نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں

دعا

 

بارش کیسی تیز ہوئی ہے

آدھی رات کا سناٹا ہے

آنکھ اداسی میں ڈوبی ہے

خواب بھی چھپ چھپ کر تکتے ہیں

خوشبو کچھ مانوس سی ہے

دل کچھ بکھرا بکھرا ہے

شیشے کی ان دیواروں کے پار

افق ہے

اور دعا۔۔۔

جب تک لوٹ کر آئے گی

شاید میں ہو جاؤں، راکھ۔۔۔!!!

٭٭٭

 

 

 

بجلی

 

کہاں سے لاؤں

تمہارے لیئے

وہ موجِ حیات

جو زندگی کے تلاطم میں

تم کو تھامے رہے

کہ جس کا لپکا

جلائے

تمہارے جذبوں کو

کہ جس کا ذائقہ

شیریں ہو

جامِ مئے بھی ہو

یہ کام اتنا ہے مشکل

کہ اس میں جلتا ہے

مرا بدن، یہ مری روح

ہزار برسوں سے۔۔۔!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے