نظمیں ۔۔۔ آصف جانف

بے بسی کے کُتے

 

میں بہت مضبوط ہوں لیکن

جب مجھے تمہاری یاد آتی ہے

تو میں

ریزہ ریزہ ہو کر ایسے بکھر جاتا ہوں

جیسے ایٹم کے ذرات

میں پگھل کر ایسے بہہ جاتا ہوں

جیسے آبِ رواں

میں خاموش ہو کر ایسے عالم میں چلا جاتا ہوں

جہاں ہر طرف سے

بے بسی کے کُتے مجھ پر بھونک رہے ہوتے ہیں

تمہاری یاد

مجھ پر ایسے حملہ آور ہوتی ہے

کہ جیسے

کوئی بھوکا شیر کسی جانور پر

اچانک غلبہ پا کر اسے اپنے بس میں کر لیتا ہو

میں ہر جگہ گیا

میں نے سوچا مجھے تمہاری یاد سے

چھٹکارا مل جائے گا اور وہ مجھے نہیں ڈھونڈ پائے گی

لیکن یہ ہر بار

پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے ڈھونڈتے

مجھ تک پہنچ جاتی ہے

جیسے میں اس کا کھویا ہُوا بیٹا ہوں

 

جب مجھے تمہاری یاد آتی ہے

تو میں

خاموش ہو جاتا ہوں

اور بے بسی کے کُتے مجھے گھیر لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا ایک دن کافی ہوتا ہے

 

کیا ایک دن کافی ہوتا ہے

کسی کو بھلانے کے لئے،

کسی کی یادوں کے سمندر میں

غوطہ لگا کر ڈوب جانے کے لئے

اور

ڈوب کر مر جانے کے لئے

 

کیا ایک دن کافی ہوتا ہے

پچاس نظمیں کہنے کے لئے،

پانچ سو آنسو کے قطروں کو ٹھکانے لگانے کے لئے

اور ان کے ساتھ خود بھی دفن ہونے کے لئے

 

کیا ایک دن کافی ہوتا ہے

بیٹھے بیٹھے کائنات کی سیر کرنے کے لئے،

کائنات کے پار جانے کے لئے

اور

خدا کو ڈھونڈ نکالنے کے لئے

 

کیا ایک دن کافی ہوتا ہے

کسی حسین لڑکی کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے،

اسے یقین دلانے کے لئے

کہ میں ایک ہتھیلی ہوں

اور تم دوسری

آؤ مل کر تالی بنتے ہیں

 

کیا ایک دن کافی ہوتا ہے

سب کچھ کرنے کے لئے؟

٭٭٭

 

 

وجودِ عدم

 

میں کیا ہوں

میں کیوں ہوں

مجھے یہ پتا تو نہیں ہے مگر صرف یہ جانتا ہوں

میں جو کچھ بھی ہوں ایک چھوٹا سا حصہ ہوں سارے وجودِ عدم کا

مرے چار سُو گھومتے سارے چہرے

بظاہر پرائے ہیں

لیکن انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے گویا میں ان سے ملا ہوں

مگر کب ملا ہوں کہاں پر ملا ہوں نہیں جانتا ہوں

بہشتوں میں

پہلے جہاں میں

کہ یا پھر زمان و مکاں سے پرے ایک باغِ عدم میں

کسی شاخِ نورِ خدا پر

یا پھیلے ہوئے اس خلا کی کہیں وسعتوں میں

کہیں تو ملا ہوں میں ہر ایک شے سے جو ہے اور تھی اور آئے گی آتی رہے گی وہ ہر شے مری ذات کا ہی ہے حصہ!

اسی فکر نے ہی تو مجھ کو مفکر بنایا

خدا کون ہے اور کہاں ہے

خدا بھی تو حصہ ہے یارا وجودِ عدم کا

یہی فکر بڑھنے لگی ہے کہ جب سے یہ جانا خدا ماورا ہے

خدا اس زمان و مکاں سے پرے ہے

مجھے اس کے پیچھے لگایا گیا ہے

کہ میں اس کو ڈھونڈوں وہ کیسا خدا ہے

مگر میں تو خود کو نہیں ڈھونڈ پایا

اسے خاک پاؤں گا جانف!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے