ناز قادری کی نعت گوئی ۔۔۔ جاوید دانش

کتنے اچھے دن تھے وہ۔ بچپن کا ذسادہ ساہن۔ تقریبات کے نام پر کبھی لبھی شادی بیاہ کے علاوہ اہمیت کی حامل تقریبات میں عقیدت و محبت میں ڈوبی ہوئی میلاد کی محفلیں۔ ان محفلوں میں میلاد خواں حضورؐ کی سیرت بیان کرتے اور پھر یا نبی سلام علیک لوگ جھوم جھوم کر گاتے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا۔ گاہے گاہے گھر میں ہمارے اولین استاد اور حقیقی پھوپھا کی ایک نعت کے اشعار بھی کانوں میں رس گھولتے رہتے:

زہے مقدر حضورِ حق سے سلام آیا پیام آیا

جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا

یہ کون سر سے کفن لپیٹے چلا ہے الفت کے راستوں پر

فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احتشام آیا

ہمارے بچپن کے دنوں میں نعت گوئی کی فضا عام تھی۔ کلکتہ میں میرے والد محترم محمد حنیف اسیر کے قریبی ساتھی علامہ آرزو سہارنپوری ( پنڈت جگل کشور) صوفی منش تھے۔ صاحب طرز نعت گو بھی تھے۔ ان کی کتاب ظہورِ قدسی اور الہامِ سحر کی بے شمار نعتیں نہ صرف مقبولِ عام تھیں، بلکہ کسی بھی میلاد کی محفل میں ’ سلام اس پر کہ جس نے دو جہاں کی پیشوائی کی‘ گونجتی تھی۔ ہندو پاک کے قوال ’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی ہوتا‘ ضرور گاتے تھے۔ مگر تقسیم عظیم نے جہاں گنگا جمنی تہذیب کو پامال کیا، وہیں تقدیسِ شاعری کی روایت اور سنت کو ترقی پسندی کے نام پر نہ صرف رد کیا گیا بلکہ نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہ اس سے گریزاں بھی رہنے لگا۔ مگر اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ سلفی تحریک کی در آمد کے نتیجے میں راہِ سلوک کو بدعت کہا جانے لگا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ کاروباری اور خوش گلو حضرات نے نعت گوئی سے زیادہ نعت خوانی کو اہمیت دی۔ اس طرح بھی اس سنجیدہ سخن کو نقصان پہنچایا گیا۔ تاہم ہر دور میں ایک سنجدہ طبقہ ایسا رہا ہے، جس نے نعت گوئی پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ایسے ہی اساتذہ شعراء سے نعت گوئی کا وقار آج بھی قائم ہے۔

یہ محض حسنِ اتفاق تھا یا میری خوش بختی کہ ہند کے پچھلے سفر میں ایک کتاب مجھے ملی اور زاد راہ بن گئی۔ زادِ راہ اس طرح بنی کہ بچپن کا زمانہ پھر یاد آ گیا اور اپنی بدبختی پہ رونا آیا کہ توجہ ادھر نہ تھی۔ پروفیسر ناز قادری کی ’سلسبیلِ نور‘ نے مجھ گنہگار کو شرمسار بھی کیا اور ایک عرصے کے بعد ذہن کو ماضی کی طرف منتقل کر دیا۔ نور کی کرنیں ذہن کو منور کرنے لگیں۔ اس مجموعے پر کئی اصحابِ فن، علما اور نقادوں نے اظہارِ خیال کیا ہے۔ میں نے بھی ایک بھی ایک متلاشی ذہن بچے کی طرح اپنے خالص ذاتی تاثرات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

پروفیسر ناز قادری کی ہمہ جہت شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ ایک قابلِ قدر پروفیسر، کہنہ مشق شاعر، اور نقاد ہیں۔ نسلوں کی ذہنی اور فکری آبیاری کی ہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ حضور صل اللہ علیہ و سلم سے عقیدت اور نسبت نے انہیں نعت گوئی پر اس طرح راغب کیا کہ پھر اسی کے ہو گئے۔ حمدیہ عرضی یوں پیش کرتے ہیں۔

تو ہی صنائع ازل ربِ قدیر گردشِ چرخِ کہن تیرے نام

دفترِ حمد و ثنا تیرے لئے نازؔ کا حرفِ سخن تیرے نام

یہاں دیکھئے کہ صنائع ازل اور ربّ قدیر کی ثنا کے لئے ناز کے حرفِ سخن کواس طرح ترکیب کیا ہے کہ ناز اپنے لغوی معنی سے بھی جڑ گیا ہے اور شاعر کے تخلص کو بھی کروٹ دے رہا ہے۔ موصوف کو شعر و سخن پر ملکہ حاصل ہے۔ ساتھ ہی رموز نعت گوئی کے پُر اسرار آداب و احترام اس کی حد بندیوں اور شرائط سے اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ وفورِ عشق میں ان کے اشعار ہوش اور احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتے، نہ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر فنی باریکیوں اور ضابطوں سے سمجھوتا کرتے ہیں۔ نعت کے چند اشعار دیکھئے۔

آپ ہیں شمعِ زندگی بزمِ جہاں کے واسطے، آپ ہیں نازِ بندگی کون و مکاں کے واسطے

آپ کے گیسوؤں میں ہے نکہتِ گلشنِ ار م، صلِ علیٰ محمد، صلِ علیٰ محمد

آپ کا نقش مقتدر، آپ کا عکس معتبر، آپ کے فیض سے حسیں چہرۂ فطرتِ بشر

عظمتِ لوح کی قسم، آپ ہیں حرمتِ قلم، صلِ علیٰ محمد، صلِ علیٰ محمد

صلِ علیٰ محمد، صلِ علیٰ محمد تو ہر مومن کا ورد ہے۔ یہاں یہ دیکھئے کہ طویل بحر کے باوجود شاعر نے اس طرح اپنے جذبِ دل کو زبان دے دی ہے کی موسیقیت کی لہریں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔ حقیقتیں اپنے تمام تر جمال کے ساتھ جذبے کی لہروں پر موجزن ہیں۔ یہاں صلِ علیٰ محمد، صلِ علیٰ محمد صرف ایک شاعرانہ کلام نہیں بلکہ جذبے کی تقدیس کا اظہاریہ بن کر سامنے آیا ہے۔ آپ کے نقشِ مقتدر اور عکسِ معتبر کو چہرۂ فطرتِ بشر کا حسن قرار دینا جمال کو اس کے کمال کے ساتھ پہچاننا بھی ہے اور ایقان و ایمان کا اعلان بھی ہے، وہ بھی کس غنائیت اور شاعرانہ اظہار کے ساتھ۔ عظمتِ لوح کی قسم تو لوحِ محفوظ کی قسم ہیاس لئے بجا طور پر ذاتِ اقدس کو اس کے لئے حرمتِ قلم قرار دیا گیا۔ یہ کیفیت صرف ایک نعت میں نہیں، پورا مجموعہ ہی سلسبیلِ نور میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ فکر و نظر اور قلب و جگرسب اس کیفیت سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ یہاں بس ایک او نعت کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

آپ جمالِ روئے مشیت، آپ جلالِ روحِ شریعت

آپ کمالِ صنعتِ قدرت، صلی اللہ علیہ و سلم

ذوقِ عبادت اللہ اللہ، شوقِ اطاعت اللہ اللہ

نطق مطہر، محو تلاوت صلی اللہ علیہ و سلم

آپ کے دم سے علم کا دفتر، آپ کے دم سے فکر کا جوہر

نعمتِ عظمیٰ آپ کی خلقت صلی اللہ علیہ و سلم

آپ ہیں موجِ بحر سخاوت، آپ حبیبِ رب العزّت

آپ نصیبِ حُسنِ شریعت صلی اللہ علیہ و سلم

عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ اخلاص کا جذبہ بھی ان کے نعتیہ کلام میں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ مقصد صرف شاعری نہیں حضور کی سیرت کا بیان بھی مقصود ہے اور اس بیان میں شریعت کا لحاظ بھی: ہے۔ غلو ہے بھی تو اس لحاظ کے ساتھ اور صرف شعری ہنر مندی کے اظہار کے لیے:

ناز کا حسن یقین یہ ہے کہ آقا کے سوا

باعث تسکینِ قلبِ عاشقاں کوئی نہیں

سنبھل کے پاؤں دیارِ نبی میں رکھا جائے

جنوں کو دائرۂ آگہی میں رکھا جائے

جمال روئے نبی دل کے آئینے میں رہے

خداکانور حریمِ خودی میں رکھا جائے

انہوں نے تقدس، عقیدت اور نسبت کو ہوشمندی سے برتا ہے اورظفر یاب بھی ہوئے ہیں۔ بقولِ عرفی نعت گوئی ’رہِ دامِ تیغ‘ ہے۔ ذرا سی بے ہنری سیاس راہ پہ چلنے والے کا زخمی ہونا لازمی ہے۔ یہاں طریقِ مدحت میں فرزانگی اور دیوانگی کا امتزاج ضروری ہے۔ نازؔ قادری نے بڑے احسن طریقے سے اس منزل کو سر کیا ہے اور سرفراز بھی نظر آتے ہیں۔ نعت گوئی کے پُل صراط پر اپنی بصیرت کا امتحان وہ اس طرح دیتے ہیں

نقطۂ سخن سے ہے دائرہ صداقت کا

مدحِ سرورِ دیں ہے امتحاں بصیرت کا

بصیرت کے اس امتحاںن میں وہ سرفراز گذرے۔ شاعرانہ تجلی نے جہاں جلووں کو صبحِ صادق کی روشنی اور حسنِ ازل کے پرتو میں دیکھا اور محسوس کیا وہ سیرت کی روشنی نے دشتِ امکاں پر خُلق کے احسان اور مدینہ العلم اور مشیت کا ناز بھی قرقر دیا ہے۔ دیکھئے کے اسوہ حسنہ کی تصویر کس طرح لفظوں میں کھنچ گئی ہے:

صبحِ صادق کی روشنی ہے یا روئے حسِنِ ازل کا پرتو ہے

ان کے جلووں سے ماورا رہ کر امتیازِ سحر نہیں ہوتا

نبی کے خلق کا احسان اس دشتِ امکاں پر

نہ ہوتے آپ تو اخلاق کا دریا رواں نہیں ہوتا

عالم میں ظہور ہوا شہرِ علم کا

جویائے حق کو چارۂ تشنہ لبی ملی

لقب کیا زیب دیتا ہے شہِ لولاک کا تم کو

مشیت جس پہ نازاں ہو وہ روحِ کن فکاں تم ہو

نازؔ صاحب کے کلام میں فکری رچاؤ اور سبھاؤ، زبان و بیان، لفظوں کے انتخاب اور، نشست و برخواست میں ایک فطری انداز مل؛تا ہے۔ زبان بیان پر اس گرفت اور دسترس میں ان کے درس و تدریس اور علم و ادب کی مسلسل آبیاری کا عمل دخل ہے۔ انداز بیان سادہ اور سجل ہے۔ ان کی طبیعت شخصیت کا آئینہ ہے اور عشق رسول کا زینہ اور وسیلہ بھی ہے۔

مجھے حاصل نہ ہوتی سعادت نعت گوئی کی

اگر مجھ پر کرم فرما میرا مولا نہیں پوتا

قادری صاحب کا قلم عشقِ رسول کی روشنائی میں ڈوبا ہوا ہے۔ راہِ سلوک اور قادریہ سلسلے نے نہ صرف طریقت کی راہ دکھائی ہے بلکہ اُسلوبِ نگارش کا ایک دریچہ بھی وا کر دیا ہے۔ وہ کیفیت اور سرمستی میں سرشار ہو کر حدیثِ دل کوثر و تسنیم سے دھلی زبان سے رقم کرتے ہیں۔

ذاتِ اقدس پہ ہوا وحیِ الٰہی کا نزول

جوہر نقطِ گہر بار سے خوشبو آئے

ناز جب ذہنِ رسا گلشنِ طیبہ پہنچا

قصرِ اِحساس کی دیوار سے خوشبو آ ئی

پروفیسرِ موصوف نے دربارِ کیف الوریٰ اور طیبہ کے روز و شب کا بیان اپنے صمیم قلب اور جذبات کی تطہیر کے ساتھ نہ صرف رقم کیا ہے بلکہ اپنے قاری کو بھی انگلی پکڑ کر سرکارِ مدینہ کے دربار عالی میں تحیر اور تجسس کے ساتھ لئے جاتے ہیں۔ استغراق اور کیف و سرور کا یہ سفر قلبی سکون عطا کرتا ہے،

یہی شغل کارِ ثواب ہے کہ ثنائے شاہِ ہدیٰ لکھوں

مرے حق میں مدحتِ مصطفی، مری بخششوں کا پیام ہے

حق نے بخشی تھی متاعِ علم و دانش ناز کو

نعت گوئی حرمتِ قول و قسم تک لے گئی

پروفیسر ناز قادری کے گلدستۂ عقیدت میں جتنے پھول ہیں نہ صرف ذخوش رنگ ہیں، بلکہ عشقِ نبی کا اعجاز ہیں۔ ان کی رسؤوشنی دلوں میں اترتی ہے۔ بلکہ ناز کی زبان میں یہ کہا جائے

صحنِ احساس میں ہے جمالِ یقیں، دل ہے وارفتۂ سیدالمرسلیں

ذکرِ سرکار ہے وجہ آسودگی، اس طرف روشنی، اس طرف روشنی

نورِ غارِ حرا جلوہ افروز ہے، سیرتِ طیبہ درس آموز ہے

چشمۂ فیض ہے حاصلِ زندگی، اس طرف روشنی، اس طرف روشنی

اس طرف روشنی۔ اس طرف روشنی۔ سیرت طیبہ کی روشنی تو طرف پھیلی ہوئی۔ حیات طیبہ اور اسوۂ حسنہ ضو فگن تہ سلسبیلِ نور نعتیہ شاعری میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ سات سمندر پار میں اس کی خوشبو سے محظوظ ہو رہا ہوں

٭٭٭

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے