نظمیں ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

 

گرتے ستون کا منظر

 

یہاں سے آگے نشیب ہے اور اس سے آگے

غروب کی گھاٹیاں ہیں، جن میں

لڑھک کے روپوش ہو گیا ہے

سوار دن کا

ذرا ذرا سے چراغ لے کر ہتھیلیوں پر

چلے ہیں با بالشتیے اندھیرے کے چوبداروں کے پیچھے پیچھے

قدم ملاتے ہوئے صدا پر صدا لگاتے

بتاؤ یہ آنکھ کا خلا ہے کہ وقت کا شہ نشیں ہے خالی

کہاں گیا ہے مکیں مکاں کا

کھلا ہے دروازہ آسماں کا

یہاں سے آگے

چبوترے سے اترے کے اک عکس روشنی کا

چلا ہے بے انت بھول کی

گیلری کی جانب

جہاں عجائب سجے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

بند دروازے میں کرن کی درز

 

ظلمت کا ہر عضو ہے بیج سیاہی کا

کٹ کر پھر اگ آتا ہے

دھوپ میں اتنی کاٹ نہیں کہ میں ان کو

اندر سے مسمار کروں

کل وہ چہرہ مسخ تھا اتنا آج جسے

میں تصویر سمجھتا ہوں

کیا میں رات کے جادوگر کے شہر میں ہوں

جامد آنکھ کے روزن سے

دیکھ رہا ہوں جو مجھ کو دکھلاتا ہے

یا میں بے معنی دنیا میں

زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں

شاید میں پہچان کی بھول بھلیوں میں

گم ہوں

لیکن کیا یہ کم ہے

خواب کی مشعل ہاتھ میں لے کر چلتا ہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے