مجھے ابھی بہت دور جانا ہے
کیا پیروں کی تھکن اس سفر کو روک سکتی ہے
کیا راستے کے روڑے میرے ارادے کو توڑ سکتے ہیں
کیا میں یہاں سے واپس لوٹ جاؤں گا
کیا میں اور آگے چل نہیں پاؤں گا
نہیں نہیں
شاید مجھے جانا ہے بہت دور
گو ہوں میں تھکن سے چور
اور بے زار ہر منظر سے
جو بار بار لوٹ کر نظر کی اکتاہٹ بن جاتا ہے
وہی آسمان
وہی زمین
وہی چاند وہی ستارے
چاندنی میں چمکتے اور مہکتے وہی پھول
ہاتھوں میں چبھتے وہی ببول
وہی میرے من کو سلاخوں میں لہو کرنے والے اقوال
لیکن شاید اکتاہٹ بھی مانع نہ ہو
قدموں کی
شاید زندگی قیدی نہ بنے لمحوں کی
یہ تو ہوائے برگ و بار کی طرح ہے
جو کبھی نہ کبھی گزر جائے گی
میرے ذہن کے خزانے کی اوپری سطح کو بھی
کبھی نہ چھو پائے گی
شاید ابھی آگے بہت دور جانا ہے
اور ان بار بار آتے لمحوں
ہر بار آنکھ کے سامنے ابھرتے منظروں
دریاؤں صحراؤں جنگلوں
گاؤں اور شہروں
کے بھیڑ سے مجھے کوئی نیا رنگ
نکالنا ہوگا
اپنے پراگندہ ذہن کو قبر میں دفن کر کے
نیا بت نیا مندر بنانا ہوگا
پرانے لفظوں سے نیا لفظ
پرانے معانی سے نئے معانی
خلق کرنے ہوں گے
یہی نہیں
مجھے پارینہ کانوں میں
سماعتوں کے نئے پیمانے
آنکھوں کے لیے
نئے منظر نامے سے ترتیب دینے ہوں گے
چلتے چلتے میرے جوتے بھی گھس گئے ہیں
مجھے اف جوتوں کو ہی بدلنا ہوگا
اور آنکھوں پر نئی عینک لگانی ہوگی
تاکہ پرانے شیشے میں نئے رنگ
پرانے نہ دکھائی دیں
شاید یہ تھکن مجھے روک نہ پائے
شاید میں ان روڈوں کو پھلانگ دوں
شاید اپنے ہاتھوں سے ببولوں کو نوچ
پھینکوں
شاید میں سن کی سلاخوں کو توڑ کر
باہر آ جاؤں
اور ملگجی چاندنی کے عکس گھر
اپنے لہو سے سرخ رو کر دوں
اور قدم بڑھاتے آگے نگل جاؤں
شاید مجھے ابھی بہت دور جانا ہے
٭٭٭
جلا وطن شہزاد گان کا جشن
قبر کی مٹی چرا کر بھاگنے والوں میں ہم افضل نہیں
ہم کوئی قاتل نہیں
بسمل نہیں
منجمد خونیں چٹانوں پر دو زانو بیٹھ کر
گھومتی سوئی کے رستے کی صلیبوں سے ٹپکتے
قطرہ قطرہ سرخ رو سیال کو
انگلیوں پر گن رہے ہیں
چن رہے ہیں
منظر نیلوفری کی جھیل میں
گرتا ہوا اک آسمان نور کا ذخار شور
ہم کہ اپنی تشنگی کے سب ظروف
اپنی اپنی پست قد دہلیز پر توڑ آئے تھے
ناریل کے آسماں اندوختہ سایوں تلے
لڑکھڑا کر
آتشیں ساحل کی جلتی ریت پر اوندھے پڑے ہیں
آتشیں سیال جب جب
جسم کی سرحد پہ غش کھائے سپاہی کی رگوں کو چھیڑتا ہے
ہوش آتا ہے
تو چاروں سمت روشن دیکھتے ہیں
اک الاؤ بے کراں
جس میں تمام آسمانوں کی ردائیں جل رہی ہیں
اور پھر
جلتے گلابوں سے ابھرتی زعفرانی روشنی
ہم کو سلامی دے رہی ہے
٭٭٭
غزال شب کے ساتھ
میں یہاں نہیں تھا
میں وہاں نہیں تھا
درد بھرے آسمان میں
چیخ بن کے
ابھر رہا تھا
تنگ گھاٹیوں میں
گونج بن رہا تھا
سمندروں پہ
ریزہ ریزہ گر رہا تھا
میں یہاں نہیں تھا
کالے جنگلوں کے گھور اندھیرے میں تھا
رفتہ رفتہ سب سیاہی مٹ گئی
سارے جنگل
کٹ گئے
ہیولے گھٹتے گھٹتے
غزال شب بنے
اندھیرے چھٹ گئے
ابر کے سیاہ ٹکڑے دھند بن گئے
چار سو دھند پھیلتی گئی
اکائیوں کو دور دور تک بہاتی
چار سو پھیلتی گئی
دھند میں
غزال شب نے
رفتہ رفتہ آنکھ کھولی
زبان سے کچھ نہ بولی
ہفت آسمانوں سے لے کے
تحت الثریٰ تک
ہزارہا چراغ جل اٹھے
روشنی سے جل گئی
غزال شب کی آنکھ نور تھی
غزال شب کی آنکھ طور تھی
رفتہ رفتہ
روشنی نے روشنی کو
اپنی جانب کھینچا
اور میں نور میں نہا گیا
دودھیا سیہ رنگ
چہار سمت چھا گیا
پانیوں کا زور
بڑھنے لگا
سیلاب آیا
باندھ ٹوٹے
ریت کے گھروندے
مٹی کے گاؤں
پتھروں کے شہر ڈھہ گئے
صبح و شام کے کنارے
ایک دوجے سے گلے مل گئے
اندھیرے جسم کے کھنڈر کی
سیاہ طاقوں میں
دلوں کے سو چراغ جل گئے
رفتہ رفتہ
غزال شب نے آنکھ بند کی
اور
سارا پانی کھائی کی طرف چلا گیا
تیز پانیوں میں
میں بھی آ گیا
اب فقط
میں روشنی میں بند ہوں
اور
اندھیروں کو ترس رہا ہوں
میں یہاں نہیں ہوں
میں
غزال شب کے ساتھ ہوں
میں
غزال شب کے ساتھ ہوں
٭٭٭