وحید احمد!
یہ نامہ کن ہواؤں کو تھمایا تھا
جو حفظِ راز کی تہذیب سے نا آشنا نکلیں
یہ کھولے پھر رہی ہیں نظم نامہ دھیان کی نیلی فضاؤں میں
جہاں یہ پَر کُشا نظمیں کبوتر بن کے اُڑتی ہیں
یہ فردوسی پرندے ہیں
اتر آتے ہیں جو احساس کی خوش رنگ چھتری پر
اور ان کی مَدھ بھری، مانوس، البیلی غٹر غوں سے
چٹخ کر ٹوٹ جاتا ہے حریمِ جاں کا سنّاٹا
وحید احمد!
یہ نامہ کِن ہواؤں کو تھمایا تھا
جو اُن منہ بند نظموں کو بھی لے آئی ہیں محفل میں
جنھیں تفہیم کی جادو بھری خلوت میں کھُلنا تھا
وہ خلوت جس کے پہلو میں
’’پرانے گیت کھُلتے ہیں تو آنکھیں بند ہوتی ہیں‘‘
’’تھکن بستر پہ لیٹی ہے‘‘
جہاں تنہائی ماں جائی ہے اور پانی سے کوئی گھر نکلتا ہے
جہاں شدھ یکتائی، مقدّس گھور اکلاپا
’’جہاں پر بادشہ ہیروں جڑی مسند پہ بیٹھے ہیں‘‘
’’جہاں پر کُہر کی تختی گڑی ہے
جس کے اوپر نم ہوا کی پور نے
منزل کا سنگِ میل لکّھا ہے‘‘
’’کشش کا کارخانہ ہے
جہاں سے کوچ بنتا ہے‘‘
’’کوئی جوہر کو ضربائے تو وہ وحشت سے پھٹتا ہے
پھر اِس کے بعد روحیں اتنی سرعت سے نکلتی ہیں
کہ عزرائیل کی زنبیل میں کہرام مچتا ہے
کسی کی لپ سٹک میں ہونٹ اپنا رنگ بھرتے ہیں
کشادہ قہقہوں کی شاہراہیں، کھلکھلاتے در
بھری مسکان محرابیں، مچلتے چہل خانے ہیں
کوئی سمجھا رہا ہے
”ہاتھیوں اور تتلیوں میں فرق ہوتا ہے “
وہ کہتا ہے
”ہمارا عہد کیا ہے، درد کی خوانچہ فروشی ہے “
”زلیخائے جنوں نے یوسفِ دوراں کے کرتے کو
بیاضِ گردنِ یوسف سے پکڑا
اور نچلی پسلیوں تک پھاڑ ڈالا ہے “
یہاں اک نظم کہتی ہے
”مسیحا! سولیاں مہنگی ہوئیں ہیں، جسم سستے ہیں “
وہ کہتی ہے
”ہماری راہ کے پانی کا جُثّہ پھاڑ دے مولا
کہ ہم کو جینے والی زندگی کے گھاٹ اُترنا ہے “
بتاتی ہے
کہ اب پھر عالموں نے
معبدوں میں جانور باندھے ہوئے ہیں
یہاں ٹیلوں، کبھی جھیلوں، کبھی میدان میں ڈھلتا ہوا تھل ہے
یہاں البم کے صفحوں کی تہوں سے خوں نکلتا ہے
سماعت کے افق پر درد کا بادل گرجتا ہے “
یہ ایسا نظم نامہ ہے
جہاں شاعر ہر اک صفحے پہ محرابیں بناتا ہے
وہ کہتا ہے
”لرزتے ہاتھ اُٹھا کر اعترافِ جرم کرنا ہے
خدائے نسلِ آئندہ کے آگے سر جھکانا ہے “
مگر جب آخری صفحہ تشکر سے سجاتا ہے
تو یوں لگتا ہے وہ سجدوں کی گنتی بھول جاتا ہے
وحید احمد!
یہ نامہ جن ہواؤں کو تھمایا تھا
ابھی وہ اِس گلابی شام کے آنگن سے گزریں گی
تو خوشبو چھوڑ جائیں گی
٭٭٭