاف ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس نظم کی ایسی تعبیر کی گنجائش نہیں تھی میرا اختلاف اور اصرار یہ ہے کہ اس نظم کے متن کو پیش نظر رکھ کر کسی اور تعبیر کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نظم پر ہونے والی ساری گفتگو نظم کے حاوی محرک سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس کی ایک وجہ تو علی محد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں خود ہی بیان کر دی تھی کہ ’’آفتاب اقبال شمیم کی نظم ابہام سے پاک ہونے کے باوجود ناقدین کی ضروری توجہ سے محروم ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی پسند اور آسانی کے اسیر ہیں۔‘‘ اور اس آسانی کا ثبوت انھوں نے اگلے ہی جملے میں یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ ’’زیر بحث نظم شروع ہی میں اپنے موضوع کا دھاگا ہمیں تھما دیتی ہے جناب حمید شاہد بھی اسی انداز میں نظم کی کسی دوسری پرت کھولنے کے بجائے یہ کہہ کر گفتگو آغاز کرتے ہیں‘‘ نظم کے عین آغاز میں شاعر نے اپنی دانش اور اپنی فکر کے نہ صرف منبع کو بتا دیا ہے، اپنی فکر اور دانش کے سروکاروں کو بھی واضح کر دیا ہے ایسے میں وہ سارے ابہام جو معنیاتی دھارے کا رخنہ ہو سکتے تھے اس نظم کا مسئلہ نہیں رہتے جناب قاسم یعقوب کی رائے بھی اس سے کچھ مختلف نہیں وہ کہتے ہیں ’متن کی ساخت اتنی سادہ اور واضح ہے تو قاری متن کے عرصے [Space] میں خود کو متن کے ایک ہی پرت میں ملفوف رکھنے پر اکتفا کر لے گا۔‘

آپ تمام احباب کی درج بالا آرا میرے لیے معتبر ہیں لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان تمام آرا میں کہیں نہ کہیں متن کے سرسری مطالعے کا شائبہ ضرور ہوتا ہے اور ایسا شاید اس لیے بھی ہوا ہے کہ ہم نہ صرف آفتاب اقبال شمیم کی فکری وابستگیوں سے آگاہ ہیں بلکہ زیر بحث نظم کی پیش منظریت foregrounding بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے: ’دال روٹی‘، ’جور و جفا‘، ’بے مہر صدیوں کی دوزخ‘، ’گلا کاٹتے جیب کترے دن‘، ’خواب فردا‘ اور ’جھوٹ سچ کی لڑائی میں سچ کی فتح‘ وغیرہ نظم کا ایسا ہی ڈکشن ترتیب دیتے ہیں کہ ذہن خواہ مخواہ خود کو ترقی پسند نظم کے دھارے سے جوڑ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ’معاشی معاشرتی انصاف کے آدرش کا امین شاعر مدت مدید سے کرب کی چکی میں پستے محروم طبقات کی خوشحالی کا خواب دیکھ رہا ہے اور دیگر ترقی پسندوں کی طرح امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور سمجھتا ہے کہ پرولتاری اور بورژوا کی جنگ میں آخر ایک روز مزدور کسان اپنے حقوق کی جنگ جیت جائیں گے اور یوں سچ کی فتح ہو کر رہے گی۔‘‘ نظم کے اس پیش منظر کو سامنے رکھ کر جناب علی محمد فرشی نے نظم کی تفہیم خوب کی ہے لیکن اسی تفہیم کے دوران وہ ایک جملہ ایسا بھی لکھ گئے ہیں جس پہ شاید انہوں نے بھی رک غور نہیں کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ انہوں لکھا ہے کہ اس نظم کا شاعر ’’عوام کو جن کی عمریں پیٹ کے تنور کا ایندھن بن جاتی ہیں ظالموں اور غاصبوں کے تخت گرانے پر اکساتا ہے نہ ان کے تاج اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘ علی محمد فرشی نے اس امر کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جس ترقی پسند تناظر میں نظم کی تعبیر کی گئی ہے اس کا تو لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ عوام کو غاصبوں کے خلاف انقلاب برپا کرنے پر اکسایا جاتا۔ یہی وہ سوال ہے جس نے مجھے نظم کی بار دگر خواندگی پر مجبور کیا اور میں نے کوشش کی ہے کہ متن پر انحصار کر کے دیکھوں کہ کیا نظم کے deep structure میں کوئی اور پرت پوشیدہ تو نہیں۔ اس سے پہلے کہ اس حوالے سے میں اپنی معروضات پیش کروں جناب جلیل عالی کی رائے بھی دیکھتے چلیں۔ وہ شاعر کی فکری ساخت و پرداخت کو محض ترقی پسند نظریے سے الگ کر کے دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں ’’وہ انسان کو نا انسان بنانے والی ہر صورت کی مخالفت کرتا ہے نیز یہ کہ شاعر کا انسان مرکز شعری ویژن کسی منشوری سوچ کا زائیدہ نہیں بلکہ اس کے نا آسودہ احساس جمال کی دین ہے اس میں محض معاشی محرومیوں کی نا آسودگی سے جنم لینے والے جارحانہ رد عمل کو کسی جد و جہد کی بنیاد نہیں بنایا گیا۔‘‘ یہ تمام اوصاف ایک جدید نظم نگار کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ ترقی پسند نظم جس انسان کے المیے کو پیش کرتی رہی ہے اسے اپنے نا انسان ہونے کا ڈر نہیں تھا۔ اسے علم تھا کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے اسے یہ امید اور یقین بھی تھا کہ ایک نہ ایک دن ظلم کی طویل رات ڈھل جائے گی اور سرخ سویرا طلوع ہو گا تمام مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا اور زندگی خوشیوں سے عبارت ہو گی جب کہ زیر بحث نظم میں مجھے کہیں ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اس لیے نظم کے آغاز ہی سے اس کے موضوع کا دھاگہ اس طرح میرے ہاتھ نہیں آ سکا جیسا کہ فرشی صاحب کے ہاتھ آ گیا تھا۔ میرے لیے نظم کی کلیدی سطر ’مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے‘ ہے۔ مجھے یہ دکھ اسی وجودی آگہی سے پھوٹتا نظر آیا جس کے مطابق انسان کو اس کی مرضی کے بغیر اس کرہ ارض پر پھینک دیا گیا ہے۔ نظم میں یہ دکھ شاعر کی اصل یعنی زید کی خود کلامی کی صورت میں آشکار ہوا ہے۔ اسی دکھ کی آگہی کی روشنی میں شاعر اپنی اور اپنے قبیلے کی شناخت کے عمل سے گزرتا ہوا وقت کے جبر کو موضوع بناتا ہے۔ علی محمد فرشی نے نظم کی جس مقامیت کا ذکر کیا تھا میرے خیال میں یہ مقامیت مکان (space) کی ہے۔ مکان جہاں زمان کا جبر طاری ہے اس پر مستزاد وہ پوشیدہ قوتیں جو انسان کو دال روٹی کی ’گردان‘ میں مبتلا کر کے نا انسان بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

دال روٹی کی گردان میں

عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

میں سمجھتا ہوں یہاں مسئلہ دال روٹی کی عدم دستیابی اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ بھوک کا نہیں ہے۔ ان سطور میں اصل اہمیت کا حامل لفظ ’گردان‘ ہے۔ جو دہرائی یا تکرار کا عمل ہے۔ یوں یہ سطر دال روٹی کی خواہش میں مبتلا عوام کو موضوع نہیں بناتی بلکہ یہ وہ عوام ہیں جو دال روٹی کے حصول کے بعد اسی کی تکرار کی تکرار میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔ سو شاعر کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو رزق کے چکر میں گرفتار ہو کر زندگی کی تکرار میں مبتلا ہیں اور جنھیں یہ خبر بھی نہیں کہ یہ تکرار routine & cyclic بے رس یکسانیت اور اکتاہٹ میں ڈھلتی جاتی ہے۔ نظم کا واحد متکلم اس اکتاہٹ کو ذاتی اور اجتماعی ہر دو سطح پر دریافت اور شناخت کرنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ البتہ اس میں اور اجتماع میں یہ فرق ضرور ہے کہ اجتماع زندگی کی جس غیر تخلیقی گردان کو رٹنے میں مصروف ہے اس کی آگاہی اسے حاصل نہیں۔ نظم کا واحد متکلم یا شاعر کی اصل زید یا خود شاعر نہ صرف محض روز کی اس تکرار میں انسان کو نا انسان ہوتے دیکھ رہا ہے بلکہ اسی حوالے سے اپنی دانش کی آبیاری کرتے ہوئے گھٹن اور حبس میں سانس لینے کے لیے حسن کے نظارے کی کھڑکی کھولنے پربھی قادر ہے۔

 

کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی

یہ لڑکیاں

عشق کے قاف کی وہ پریزاد ہیں

جن کی دلداریوں کے گلاب و سمن

چشم و لب اور جان و بدن کی

عبارت میں

لکھی ہوئی داستانوں میں

دل شاہزادہ ہے گم نام صدیوں سے

بھٹکا ہوا

نظم کی ان سطور کے حوالے سے آفتاب اقبال شمیم نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ ان کا Flash back کا اپریٹس کبھی خراب نہیں ہوا حالانکہ نظم کے اختتام تک پہنچتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے Flash forward کے اپریٹس کی ورکنگ کنڈیشن بھی بہت اچھی ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ نظم کی درج بالا سطور کے حوالے سے مجھے کہنا یہ تھا کہ آفتاب اقبال شمیم نے یہاں وجودی فلسفے کی حرف بہ حرف پیروی کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ ان کا ایسا اختصاص ہے جو کسی فلسفے کی پیروی میں نظم تخلیق کرنے کے بجائے بقول جلیل عالی اپنے نا آسودہ احساس جمال کی پیروی میں نظم تخلیق کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیم نے وجودی ادیبوں کی طرح محض زندگی قبیح تصویر کشی سے جا بہ جا گریز کر کے حسن کے نظارے سے امید کے لمحے بھی کشید کیے ہیں۔ نظم کے ان پہلے دو حصوں کا تقابل کر کے دیکھیں تو زندگی کی دو یکسر متضاد تصویریں نمایاں نظر آتی ہیں۔ پہلی تصویر ایک ایسے قبیلے کی ہے جو غیر تخلیقی زندگی کا اسیر ہے جس کا ایک فرد خود شاعر بھی ہے جو نروان کے لمحے سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ زندگی حقیقت میں کچھ اور شے ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ گوتم کی طرح نروان کے حصول سے پہلے یا بعد میں خود کو اپنے قبیلے سے جدا کر کے دیکھنے کا روادار نہیں۔ شاید اس لیے کہ فرد اور اجتماع اس کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یوں وہ وجودی کرب کا شکار تو ہوتا ہے لیکن وجودی تنہائی سے بچ جاتا ہے۔ ہر چند ایک خود آگاہ فرد ہونے کا ناطے وہ ایک سطح پر اس تنہائی کا شکار ہے بھی۔ اور اسی خود آگاہی کے نتیجے میں وہ دوسری تصویر ہمارے سامنے رکھتا ہے جس میں زندگی کی تکرار، یکسانیت اور اکتاہٹ سے بھاگ کر بھٹکے ہوئے شاہزادۂ دل کے لیے تخلیقی امکانات موجود ہیں۔۔۔۔ نظم کے ان دو حصوں میں بعض سادہ سے الفاظ کا خوبصورت استعمال آفتاب اقبال شمیم کی فنی دسترس کا ثبوت ہے۔ مثلاً نظم کی چھٹی سطر میں لفظ ’رونق‘ بظاہر تو زندگی کی بھاگ دوڑ کا نمائندہ نظر آتا ہے لیکن اگر اسے دال روٹی کی گردان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکرار اور یکسانیت کے تناظر میں دیکھیں تو اس طنز کا احساس ہوتا ہے جو ایسی زندگی کی چہل پہل سے وابستہ ہے جس میں سفر کا دائرہ لا حاصلی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح ’عشق کے قاف‘ کی ترکیب سے کوہ قاف کا خیال پیدا ہونا تو سامنے کی بات ہے لیکن ذرا غور کرنے سے احساس ہوتا ہے کہ ’قاف‘ تو عشق کے انتہا کی علامت بھی ہے۔ مرقع زیست سے دو مختلف اور متضاد تصویروں کے تقابل کے نتیجے میں شاعر کرہ ارض پر حیات کے اس دائمی دکھ کے بیان تک پہنچا ہے جو ہر نئے جنم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دکھ چونکہ کسی ایک فرد کا نہیں اس لیے یہاں شاعر نے واحد متکلم کا صیغہ چھوڑ کر جمع کا صیغہ ’ہم‘ استعمال کیا ہے۔

ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

دوزخ میں ہیں

کیا پتا کل نہ ہوں

کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

یہ خواب وقت اور حالات کے جبر سے نکلنے کا خواب ہے جسے انسان کل بھی دیکھتا تھا اور آج بھی دیکھتا ہے لیکن زمان و مکان کی قید میں رہتے ہوئے جس کے سچ ثابت ہونے کا اسے کبھی یقین نہیں آتا البتہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ خواب سچ ہو تو اس کی دنیا ہی بدل جائے۔ میرے نزدیک یہاں دنیا بدل جانے سے شاعر کی مراد کسی نظام یا انقلاب کے ذریعے حالات کی بہتری نہیں بلکہ محاورتاً دنیا بدل جانے کی طرف اشارہ ہے یعنی زندگی ایک ایسی تخلیقی سرشاری میں ڈھل جائے جس کا تجربہ شاید لا وقت ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ اسی باعث شاعر نے فوراً ہی وقت کے جبر کی ایک اثر انگیز تصویر پیش کی ہے جس میں لا وقت کی خواہش بھی موجزن ہے۔

گلیوں محلوں کے

لچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

تنگ دامانیوں کی سزا سے

رہائی ملے

شہروں کی تنگ دامانیوں سے رہا ہوتا وسعتوں کا حامل وقت کا یہ لمحہ ہی شاعر کا خواب فردا ہے جسے وہ زندگی کی بڑی حقیقت تصور کرتا ہے جس کے مقابلے میں دال روٹی کی گردان زیادہ معنی نہیں رکھتی سو شاعر زمان و مکان کے محدودات پر غالب آ کر بحر بے کراں بن جانے کا آرزو مند ہے۔ خواتین و حضرات میں نے close reading کے ذریعے نظم کے متن کی تعبیر کی کوشش کی ہے۔ اور میرے خیال کے مطابق نظم کے تخلیقی چوکھٹے میں اس کا جواز موجود ہے۔

نظم پر اپنی معروضات پیش کرنے کے علاوہ مجھے چند اور نکات کی وضاحت بھی کرنی ہے جن کا تعلق ان سوالات سے ہے جو نظم کی تعبیر کے دوران احباب کی طرف سے اٹھائے گئے۔۔۔۔ ان میں سب پہلا نکتہ تو ابتدائیے میں علی محمد فرشی نے نظم کے ابہام سے پاک ہونے کے حوالے سے اٹھایا اگرچہ انھوں نے بڑی خوبی سے ابہام کو نظم کی خوبی یا خامی نہ تصور کرتے ہوئے موضوع کی غایت، اسلوب کی ضرورت اور شاعر کے فنی میلان کا تقاضا قرار دیا۔ لیکن بعد میں جناب محمد یامین نے اس نکتے پر خاص زور دیتے ہوئے اسے مختلف حوالوں سے شاعری کے بنیادی اوصاف میں سے ایک قرار دیا اور احباب سے اس پہ کھل کر بحث کی گزارش بھی کی لیکن بعد میں کسی نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ اس ضمن میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں خود ان نظم نگاروں میں سے ہوں جو ابہام کو شاعری کا وصف خاص سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں فرشی صاحب کی رائے سے متفق ہوں۔ مزید یہ کہ آفتاب اقبال شمیم کی نظموں میں یقیناً اس ابہام کے خلاف رد عمل موجود ہے جو نظم کو چیستان یا معمہ بنا دیتا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کی تمام نظمیں ابہام سے یکسر پاک ہیں۔ وہ بڑی خوبی کے ساتھ نظم کا ایسا پیش منظر بناتے ہیں جو سہل اور سادہ دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں بقول غالب ’دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں‘۔ پھر ابہام کے حوالے سے یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ شاید اردو نظم میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کے اثرات کے نتیجے میں بہت سے نظم نگاروں کے ہاں ابہام ضرورت سے کچھ زیادہ ہی راہ پا گیا ہے اور ہم اسے نظم کے جدید ہونے کے لیے ایک لازمہ خیال کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ عالمی ادب کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پابلو نرودا، لورکا، رلکے اور سیزر ولیخو ایسے کئی جدید شعرا ہیں جن کی نظموں کی بنیاد ابہام پر نہیں اس کے باوجود انہیں عالمی ادب میں اعلی مقام حاصل ہے۔ یوں بھی ابہام نظم کا ا ایک ایسا وصف ہے جو اپنے تمام حسن کے باوجود نظم کی تعبیر کے دوران تحلیل ہو جاتا ہے۔

جناب قاسم یعقوب نے زیر بحث نظم کے انتخاب پر سوال اٹھایا۔ ان کے خیال میں یہ نظم آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم نہیں ہے بعد میں خود آفتاب اقبال شمیم نے بھی قاسم یعقوب کے خیال کی تائید کر دی اور اپنی ایک نظم ’وقت نما‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان سے پوچھا جاتا تو وہ اس نظم کو بحث کے لیے پیش کرتے۔ در اصل کسی شاعر کی نمائندہ نظم کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ہے۔ حاشیہ کی انتظامیہ اس مشکل کو کیسے حل کرتی ہے، مجھے معلوم نہیں لیکن میری یہ تجویز ہے کہ نظم کے انتخاب میں اگر شاعر سے بھی رائے لے لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جناب علی محمد فرشی نے آخر میں یہ رائے بھی پیش کی کہ اجلاس کا وقت دو ہفتے مزید بڑھا کر ’وقت نما‘ کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز معقول تھی لیکن میں نے اس اتفاق نہیں کیا کیونکہ ایک تو ’وقت نما‘ نسبتاً طویل نظم ہے پھر اس کی موضوعاتی ساخت بھی زیادہ گہرائی اور وسیع تناظر کی حامل ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ایسی گہرائی کی حامل نظم پر یوں اچانک گفتگو شروع کر کے شاید ہم اس سے انصاف نہیں کر سکیں گے اس کے لیے ضروری ہے

(اگر ممکن ہو تو) کہ اس نظم کو زیر بحث لانے کے لیے کسی مناسب وقت پر نیا جلسہ منعقد کیا جائے۔

اس اعتراف کے ساتھ اجلاس کے اختتام کا اعلان کرتا ہوں کہ سنجیدہ ادبی مباحث کے فروغ میں حاشیہ جیسے فورم کا کردار نہایت قابل تعریف ہے۔ میں حاشیہ کی انتظامیہ اور ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس اہم اجلاس کو کامیاب بنایا۔

 

جلیل عالی: صدرِ محترم! آپ نے تھوڑا وقت تو لیا مگر بھر پور طریقے سے صدارت کا حق ادا کر دیا۔ آپ کے جائزے میں جہاں نظم پر ہونے والی تمام گفتگو کو عمدگی سے سمیٹا گیا ہے وہاں کچھ نئی جہتوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ بے شک یہ ایک جامع صدارتی تحریر ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ اگلی صدارتوں کو زیادہ توجہ اور کاوش سے کام لینے پر اکسائے گی۔

ظفر سیّد: جلیل عالی صاحب: میں آپ کی بات کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ جنابِ صدر نے واقعی صدارت کا حق ادا کر دیا ہے، اور نظم پر ہونے والی بحث میں اگر کوئی تشنگی تھی تو اسے پورا کر دیا ہے۔ ان کے صدارتی خطبے کی بدولت اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اجلاس بھی گذشتہ اجلاسوں کی مانند بھرپور اور کامیاب رہا۔ میں حاشیہ کی طرف سے ان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

محمد حمید شاہد: بجا طور پر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ سعید احمد نے اس اجلاس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعید نے صدارت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نہ صرف بحث کو خوب صورتی سے سمیٹا نظم کی تفہیم کے باب میں لائق اعتنا اضافے کیے۔ میں حاشیہ کے تمام اراکین کو مبارک دیتا ہوں کہ ہمارے اندر بہتر مکالمہ کی تاہنگ اور صلاحیت رکھنے والوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ تخلیق کاروں کے بیچ یہ مکالمہ یقیناً ایک بہتر ادبی فضا بنانے کا باعث ہو گا۔

رحمان حفیظ: میری جانب سے کامیاب اجلاس کی مبارکباد قبول کیجئے، میں اگرچہ بحث میں عملاً سرگرم نہیں رہ پایا مگر وقتاً فوقتاً موجود رہ کر کچھ نہ کچھ سمجھنے اور سیکھنے میں کامیاب رہا۔ یہ نظم مدتوں پہلے پڑھی تھی مگر مجھ پر اس کی تفہیم کے نئے در اسی بحث سے وا ہوئے۔ انتظامیہ، جناب صدر اور شرکا کے لئے دلی داد

فہیم شناس: تشکیلتا۔۔۔۔۔۔ اجنبیانے نئے الفاظ اس بحث میں نظر آئے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے