نظمیں ۔۔۔ رفیق سندیلوی

عجیب ماہتاب ہے

 

عجیب ماہتاب ہے

جو میرے دل کے عین وسط میں

چمک رہا ہے

جس سے سارا حاشیہ زمین کا

دَمک رہا ہے

یہ وُجود

یہ نبُود و بُود

جس مقامِ اتّصال پر کھڑے ہیں

کُچھ سُجھائی دے نہیں رہا

بس ایک دھُند سی ہے

ایک کیف سا ہے

جس میں وضع ہو رہی ہیں صُورتیں

مَیں جانتا ہوں

ابتدا سے

تیرے نرم پاؤں پر

لگا ہُوا تھا آلتہ

اَزل سے

کائنات رقص کر رہی تھی

تیرے گھنگھروؤں کی تال پر

مَیں تیری صوتِ جسم

تیرے جسمِ صوت کا اسیر ہُوں

خمیر ہُوں

جو خُود ہی پیدا ہو گیا

ہویدا ہو گیا

جو اپنی اصل میں

تُو رُو بہ رُو ہے

پھر بھی تُو دِکھائی دے نہیں رہا

ذرا ذرا

دِکھائی دے رہا ہے اوٹ سے

بھَرا ہھَرا

سفید لہر دار سِلک میں

چمکتی جِلد سے مِلا ہُوا

کھِلا ہُوا

لباس

تُجھ پہ سج رہا ہے

آس پاس

جَل ترنگ بج رہا ہے

ریشمیں پھُوار سے

دھُلا ہُوا ہے آسمان

رات جیسے جنگلوں میں چھُپ گئی ہے

اِک لکیر روشنی کی

نقرئی سی دھار

نیچے جا رہی ہے

اُوپر آ رہی ہے

بار بار

دیکھتا ہُوں

آر پار

بہہ رہا ہے ندّیوں میں

نیند کا خُمار

تیرے میرے درمیان

اِک طرف ہیں

جھُولتی ہُوئی

سُبک، خفیف جالیاں وصال کی

تو دوسری طرف تَنا ہُوا

مہین سا، فراق کا نقاب ہے

عجیب ماہتاب ہے!!

٭٭٭

 

 

 

 

مُجھ سے کچھ مت کہو

 

مُجھ سے کچھ مت کہو

یہ سماعت ابھی

نا شُنیدہ صداؤں کے دستے میں ہے

جو کسی گہری چُپ کے تعاقب میں چلتے ہُوئے

رُخ بدلتے ہُوئے

بڑھ رہی ہے کہ جیسے کوئی آبِ جُو

جیسے شریان میں

سرپھرے جنگ جُو کا لہو

جیسے چلّے سے نکلا ہُوا تِیر ہو

مُجھ سے کچھ مت کہو

یہ سماعت ابھی

نا شُنیدہ صداؤں کے دستے میں ہے

اَن کہی کے شرابور رستے میں ہے!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے