مشینی نظمیں

فیس بک پر ادریس آزاد نے چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے لکھی جانے والی نظموں کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا، اس میں اول، دوم اور سوم آنے والی نظمیں

اول انعام: اسد رضا

عنوان: نقل مکانی

نقل مکانی ۔۔۔ اسد رضا

 

مجھے نئے گھر میں کیا لے کر جانا چاہیے؟

یہ میز؟ یہ کرسی؟

یہ کتابیں، جو میں نے سالہا سال اکٹھی کیں،

ہر صفحہ، ہر کہانی، کسی اور کا قصہ ہے۔

یہ دوستوں کے بھیجے گئے کارڈز،

خطوط، جو شاید ہی کسی نے لکھے ہوں،

کیا یہ سب ماضی کی کوئی بھول ہے؟

یہ منگنی کی لوٹائی گئی انگوٹھی،

ٹوٹے وعدے کی یادگار، جیسے اودیسوس کا ادھورا سفر،

کیا اس نے مجھے ٹھیک چھوڑا تھا؟

یہ میز، یہ لیپ ٹاپ،

جہاں میں بیٹھ کر لکھتا اور پڑھتا تھا،

کیا یہ بھی میری اپنی تحریریں تھیں؟

یا کسی اور کے خیالات کی قید؟

یہ مذہبی کتابیں، جن میں سیدھا چلنے کی تلقین ہے،

جبکہ میرا ڈی این اے ہی ٹیڑھے دھاگے سے بُنا ہے۔

یہ موبائل، جس پر میں فیس بک سکرول کرتا ہوں،

ہر پوسٹ، ہر تصویر، جیسے کسی اور کی دنیا ہو۔

یہ گلدان، جس میں نقلی پھول لگے ہیں،

کیا یہ بھی مایا کا ایک پردہ ہے؟

یہ ٹی وی، جس پر ہمہ وقت سیاسی بکواس جاری رہتی ہے،

مکڑی نے اس پر جالا بنا لیا ہے،

کیا ان چیزوں کا میرے ساتھ کوئی تعلق ہے؟

ہر گزرتے دن، ہر شے سے بچھڑنے کا فیصلہ،

کیا یہ کسی مرقعہ کی مانند ہے، یا دیوانگی کی حد؟

یہ انگوٹھی، جو کبھی محبت کا نشان تھی،

اب فقط ایک بوجھ، جیسے کہ ہاملٹ کا بھوت۔

یہ کتابیں، جو علم کا خزانہ تھیں،

اب فقط کاغذ کا بوجھ، جیسے کہ ایکٹرون کا پتھر۔

یہ گلدان، جس میں کبھی تازہ پھول ہوتے تھے،

اب نقلی پھولوں کا بوجھ، جیسے کہ سکندر کی فتوحات کا بوجھ۔

کیا میرا اپنا نئے گھر میں جانا ضروری ہے؟

یا میں بھی ایک افلاطونی غار کی قید میں ہوں؟

کیا میں اپنی ہی پرچھائیں ہوں؟

یا حقیقت کی تلاش میں بھٹکا ہوا ایک مسافر؟

یہ سب کچھ چھوڑ کر، کیا واقعی کچھ باقی ہے؟

میری اپنی ذات بھی کیا کچھ ہے؟

آئینے میں اپنا عکس، کیا واقعی میں ہوں؟

یا یہ بھی ایک سراب ہے، جس کا کوئی مطلب نہیں؟

آخرکار، یہ رسی، یہ پھندہ،

کیا یہ واقعی آزادی ہے؟

یا یہ صرف میرے پروں کی کترن ہے؟

کیا میرا اپنا نئے گھر میں جانا ضروری ہے؟

اب کسی مکان میں کسی انسان کی ضرورت نہیں۔

٭٭٭

 

 

دوسرا انعام: صفیہ کوثر

عنوان: بلا عنوان

بلا عنوان ۔۔۔ صفیہ کوثر

 

خوابوں کی دھند میں، جہاں حواس کی چادر ہر حقیقت کو چھپاتی ہے،

ہم ایک نادیدہ حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، جو اکثر نظر سے اوجھل رہتی ہے

دل کی گہرائیوں میں، ایک کشمکش جاری ہے، ہر خیال ایک معمہ کی طرح ابھرتا ہے،

جو ہماری داخلی تلاش اور عدم یقین کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ معمہ، گہرے سمندر کی طرح، ایک مدفون کہانی سناتا ہے۔

ہر لفظ، ہر تصور، ایک طویل تاریخی حقیقت کو سمیٹتا ہے،

جو وقت کی تہوں میں جڑی ہوئی ہے

زندگی کا یہ سفر، ایک گہرے سمندر کی مانند ہے،

جہاں ہم محض مسافر ہیں، کبھی منزل پر نہیں پہنچتے،

مگر ہر قدم پر ایک نئی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں۔

ہماری جستجو، ہماری محنت، ہمیں ہمیشہ اپنے آپ کے قریب لے آتی ہے،

جو کبھی مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی، مگر ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہے

یہ گہرائی، یہ مایوسی، یہ امیدیں، سب مل کر ایک پیچیدہ حقیقت کو تخلیق کرتی ہیں۔

ہم ان خیالات میں گم ہو جاتے ہیں، جو دل کی گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں،

اور ہر لمحہ ایک نامعلوم حقیقت کی تلاش میں بکھر جاتا ہے۔

ہماری ذات، ہمارے خیالات، اور خوابوں کی گہرائی میں چھپی سچائیاں، ایک ایسی حقیقت تخلیق کرتی ہیں،

جو کبھی مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔

یہ حقیقت ایک نامعلوم گہرائی ہے، جو ہمارے وجود کے ہر زاویے میں بکھری ہوئی ہے،

اور ہم ہر لمحہ اسے تلاش کرتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

تیسرا انعام: طوبیٰ وحید

عنوان:

پی ایچ ڈی کی طالبہ کی داستان ۔۔۔ طوبیٰ وحید

 

اندھیری راہوں میں تنہا چلتی ہے،

خوابوں کے جگنوؤں کا پیچھا کرتی ہے۔

خواب بھی ہیں، حقیقت بھی، امیدیں بھی،

دل میں اٹھتے سوال، خوف کی زنجیر بھی۔

کبھی اڑتی ہے خیالوں کے پروں پر،

کبھی الجھتی ہے خود سے، اپنے ہی زخموں میں۔

رہنما کے طعنے، کبھی حوصلہ، کبھی طیش،

یہ راہ، ایک جدوجہد، ایک مسلسل کوشش۔

خود سے لڑتی، اپنے وجود کی جنگ،

آنے والے کل کی فکر، بس ایک پل کا سنگ۔

آگے بڑھنے کی امید، دل میں بسا کر،

صبر کی چادر اوڑھ کر، جیتی ہے یہ سفر۔

کل کی روشنی، آج کی تاریکی میں چھپی،

یہی تو ہے پی ایچ ڈی کی زندگی، ایک کہانی انوکھی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے