(یہ کالم آفتاب اقبال شمیم کی کلیات کی تقریب اجرا پر 2016ء میں لکھا گیا تھا۔ آج ان کی رحلت پر ان کی یاد میں دوبارہ پیش ہے)
افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کا فون آیا تو میں سمجھ گیا کہ کوئی ہنگامہ ہائے تقریب ہو گا۔ حمید شاہد خلاق ادیب ہیں لیکن دوسروں کی پذیرائی میں بھی پیچھے نہیں رہتے بلکہ آگے آگے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر کا تہ خانہ ادیبوں اور شاعروں کا ’چائے خانہ‘ ہے۔ البتہ راقم کو انہوں نے اس سلسلے میں مکمل استثنا دیا ہوا ہے۔ خیر میرا خیال درست نکلا لیکن یہ کوئی ہنگامِ دوستاں یا محض تقریبِ ملاقات نہیں تھی، جناب آفتاب اقبال شمیم کی کلیات ’نا دریافتہ‘ کی تقریبِ تقسیم تھی۔ جس کام کے لیے نظم نگاروں میں سے کسی کو پہل کرنی چاہیئے تھی اس کا اہتمام، صد مرحبا، حمید شاہد نے کر ڈالا۔ تھوڑی دیر بعد سعید احمد کی طرف سے بھی دعوتِ شمولیت آ گئی جو اس کلیات کے مرتب اور دیباچہ نگار ہیں اور نئی نسل کے اہم نظم گو ہیں۔
آفتاب اقبال شمیم اردو نظم کی تاریخ کا طویل ترین جاری باب ہیں یعنی صحیح معنوں میں زندہ لیجینڈ ہیں۔ ان کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ عمرِ رواں کی آٹھ دہائیاں گزار لینے کے باوجود ان کے ہاں تخلیقی تھکن کے آثار نہیں۔ وہ اتنے ہی تازہ کار ہیں جتنے اپنی پہلی نظم میں تھے۔ ورنہ ان کی عمر تک آتے آتے اکثر شاعر یا تو تخلیقی طور پر غیر فعال ہو جاتے ہیں یا معاصر شاعری سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے اور اپنے آپ کو دہرانے لگتے ہیں۔ آفتاب صاحب کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا تھا۔ تھا اس لیے کہ کسی بھی خالص اور روحِ عصر کے متقابل شاعر کے لیے ترقی پسندی کی روایتی اصطلاح اب بے معنی ہو چکی ہے۔ جس طرح سچا تخلیق کار زبان کے تابع نہیں ہوتا بلکہ زبان اس کے تابع ہوتی ہے اسی طرح وہ نظریے کا بھی تابع نہیں ہوتا بلکہ نظریہ اس کے تابع ہوتا ہے۔ آفتاب صاحب کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ان کی شاعری آگے نکل گئی ہے اور نظریہ پیچھے رہ گیا ہے۔ انہوں نے کبھی نظریے کو شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہاں، ہر اچھے تخلیق کار کی طرح نظریہ ان کے شعری فکری نظام کے بطنِ بطون میں موجود اور کار فرما ضرور رہا ہے۔ کیونکہ زندگی بذاتِ خود ایک نظریاتی حقیقت ہے۔ آفتاب صاحب کی بیشتر نظمیں داستانِ زیست کے کسی نہ کسی مکمل کردار کی عکاس ہیں۔ یہ وصف بہت کم شاعروں میں ہے۔ اب یہ نقادوں کا کام ہے کہ وہ ’نا دریافتہ‘ کے شعری، معنوی، فکری، لسانیاتی اور فنی محاسن دریافت کریں۔ لیکن بدقسمتی سے اردو کے ناقدین شاعر کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جب تک اس کا مزار نہیں بن جاتا تنقید کی کتابوں اور نصابوں میں اس کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔
در اصل نقادوں کے لیے رفتگان پر لکھنا آسان ہوتا ہے۔ بنے بنائے سانچوں اور طے شدہ نصابوں کے مطابق کام کرنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے نہ زیادہ محنت لگتی ہے۔ جبکہ نئی تنقید، نئی شعریات، نئے موضوعات، نئی زبان، نئے شعری عناصر اور نئے شاعر کی تفہیم و تعبیر کارِ مشکل اور کار جوئی ہے۔ ہمارے نقادوں کا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ان کا سارا زور مغرب سے ترجمہ یا درآمد شدہ نظری و فکری مباحث پر رہا یا ان کی توجہ نصابی اور معاشی مفادات پر مرکوز رہی۔ غالب اور اقبال سے قطع نظر، انہوں نے بہت وسعتِ نظر دکھائی تو جدید نظم کے بنیاد گزاروں میرا جی، نم راشد کو در خورِ اعتنا سمجھ لیا اور اس سے آگے آئے تو فیض اور مجید امجد میں اقلیمِ نظم کا ہر علاقہ شامل کر دیا۔ اب صدیاں منانے کا سلسلہ چل پڑا ہے، جس سے بعض نقادوں، پروفیسروں، سرکاری ادبی سماجیات کے ڈیرے داروں اور بیرونِ ملک کے چند ادبی شعبدے بازوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ لیکن یہاں جس شاعر کی بات ہو رہی ہے وہ عمر کی نویں دہائی میں ہے یعنی ایک زندہ صدی سامنے موجود ہے۔ جس کا شعری اثاثہ مقدار میں میرا جی، نم راشد اور مجید امجد سے کہیں زیادہ ہے اور معیار میں کسی بھی طرح کم تر نہیں۔ کیا ضروری ہے کہ اس کے رفتہ و گزشتہ ہونے کا انتظار کیا جائے، ہزار سال بعد اس کی صدی منائی جائے۔ جانتے بوجھتے کسی کو تاریخ اور وقت کے فیصلے پر چھوڑ دینا ادبی بد دیانتی اور تنقیدی نارسائی کے سوا کچھ نہیں۔ نقاد اگر رفتگان کی صدیوں میں سے صرف چند سال ہی زندہ شاعروں ادیبوں کے لیے وقف کر دیں تو اردو تنقید کا رخ ایک بڑے انقلاب کی طرف مڑ سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تخلیق اور تخلیق کار کی بازیافت زمانوں سے ماورا ایک دائمی عمل ہے، لیکن سامنے موجود زمانہ حال کے نابغہ شاعر کو کیوں پس پشت ڈالا جائے؟ ہمارے نقادوں کی تان میرا جی سے شروع ہوتی ہے اور مجید امجد پر آ کر ٹوٹ جاتی ہے۔ ان کے لیے مذکورہ شعرا تر نوالہ ہیں، روزی روٹی کا وسیلہ ہیں، گریڈوں اور ترقیوں کا زینہ ہیں۔ وہ کم از کم اپنی ریٹائرمنٹ تک تو آگے نہیں آئیں گے۔ تحلیق کاروں کے لیے عمروں کی حد مقرر کریں گے، ان کی موت تک خاموش رہیں گے۔ پھر ان کے مقبروں کی مجاوری سے شہرت، عزت اور رزق کمائیں گے۔ حالیہ برسوں میں جتنا ادبی رزق نقادوں نے مجید امجد سے کمایا ہے شاید ہی کسی اور سے کمایا ہو۔ یہی مجید امجد جب زندہ تھا تو ان کے لیے کھوٹا سکا تھا، اب مرنے کے بعد سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے، حالانکہ مجید امجد تو وہی ہے جو اپنی زندگی میں تھا اور اس کا لکھا ہوا بھی وہی ہے جو اُس وقت تھا جب وہ بقیدِ حیات تھا۔ اب آفتاب اقبال شمیم کو مجید امجد کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کیوں نہ ان کو زندگی ہی میں وہ مقام دیا جائے جو مجید امجد کو بعد از مرگ ملا۔
کلیات میں آفتاب صاحب کے چھ شعری مجموعے، فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر، میں نظم لکھتا ہوں، ممنوعہ مسافتیں اور سایہ نورد بالترتیب یکجا کیے گئے ہیں۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس میں ان کی نثری نظمیں شامل نہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انہوں نے ’تسطیر‘ میں نثری نظموں کی تحریک اور مباحث سے متاثر ہو کر نثری نظمیں لکھی تھیں جن میں سے کچھ تسطیر میں شائع بھی ہوئیں۔ میں نے جب اس بابت ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بالکل شامل ہونی چاہئیے تھیں، کوئی خاص وجہ نہیں شامل نہ کرنے کی۔‘‘ ممکن ہے یہ مرتب کی اپنی صوابدید رہی ہو۔ امید ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی نثری نظموں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اس تقریب میں کشور ناہید، فتح محمد ملک، احسان اکبر، جلیل عالی، فہیم جوزی، انوار فطرت، علی محمد فرشی، پروین طاہر، رفیق سندیلوی، روش ندیم، سعید احمد، یاسین آفاقی، کامران کاظمی، ارشد معراج، قاسم یعقوب، عائشہ مسعود، منیر فیاض، کلیات کے پبلشر صفدر رشید اور راقم نے شرکت کی۔ راولپنڈی جو کبھی شہرِ افسانہ تھا اب شہرِ نظم کہلاتا ہے اور شہرِ نظم کے دو تین اہم نام اور چند نئے نظم نگاروں کو چھوڑ کر سبھی نظم گو موجود تھے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ گھر میں ہونے والی تقریب میں زیادہ افراد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ صدارت فتح محمد ملک نے کی۔ سب سے پہلے کشور ناہید کی طرف سے لایا گیا کیک کاٹا گیا، کلیات کی اشاعت پر آفتاب صاحب کو مبارک باد پیش کی گئی اور حاضرین میں کتابیں تقسیم کی گئیں۔ اس کے بعد سعید احمد نے اپنے دیباچے کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔ عالی صاحب نے آفتاب صاحب کی شاعری پر اپنے ایک پرانے مضمون کے حوالے سے گفتگو کی۔ گفتگو ہو اور علی محمد فرشی خاموش رہیں یہ ممکن نہیں چنانچہ انہوں نے جھٹ کلیات کھولے اور فی البدیہہ بولے۔ احسان اکبر صاحب نے بھی مختصر گفتگو کی۔ کشور ناہید ہمہ وقت اپنی ذو معنی گفتگو اور محبت بھری چھیڑ چھاڑ سے محفل میں رنگ افشانی کرتی رہیں۔ فتح محمد ملک صاحب نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے آفتاب صاحب کو کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ آفتاب صاحب میں ایک اور وصف بھی ہے کہ وہ اپنے سے بعد کی نسل کے اچھے شعرا کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ آخر میں چائے اور لوازمات کے ساتھ ساتھ غیر رسمی گفت و شنید اور آفتاب صاحب سے آٹو گراف لینے کا سلسلہ تا دیر چلتا رہا۔ نا دریافتہ کی تقریبِ تقسیم سادہ مگر بھرپور اور با وقار تھی جس کے لیے حمید شاہد، یاسمین حمید، سعد حمید اور شریک میزبان قاسم یعقوب تحسین کے مستحق ہیں۔
(بحوالہ ’ہم سب‘ 22 اپریل 2016ء)
٭٭٭