مرتکب ۔۔۔ احمد رشید

’’جرح ہو چکی تھی، فیصلہ محفوظ تھا‘‘

مجھے یقین ہے جواب دہی سے بچنے کے لیے ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ فیصلے کی تاریخ آئندہ پڑ چکی تھی، حالانکہ ’فیصلہ‘ کسی مصلحت کا محتاج نہیں ہوتا، میں ایسا اس لیے سوچتی ہوں کہ یہ تو مجرم ہی کو معلوم ہے کہ وہ جرم کا مرتکب ہے کہ نہیں، وکیل کی نظر میں شریف مؤکل بھی مجرم ہوتا ہے یہی پیشہ کا تقاضہ ہے۔ پیش نظر تصویر سے ’جرم’، ’جرح‘ ’سنوائی‘ کی شکل بنتی ہے۔ پس منظر میں ہی سچ کی صورت ہوتی ہے کہ سچ دکھائی بھی کم دیتا ہے۔ اس دھُند سے نکلنے کے لیے اسے بڑی مشقّت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی جرأت اور محنت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ آسمان پرچھائی ہوئی سیاہی کو چیر کر چاند اپنی روشنی کے ساتھ دھیرے دھیرے نمودار ہو کر دیکھنے والوں کے لیے خوشی کا نور اور ہونٹوں کے لیے مسکراہٹ کی خوشبو بکھیرتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے کیا جرم کیا، عشق کرنا کوئی گناہ ہے اور کس سے کرے کیوں کرے، کیا کوئی پابندی ہے؟ آزادی اور عشق گر مشروط ہو جائے تو یہ دونوں الفاظ بے معنی ہو جائیں، دونوں ایک دوسرے کے ’لیے لازم و ملزوم ہو کر بامعنی ہو جاتے ہیں۔ قیس نے لیلیٰ سے عشق کیا، لیلیٰ لیل کی طرح سانولی تھی اس کے حسن و جمال کو لیلیٰ را بہ چشم مجنوں باید دید اور اس کا قصۂ دید بزبانی قیس سنو۔ عشق میں مداخلت کسی عاشق کو برداشت نہیں ہوتی اگر وہ صرف میرے لیے آتا تو یہ اس کا عشق ہوتا اور میرے لیے برداشت ہوتا لیکن عشق کے بیچ ناقابلِ برداشت ہوا۔ وہ تو خیر سے میرے پتا کا نام رام لال ہے اور میں مسلم آتنک وادی نہیں۔ آتنک واد کا ملزم مقدمہ لڑنے سے پہلے ہی مجرم بنا دیا جائے پھر کیوں ہندو وکیلوں نے مقدمہ لڑنے سے انکار کر دیا؟ کہ میں نے پتی ورتا کا دھرم نہیں نبھایا۔ یہ سب کچھ گوارہ نہیں کہ اس نے میرے اوپر جو ظلم ڈھانے کا جرم کیا میری مرضی کے خلاف مجھے ہاتھ لگائے تو زنا بالجبر کہلائے دھرم پتنی ہونا نوکرانی تھوڑئی ہوتا ہے۔ میری زندگی کے پورے دس سال ظلم کی داستان ہے وہ اپنی مرضی سے اور اپنے طریقے سے مادی شے کی طرح مجھے استعمال کرتا رہا۔

وکیلوں کی یہ گھٹیا سوچ پیشے کی نسبت سے غیر ذمہ دارانہ حرکت ہی نہیں ان کے غیر انسانی فعل کا ثبوت بھی ہے۔ اس مجبوری میں وکیلوں کی ضرورت کو بھی ندارت کیا۔ میں آج تک نہیں سمجھ پائی کہ پابندی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی یا آزادی انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ تاریخ میں چھٹّے سانڈوں کے واقعات بھرے پڑے ہیں جب انسانی سماج سے سخت پابندیوں میں مہینوں دور رکھا جائے تو ایک دانو اس کے اندر پلنے لگتا ہے اور موقع ملتے ہی وہ ٹوٹ پڑتا ہے۔ آزادی سے بہت بھیانک تانڈو کرنے کے لیے۔ انسانی کتاب میں اس تانڈو کو کون سا عنوان دیا جائے گا میں نہیں جانتی۔

میٹرک پاس کرنے کے بعد مجھے شکچھا اور گیان پراپتی کے لیے بورڈنگ ہاؤس بھیج دیا گیا۔ جہاں کی زندگی بڑی پر لطف اور مزیدار تھی، میری روم پاٹنر جو پھول کی ٹہنی کی طرح نازک اندام تھی خوبصورتی کا یہ عالم کہ میری طرح گداز فربہ جسم والی حسین عورت بھی اس کی گرویدہ ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ مردانی کرگس آنکھ اس کی جھیل سی آنکھوں میں تیر کر بے حیا سرور کی کیفیت میں مبتلا ہو، میرے اندر انگور کے خوشہ کو لپکنے کی خواہش جاگی۔۔۔۔ اور میں اس انگوری نشہ میں ایسی ڈوبی کہ ڈوبتی چلی گئی اور اس کے حلقۂ عشق میں رقص کرنے لگی۔ تقریباً دو مہینہ کے بعد ایک دن کا واقعہ ہے۔

’’میرے من میں تمہاری معصومیت کا گہرا اثر ہے‘‘

’’سندر تو آپ بھی ہیں‘‘

پرشنسا سن کر میرے اندر معشوق کی طرح گدگدی سی ہونے لگی۔۔۔۔ سوچ رہی تھی عورت کسی دوسری عورت کے حسن کی تعریف کرنے میں بڑی کنجوس ہوتی ہے اس کی فیاضی پر من ہی من خوشی ہوئی۔

’’چائے پیو گی‘‘

’’مجھے پسند ہے‘‘

’’کافی بھی پیتی ہوں‘‘

’’اور جوس۔۔۔‘‘

’’پلپ اچھا لگتا ہے خصوصی طور سے کیلے اور آم کا‘‘

’’مطلب گودے دار‘‘ میں نے آنکھ مچکاتے ہوئے کہا۔

’’ہاں گداز پن، پلپلا پن۔۔۔۔۔

’’جیسے میرا فربہ بدن گداز سا‘‘ میں نے بے تکلفی سے اس کا تکلف توڑنا چاہا۔ وہ شرما سی گئی اور اس کی جھیل سی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیرنے لگے۔ اسی ایک لمحہ، میں نے اچھل کر جیٹھ بھر لی اور اس کے گلابی رخسار کا بوسہ لے لیا۔

پلک جھپکتے ہی وہ میرے بیڈ سے اتر کر فرش پر کھڑی ہو گئی جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔

’’Sorry‘‘

وہ اس دن گم صم سی رہی، مجھے بھی اپنی اس بے شرمی پر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔ چونکہ میری زندگی کی یہ پہلی بھول تھی لیکن لذّت آمیز۔ اظہار تاسف تو ہونا ہی تھا۔ حسن کا جلوہ پہلے تاثر قائم کرتا ہے، رفتہ رفتہ گدگداتا ہے، بے چین کرتا ہے، تڑپاتا ہے تب کہیں جا کر ملتفت ہوتا ہے۔ جلد بازی اسے پسند نہیں ہوتی۔ میرا بھی یہ پہلا تجربہ تھا، یا یوں کہہ لیجئے، بچپنہ ہے تو ضدیں بھی نرالی ہیں ان کی‘‘ جمال کی پہلی نظر نے ایسا کمال کیا کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگا۔ وہ سائنس کی طالبہ تھی اور میں آرٹس کی، میرے اندر جمالیاتی حس زیادہ قوی اور اس کے پاس حجت و دلیل زیادہ تھی۔ وہ سوالات کرتی، میں جوابات تلاش کرتی یہ سلسلہ ایک عرصہ میں قید تھا پھر بھی سوال و جواب ہی راستہ بنا ہماری قربت کا۔۔۔۔ تمام ناپسند اشیاء پسند میں شامل ہو گئیں۔ اختلافی خیالات، ہم خیالی میں تبدیل ہو گئے، ہر قسم کی راز و نیاز کی باتوں میں شریک ہوتی لیکن بعض امور میں محتاط رہتی۔ یہ اس کا نسوانی حجاب تھا یا کوئی ایسی مجبوری جو ہماری رفتار میں مانع تھی، اس کے تکلف اور احتیاط پسندی کے برخلاف مجھے وجہ تلاش کرنی تھی کہ وہ قریب رہتے ہوئے دور کیوں رہتی ہے؟

اس روز ہم دونوں بہت خوش تھے، گریجویشن کے بعد ایل ایل بی کے لیے داخلہ مل گیا تھا۔ اس نے خوشی منانے کا اظہار کیا۔ اسے حسن اتفاق کہئے کہ گلاب ٹہنی کی مانند نازک اندام اور گلاب پنکھڑی ہونٹ والی حسینہ کو سمجھنے کا ایک بہترین موقع ملے گا۔ وہ میری ہم عمر تھی لیکن مخصوص نسوانیت اور نزاکت ہونے سے چھوٹی سی گڑیا دکھائی دیتی اور میں فربہی کے سبب گڈے کی طرح بڑی لگتی، اس لیے وہ میرا نام لینے میں ہچکتی تھی۔ اکثر ’’آپ‘‘ اور ’’تم‘‘ سے کام چلاتی۔

’’آگرہ گھومنے چلیں گے‘‘ اس نے کہا۔

’’ارے یار۔۔ تمہارا آگرہ میں پڑے پڑے جی نہیں گھبراتا۔۔۔۔۔ کہیں۔۔۔۔۔ دور۔۔۔۔۔

’’کہاں؟‘‘

’’کھجراؤ چلتے ہیں‘‘

’’نہیں، نہیں‘‘ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔

’’ارے اس میں پریشان ہونے کی کون سی بات ہے۔۔۔۔ آخر وہ بھی۔۔۔۔ ہماری کلچرل تاریخ ہے‘‘

’’کافی دور ہے۔۔۔۔ اور پھر لوگ۔۔۔۔

’’ایک ساتھ ہونے میں دور پاس کیا؟۔۔۔۔۔ زندگی ہماری۔۔۔۔ لوگ کہاں سے آ گئے ہماری آزادی کے بیچ۔۔۔۔ (وقفہ کے بعد)۔۔۔۔۔ یہ تہذیب کے اولین نقوش ہیں‘‘

’’اب ہم بہت آگے نکل چکے ہیں۔۔۔۔ مڑ کر دیکھنے میں پتھر کے ہو جائیں گے‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’پتھر کے ہونے میں اب بھی کوئی کسر باقی ہے۔۔۔۔ گوشت پوست کی ہونے کے باوجود غزل کے محبوب کی طرح خاموش۔۔ آگرہ نواسی، پھر بھی غالب کے مجسّم محبوب سے بے خبر۔۔۔۔ پھر وہ بے زبان مورتیاں جسم و جاں کی بولتی ہوئی داستان ہیں۔‘‘

کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی میں نے سوچا تاج محل سے کونارک کی مورتیوں کا سفر ابھی طویل ہے۔

’’اچھا چلو جیسا تم چاہو‘‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

آگرہ پہنچنے کے بعد ایک شاکا ہاری ہوٹل میں دو بیڈ کا کمرا بک کرایا۔ فریش ہوئے، ڈائننگ ہال میں، اس نے دو پلیٹ لگانے کے لیے ویٹر کو آڈر کیا۔

’’ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں تو ایک ہی ٹیبل پر دو پلیٹ کیوں؟‘‘

’’حفظان صحت کے لیے ضروری ہے‘‘

میں سمجھ رہی تھی کہ یہ بات کاٹنے کا طریقہ ہے، میں مسکرائی۔ ’’دونوں انسان ہیں پھر کیوں اتنے حجابوں میں ملیں‘‘

’’تکلّفات آہستہ آہستہ ٹوٹتے ہیں۔۔۔۔۔ ایسا تو ہے نہیں کہ بم گرے اور ایک دم توڑ پھوڑ مچا دے‘‘۔ اس نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا۔

میں سوچ رہی تھی کہ برہما کے سر سے پیدا ہونے والی مخلوق فخر کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ پرانے دور سے ملنے والے اعزاز کو قائم رکھنے کی بیقراری دلتوں پر ظلم کی کہانی کا آغاز ہے، سو آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

’’کیا سوچ رہی ہیں آپ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میرے ہاتھ میں آدھا گلاس پانی تھا، اسے میز پر رکھتے ہوئے ’’ہم آئین کی رو سے آج تک ہندوستانی نہیں ہو پائے۔۔۔۔ سب ہی کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ کسی بھی جاتی، دھرم، جنس کی بنیاد پر فوقیت حاصل نہیں‘‘

’’ہاں منو سمرتی نے ضرور جاتی کے آدھار پر ترجیحات دی ہیں۔ یہ غیر انسانی اصول ہے۔ لیکن پریم تو جاتی دھرم اور لِنگ سے ہی انکار کرتا ہے‘‘ وہ زیر لب مسکرائی اور میز پر رکھا ہوا آدھا گلاس پانی پی گئی۔

’’پریم جب چرم سیما پر پہنچتا ہے تو پوجا بن جاتا ہے۔‘‘

ہم دونوں ایک ساتھ اٹھے اور چل دیے۔ اپریل کی گرمی تھی، سر پر چلچلاتی دھوپ، پاؤں کے نیچے آگ اگلنے والی سڑک تاج محل کو جاتی ہوئی۔

’’اس سے پہلے، تاج محل دیکھا ہے؟‘‘

’’ہاں دیکھا ہے تصویروں میں‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’یہ کیسے ممکن ہے کہ آگرہ میں رہتی ہو اور دیدار سے محروم ہو‘‘

’’آپ نے تو دیکھا ہو گا؟‘‘

’’بارہا۔۔۔۔ لیکن تمہارے ساتھ دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔‘‘

اس کی پہلی نظر تاج پر بڑی تو وہ حیران رہ گئی۔ فنکاری کا ایک نادر نمونہ سنگ مرمر سے بنی عمارت دیکھ کر وہ خود بھی پتھر ہو گئی۔

’’شاہجہاں نے پتھروں کا تاج محل زمین پر بنایا، میں اپنی ممتاز کے لیے دل میں تاج محل بناؤں گی‘‘

’’وہ برق رفتاری سے مجھ سے لپٹ گئی جیسے جسم میں داخل ہونے کی آرزو مند ہو‘‘

سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کے عروج و زوال کے تابع ہے، مغلوں کی شان و شوکت کی خوبصورت نشانی بھی دھند میں آ گئی۔ وہ تھک چکی تھی اس کے گلابی چہرے پر تکان کی سیاہی گہری ہو گئی تھی۔ ہم نے ہوٹل کے لیے رخ کیا۔

کمرے میں چاروں طرف خاموشی تھی، ہر شے قرینے سے حلقہ بگوش تھی۔ اس نے چند لمحے کے لیے اپنا نڈھال بدن پلنگ پر ڈال دیا۔ تھکن اور عمدہ ڈنر کی غنودگی سے آنکھیں مند رہی تھیں، موبائل آن کیا ابھی دس بجے تھے۔ کمرے کے کھڑکی کے باہر جھانکا پورا شہر ایسی رات میں ڈوب رہا تھا جو اپنے دامن میں جرائم اور مظالم کو سمیٹ لیتی ہے، موذی جانور بھی اکثر رات میں نکلتے ہیں۔ وہ قد آدم تولیہ کو لپیٹ کر باتھ روم سے نکلی اور پلنگ پر چت لیٹ گئی، میرے اندر سانپ رینگنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ پھن پھیلاتا میں بھی باتھ روم میں گھس گئی۔ فریش ہو کر اسکائی بلیو نائٹی پہنے باہر نکلی اس کی منتظر آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں۔

’’لاؤ مساج کر دوں تھکن اتر جائے گی۔‘‘

’’اس کے انکار میں نسوانی اقرار تھا۔‘‘

’’بدلے میں تم میری کر دینا۔‘‘

اس نے کچھ نہیں کہا، میں نے اس کی گوری گوری ٹانگوں کی ہلکے ہلکے مساج شروع کر دی۔ میں سوچ رہی تھی عشق میں عاشق اور معشوق کی تقسیم نہیں ہوتی بس ایک دوسرے کو نبھانے کے لیے ترجیحات ہوتی ہیں۔ در اصل فاعل اور مفعول ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ صرف استعمال سے اس کی فطرت بدلتی ہے۔ ورنہ عاشق معشوق اور معشوق عاشق بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی ٹانگیں پھیلائے پلنگ پر بے سدھ لیٹی تھی جیسے ماہی بے آب ریت پر پڑی ہو۔ مساج کی انگلیاں جسم کے ہر مخصوص غیر مخصوص حصوں پر رینگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں ایک ایسے نشے میں ڈوب رہی تھیں جس سے ابھرنے کو دل نہیں چاہتا۔ اس نے دھیرے دھیرے لال ڈورے میں لپٹی ہوئی اپنی آنکھیں کھولیں اور ایک ہی ساعت میں میری باہوں میں گر گئی۔

میں اس لمحہ اس خبر کے متعلق سوچ رہی تھی کہ دلت کو گھوڑی پر چڑھنے کی اجازت نہیں، مجھے ایک خوف یہ بھی تھا کہ میرے فاعل ہونے کی صورت میں اسے کہیں یہ نہ لگے کہ میں صدیوں کا حساب چکا رہی ہوں۔۔۔۔ ’’چلو اب تم میری مساج کرو‘‘

وہ چونک گئی اور الگ ہٹتے ہوئے بولی ’’یہ عجیب رشتہ ہے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسی لیے دیر تک باہم ٹکا رہتا ہے‘‘

’’پھر ایسا بھی سمے آتا ہے کہ جسم پیچھے کہیں چھوٹ جاتا ہے بس دلی رشتہ باقی رہ جاتا ہے‘‘ میں نے کہا

’’لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گی جسم و جاں اور ذہن و دل کا یہ رشتہ بہت دور تک جائے گا‘‘ اس نے عہد و پیمان کیا۔

وہ میرے پستانوں سے کھیلتے ہوئے میری گود میں بیٹھ گئی تھی اور میرے ہونٹوں اور رخساروں کو والہانہ انداز میں بوسے کر رہی تھی۔

رات کی بے لباسی نے نیند کا سکون ضرور چھین لیا تھا لیکن اس مخمور کیفیت سے نکلنے کے بعد جب آنکھ کھلی تو رات کی تاریکی چھانٹ کر صبح روشن ہو چکی تھی۔

چائے کے درمیان اخبار پر نظر گئی۔۔۔۔ سپریم کورٹ نے ہم جنسی کو جائز ٹھہرانے کا قانون بنا دیا۔۔۔۔۔ اور ہم دونوں نے کمرے ہی میں دن کے جی اٹھنے کا وقت کو سیلی بریٹ کیا۔

وہ عشق ہی کیا جو آسانی سے نصیب ہو جائے۔ آنر کلنگ، لؤ جہاد اور نہ جانے کیا کیا سب کی سب آسیبی اصطلاحات ہیں۔ بس بدلتے زمانے کے ساتھ صورتیں بدل گئی ہیں۔ پرانے وقتوں میں عزت و ناموس، خاندانی عظمتیں، بزرگوں کی تہذیبی قدروں کا بکھان تھا۔

ایک دِن پتا جی کا حکم ملا کہ پوری پیکنگ کر کے آؤ اور میں بورڈنگ چھوڑ چھاڑ کر گھر پہنچی۔

’’تمہاری شادی علی گڑھ طے کر دی گئی ہے، لڑکا بہت عمدہ اور پڑھا لکھا ہے اچھی سروس کرتا ہے‘‘

’’لیکن ڈیڈی میری پڑھائی۔۔۔

’’گریجویٹ ہونا کم ہے،۔۔۔۔۔ بعد میں ایل ایل بی کر لینا چونکہ اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘

ڈیڈی کے حکم کے آگے کیا مجال کہ کوئی آنکھیں ملا سکے، ان کے سامنے کوئی حجت تھی نہ دلیل بس حکم بجا لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ والدین کے دباؤ میں یہ بھی نہ کہہ سکی کہ مجھے شوہر کی ضرورت نہیں۔ میں تو۔۔۔۔۔ میرا ذہن پریشان، دل کی بے چینی کے عالم میں اسے فون کیا، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے شادی میں شریک ہونے کا دعوت نامہ دیا۔

وہ بھی کچھ نہ کہہ سکی، زبان گنگ ہو گئی اندر ہی اندر کسمسا کر رہ گئی۔ بادل ناخواستہ آئی۔۔۔۔۔ شادی کی تمام رسومات بے دلی سے ادا کیں۔ وقت رخصت حواس باختہ ہو کر کہنے لگی ’’آپ چلی جائیں گی۔۔۔۔۔ میں نے آپ ہی کی سسرال میں نوکری کرنے کا ٹھان لی ہے۔‘‘

حالات کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔۔ جب احتجاج و اعتراض نہ ہو تو کانوں کان کسی کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔

لیکن کان تو دیواروں کی بھی ہوتے ہیں۔ گھٹا ٹوپ بادلوں کی سیاہ رات میں کالے پہاڑ پر رینگتی ہوئی کالے رنگ کی چیونٹی کو خالق کائنات دیکھتا ہی نہیں۔ اس کے چلنے کی دھمک سنتا بھی ہے پھر انسان تو اشرف مخلوقِ خداوندی سے کیوں کر کوئی راز پوشیدہ رہ سکتا ہے۔ ۱۳؍مارچ کے اخبار نے راز کو فاش کر کے مجھے مشتہر کر دیا سرخی ہے کہ ’’ہم جنس پرستی کے خلاف آواز اٹھانے پر شوہر کا قتل‘‘ خبر ہے علی گڑھ تھانہ گاندھی پارک: گزشتہ روز بھوری سنگھ نامی ایک شخص کی لاش نالے سے برآمد ہوئی تھی۔ بھوری سنگھ کے بھائی کشن سنگھ نے اپنی بھابھی اور کرایہ دار کے خلاف مقدمہ قائم کرایا تھا۔ مسلسل تفتیش کے بعد ایس او نے مذکورہ معاملہ میں دفعات 147، 120B, 201 اور 302 کے تحت مقدمہ درج کر کے دونوں ملزمین کو جیل بھیج دیا۔

پوری تفتیش کے بعد چارج شیٹ مجسٹریٹ کے یہاں پیش کر دی گئی۔ مجسٹریٹ نے چارج شیٹ آنے پر مقدمہ سیشن کورٹ کے سامنے ٹرائل کے لیے بھیج دیا۔

عدالت میں شانِ بے نیازی سے جج کی آمد ہوئی۔ اس کے احترام میں سب ہی افراد کھڑے ہو گئے۔ اس کے تشریف فرما ہونے پر اپنی اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ منصف سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف منصب جو عدل و انصاف کی روِش پر قائم ہو جس کا سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ عدالت بیٹھ چکی تھی۔ وکیل استغاثہ دست بدستہ اپنی فائل کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا اس کی نظرِ اجازت کا منتظر تھا۔ مقدمہ کی شروعات سے پہلے جج نے موکلہ سے وکیل دفع کی پرسش کی۔

’’عزت مآب وکیلوں نے میرا مقدمہ لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ثابت ہونے سے پہلے ہی مجھے مجرم قرار دے دیا کہ میں نے ہم جنسی کے خلاف آواز اٹھانے پر اپنے شوہر کو قتل کر کے پتی ورتا کے دھرم کی توہین کی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

جج نے کہا ’’وکیل کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’سرکاری خرچ پر وکیل دفع ہم کو نہیں چاہئے، ہم دونوں اپنے مقدمہ کی خود پیروی کریں گے‘‘ اس نے قانون پر اپنی بے اعتمادی کا اظہار کیا۔

جج نے اجازت دے دی اور وکیل استغاثہ کو اشارہ کیا اور اس نے مقدمہ کے حالات عدالت اور دونوں مؤکلہ کے سامنے رکھے اس طرح مقدمہ کی سماعت ہوئی۔

’’پولیس تفتیش کے مطابق بھوری سنگھ کا قتل اس کی بیوی روبی نے اپنی سہیلی رجنی کی مدد سے کیا تھا۔ دونوں نے اپنا جرم قبول کرتے ہوئے بتایا کہ ہم دونوں کے درمیان دو سال سے جنسی تعلقات تھے جس کے سبب ہی روبی نے اپنے گھر کے اوپر ایک کمرہ بنوا کر رجنی کو دیا تھا جو کرایہ پر رہتی تھی۔ روبی نے پولیس کو بتایا کہ ہمارے جنسی تعلقات کی خبر بھوری سنگھ کو ہو گئی تھی اور وہ مسلسل اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ اس کے بعد ہی ہم نے ایک ماہ قبل ہی اس کو راستے سے ہٹانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ ہماری پلاننگ کے تحت اس کو ہولی پر زیادہ شراب پلانی تھی، طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم نے ہولی پر اس کو خوب شراب پلائی اور خوب نشے میں ہو جانے پر بھوری سنگھ کو رسّی سے باندھ کر منھ پر ٹیپ لگا کر گلا دبا کر قتل کر دیا جس کے بعد انھوں نے لاش کو پلاننگ کے تحت بھوری سنگھ کے بھائی کشن کے گھر کے برابر نالے میں گرا دیا جائے جس سے اس کے قتل کا الزام کشن پر آئے۔ دونوں عورتوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ بھوری رات میں گھر پر نہیں آیا۔ رات میں بھوری سنگھ کی لاش کو نالے میں پھینکنے کے بعد اس کے موبائل پر کال کی تاکہ لوگوں کو لگے کہ وہ بھی اس کے لیے پریشان ہیں۔ پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ دونوں عورتوں نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ جس کے بعد انھیں جیل بھیج دیا گیا۔‘‘

ثبوت کے لیے تاریخ مقرر ہوئی اور گواہان پیش ہوئے۔

گواہ نمبر۱۔ پولیس انسپکٹر فوجدار سنگھ چوہان: ’’جناب عالی! تفتیش کی مکمل رپورٹ، فورنسک رپورٹ اور کشن سنگھ کی ایف۔ آئی۔ آر۔ کی کاپی آپ کی خدمت میں داخل کر دی گئی ہیں۔ دونوں عورتوں نے پولیس کے سامنے اقبالِ جرم کر لیا ہے اس کی کاپی بھی فائل میں موجود ہے۔‘‘

گواہ نمبر ۲۔ ڈاکٹر وید پال شرما: ’’مقتول کو کثرت سے شراب پلائی گئی۔ شدید نشہ کی حالت میں اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، منھ پر ٹیپ لگایا گیا۔ گندے نالے میں اڑتالیس (۴۸) گھنٹہ رہنے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ گردن دبانے کے نشانات نہیں پائے گئے۔‘‘

گواہ نمبر۳۔ کشن سنگھ: سرکار! روبی اور ان کی سہیلی رجنی کے غیر قانونی اور ناجائز تعلقات کا جب بھیا بھوری سنگھ کو پتہ چلا تو ان دونوں کے درمیان اکثر جھگڑا رہنے لگا۔ اسی لیے دونوں عورتوں نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ موقع ملتے ہی قتل کر کے لاش میرے گھر کے برابر نالے میں ڈال دی جس سے قتل کا الزام میرے اوپر آئے۔

مقر رہ تاریخ پر دونوں ملزمان نے اپنی صفائی پیش کی۔

پولیس کے بے رحمانہ سلوک اور تھرڈ ڈگری کے خوف سے بڑے بڑے سورما زبردستی اپنا جرم قبول کر لیتے ہیں وہ چاہے مجرم ہو یا نہ ہو، ہم دونوں پولیس کے تفتیشی بیان سے انکار کرتے ہیں۔ سرکار! غور کیجئے، قتل ۱۰؍مارچ ہولی والے دن ہوا، پولیس کو لاش ۱۲؍مارچ صبح ۹ ؍بجے ملی، ۱۲؍مارچ کو ہی کشن سنگھ نے قتل کی نامزد رپورٹ درج کرائی۔ پولیس کے مطابق ۱۲؍مارچ ہی کو ڈاکٹر کی جانچ رپورٹ آئی ہے۔ حضور والا! ۱۰؍مارچ رات ۹؍بجے بھوری سنگھ کے گھر نہ لوٹنے کی رپورٹ میں نے گاندھی نگر تھانے میں کرائی ہے۔ بھوری سنگھ سے ۱۰؍مارچ رات ۷؍بجے میرے موبائل سے بات چیت ہوئی ہے۔ اس وقت وہ کشن سنگھ کے یہاں موجود تھے۔ اس کی تصدیق میرے موبائل سے کی جا سکتی ہے۔ میں نے جب کشن سنگھ سے بات کرانے کو کہا تو کہا کہ وہ باتھ روم میں ہے۔ سر یہ پولیس کی بنائی ہوئی من گھڑت کہانی ہے۔

ڈاکٹری رپورٹ سے بھی ظاہر ہے زیادہ شراب پی کر جب بھوری سنگھ بے سدھ ہو گیا تو اس کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے، منھ پر ٹیپ لگایا گیا اور گندے نالے میں اڑتالیس گھٹنے ڈوبے رہنے سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔

سر! کشن سنگھ کے کہنے سے ناجائز تعلقات کے ہونے سے مجھے سخت اعتراض ہے۔ جب عدالت عالیہ نے دفعہ 377 منسوخ کر کے اس کو جائز قرار دے دیا تو غیر قانونی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میری شادی سے پہلے ہم دونوں کے درمیان ہم جنسی تعلقات گذشتہ سات سال سے قائم ہیں۔ رجنی سے میرے جنسی تعلق کا پتہ بھوری سنگھ کو دو مہینے پہلے لگا۔ اس دن مقتول نے خوب جھگڑا کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی ہم دونوں کے بیچ نوک جھونک ہوتی تھی۔ سونے سانے کولے کر وہ ہم بستری کے لیے میرے اوپر جبر کرتا تھا، اپنی مرضی کے خلاف اس کا دل رکھنے کے لیے میں آمادہ بھی ہو جاتی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ہر سمے پتی بنا رہے۔ آخر رجنی کا بھی میرے اوپر کوئی حق بنتا ہے وہ میرا عشق ہے، میرا مفعول ہے۔ ایک فاعل دوسرے فاعل پر کیسے جبر کر سکتا ہے۔ پھر بھی میں مقتول کو دل سے نبھاتی تھی چونکہا پنی ضرورتِ عشق سے وہ بھی مجبور تھا۔ لیکن پتی پتنی کے جھگڑے سے کشن سنگھ کو کیا لینا دینا۔ سر! میرا سوال ہے کہ ان دونوں بھائیوں کے بیچ جھگڑا کیوں رہتا تھا؟ ایک سال پہلے جب میں بیاہ کر آئی تو دونوں بھائیوں میں آپسی رنجش دیکھی۔ کشن سنگھ کی بری نظر میرے شوہر بھوری سنگھ کے عالیشان مکان پر تھی۔ اسی لیے اس نے ہمارے آپسی جھگڑے کا فائدہ اٹھایا۔ ہولی والے دن میرا پتی ناراض ہو کر اپنے بھائی کشن سنگھ کے گھر صبح ۸؍بجے گیا اور جب شام ۷؍بجے تک وہ واپس نہیں ہوا تومیں نے فون کیا۔ اس نے غصہ میں کہا میں نہیں آؤں گا، تٗو تو رجنی کے ساتھ رہ۔۔۔۔۔ میں نے رات ۹؍بجے کے بعد چھ کال کی، فون آؤٹ آف رینج بتا رہا تھا۔ ڈاکٹر کی اطلاع کے مطابق لاش اڑتالیس گھنٹے ڈوبی رہی ہے۔ اس کا مطلب ۱۰؍مارچ کو رات ۸ اور ۹ بجے کے بیچ بھوری سنگھ نشہ کی حالت میں خود گر گیا یا اسے مارنے کے ارادے سے گرا دیا گیا۔ کہا نہیں جا سکتا؟

جج نے کہا ’’قتل کیا جانا شبہ کے دائرے میں ہے، لیکن رجنی سے ہم جنسی تعلق تھا تو تم نے اپنے رشتے کو چھپا کر بھوری سنگھ سے شادی کیوں کی؟‘‘

’’سر! آزادی کا دعویٰ کرنے والا بھی کہیں نہ کہیں مشروط اور پابند ہوتا ہے۔ پھر عورت تو نام ہے مجبوری اور مستوری کا۔ اس کے سر پر ہمیشہ پدری دباؤ اور سماجی پابندیوں کی تلوار ٹنگی رہتی ہے۔

بحث سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا ’’روبی اور رجنی کو دھوکہ دھڑی کے جرم میں تعزیرات ہند کے تحت تین سال کی قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے اور کشن سنگھ کے خلاف مقدمہ چلے گا۔

سر! آپ سے بصد احترام درخواست ہے کہ ہم دونوں کو ایک ہی بیرک میں ایک ساتھ قید رکھا جائے۔۔۔

’’اس پر غور کیا جائے گا‘‘ کہہ کر جج کرسی چھوڑ کر عدالت سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے