محمد حامد سراج :تھا لطفِ زِیست جن سے وہ اب نہیں میسر ۔۔۔ڈاکٹر غلام شبیر رانا

کورانہ تقلید سے سخت نفرت کرنے والے حآمد سراجؔ نے سدا اپنی ملی، تہذیبی ، ثقافتی ، تاریخی اور قومی روایات کی پاسداری کو اپنا نصب العین بنایا۔ محمد حامد سراج کی تخلیقی فعالیت سے روایات کے گلشن میں افکارِ تازہ کے گُل ہائے رنگ رنگ کھِل اُٹھے۔

بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادبیات میں فکشن میں جس رجحان کو پذیرائی ملی اُسے طلسماتی حقیقت نگاری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کولمبیا سے تعلق رکھنے والے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار گبریل گارسیا مارکیز (Gabriel García Márquez: 1927-2014) کے اسلوب میں طلسماتی حقیقت نگاری کی کیفیت محمد حامد سراج کو بہت پسند تھی۔ طلسماتی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب کی اساس بنا کر جب ایک تخلیق کار مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو وہ منطق و توجیہہ سے قطع نظر فکشن میں کردار نگاری کو ایسی منفرد بیانیہ جہت عطا کرتا ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ اسلوب کی غیر معمولی دل کشی، حقیقی تناظر، موہوم تصورات، مافوق الفطرت عناصر کی حیران کُن کرشمہ سازیاں اور اسلوب کی بے ساختگی قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور دل سے نکلنے والی بات جب سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے تو قاری اش اش کر اُٹھتا ہے۔ گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنے متنوع تخلیقی تجربات کے اعجاز سے عالمی ادبیات میں تخلیقِ ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا۔ اُس کے نئے، منفرد اور فکرپرور تجربات گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھے۔ ان تجربات کے معجز نما اثر سے جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیقی فعالیت کو بے کراں وسعت اور ہمہ گیری نصیب ہوئی۔ اُس نے حقیقت نگاری کے مروجہ روایتی اندازِ فکر کے بجائے طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر ایک نئے جہان کی تخلیق پر توجہ مرکوز رکھی۔ اپنے تراجم میں اگر چہ محمد حامد سراج نے عالمی ادب سے مشہور افسانوں کا انتخاب کیا ہے مگر اپنے تخلیقی کام میں انھوں نے اپنے منفرد اسلوب سے کشش پیدا کی ہے۔

اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی جانے والی محمد حامد سراج کی کتاب ’’میا‘‘ روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ ماں کی دائمی مفارقت پر علامہ اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ زندگی اور موت کے موضوع پر گہری معنویت کی حامل ہے۔ اسی موضوع پر قدرت اللہ شہاب (۱۹۱۷۔ ۱۹۸۶) اور منشا یاد (۱۹۳۷۔ ۲۰۱۱) نے بھی اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے۔ محمد حامد سراج کی کتاب ’’ میا ‘‘ کو قارئین ادب کی طرف سے جو پذیرائی ملی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ’’میا‘‘ کی مقبولیت کا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ سال ۱۹۹۱ میں والد کے انتقال اس کے بعد کینسر کے باعث دادی اور والدہ کی رحلت کے صدموں نے مصنف کی داخلی زندگی پر جو اثرات مرتب کیے وہ اس کتاب میں سمٹ آئے ہیں۔ ماں کی وفات کے صدمے سے محمد حامد سراج کی یادداشت متاثر ہوئی۔ کئی حقائق خیال و خواب ہو گئے، آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں اور منزلیں سرابوں میں بدل گئیں۔ عزیزوں کی دائمی مفارقت کیا ہے یہ تو ایک ماندگی کا وقفہ ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر ؔ

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک نہاں خانۂ دِل کو معطر کرنے کا وسیلہ ہوتی ہے جب گُل چینِ اَزل انھیں توڑ لیتا ہے تو دِلوں کی بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور گرد ونواح کا پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ حیات مستعار کی کم مائے گی، مر گِ نا گہانی کے جان لیوا صدموں، فرصت زیست کے اندیشوں، سلسلۂ روزو شب کے وسوسوں، کارِ جہاں کی بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی کم مائے گی ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ کسی انتہائی قریبی عزیز ہستی کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِ خموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا تقدیر کی شمشیر سِتم سہنے والے جگر فگار پس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر روح فرسا صدمہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی، ذہن کو سکون و راحت، روح کو شادمانی، فکر و خیال کو ندرت، تنوع، تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں ؟عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعد درماندہ لواحقین پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کرنے اور جان وارنے والوں کو بے بسی اور حسرت ویاس کا پیکر بنا دیتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب دریاؤں میں آنے والے سیلاب کی طغیانیوں سے قیمتی املاک اور مکانات دریا بُرد ہو جاتے ہیں تو اس آفتِ ناگہانی کی زد میں آنے والے مجبور و بے بس انسان تنہائی اور بے چارگی کے پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ خلوص، دردمندی، وفا، ایثار، رگِ جاں اور خونِ دِل سے نمو پانے والے رشتے جب وقت بُرد ہوتے ہیں تو حسرت و یاس کے پیکرپس ماندگان زندہ در گور ہو جاتے ہیں۔ جان سے پیاری ہستیوں کے جہاں سے اُٹھ جانے کے بعد سراسیمہ پس ماندگان کا دِل بیٹھ جاتا ہے اور ان کا جی چاہتا ہے کہ اب جینے سے ہاتھ اُٹھایا جائے۔

کتاب ’’میا‘‘ کے مطالعہ کے بعد یہ خیال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ موت یاس و ہراس کے سوا کچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے۔ عزیز ہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور نہاں خانۂ دِل کو اپنی عنبر فشانی سے معطر کرنے والے یہ گُل شہر خموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ درد و غم سے نڈھال پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشتۂ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیر سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقدیر کے لگائے ہوئے زخم کے اندمال کی صورت تو پید اہو جاتی ہے مگر قلبی رشتوں کا مظہر جو عضو کٹ جاتا ہے اس کی کمی کا احساس تو زندگی بھر کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی، اذیت ناک محرومی اور عبرت ناک احساس زیاں کے باعث ہوتی ہے۔ غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتیِ جاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ غم و آلام کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت و مسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح، ذہن اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے۔ کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلا خیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس، ابتلا و آزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روز میں دِل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ باقی عمر مصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارۂ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہیں۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھاتے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناً ہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہو گا۔ سینۂ وقت سے پھُوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک، کومل اور عطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کر دائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں آرزوؤں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو، رُوپ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ایزدی اور صبر و رضا کا قفل بھی کھُل جاتا ہے۔ سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں، من کے روگ، جذبات حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِل دہل جاتا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں۔ دائمی مفارقت دینے والوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آتی ہے۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں؟ محمد حامد سراج نے اپنے جذبات حزیں اس طرح پیش کیے ہیں:

گھر سُونا کر جاتی ہیں مائیں کیوں مر جاتی ہیں

سبز دعاؤں کی کونجیں کیوں ہجرت کر جاتی ہیں

’’شجر بوڑھا بھی ہو جائے تو اُس کی چھاؤں ٹھنڈی رہتی ہے۔ بر گد جتنا قدیم ہو اس کی چھاؤں اُتنی گھنی ہوتی ہے۔ ماں چلی جائے تو سناٹے بولتے ہیں‘‘ (میا: صفحہ ۱۳۰)

فکشن کے علاوہ ترجمہ نگاری میں بھی محمد حامد سراج نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ دو تحریری زبانوں میں ترجمے کا عمل سنجیدہ فعالیت، گہری معنویت اور لسانی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجمہ ایک ماخذی زبان کے تحریری متن کو دوسری ترجمہ قبول کرنے والی زبان کے تحریری متن میں تبدیل کرنے کی کاوش ہے۔ جہاں تک ماخذی زبان سے ترجمہ قبول کرنے والی زبان کواسالیب اور مفاہیم کی ترسیل کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ترجمہ اپنے مآخذ کے قریب تر تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی اپنے مآخذ کے ساتھ من و عن مطابقت بعید ازقیاس ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں برصغیر کی مقامی زبانوں میں ادیبوں کی تخلیقی فعالیت نے خُوب رنگ جمایا ہے۔ اس خطے کے فن کاروں نے ستاروں پہ کمند ڈالنے، خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے اور قلب و روح کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر کر اپنی اثر آفرینی کا لوہا منوانے والی تخلیقات پیش کر کے لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ ابد آشنا تاثیر کی حامل اِن طبع زاد تخلیقات نے سنگلاخ چٹانوں، جامد و ساکت پتھروں، بے حِس پہاڑوں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور مجسموں کو بھی موم کر دیا اور اپنی مسحور کُن تخلیقی فعالیت سے جہانِ تازہ کی نوید سنائی۔ اس کے باوجود اس مردم خیز دھرتی کے زیرک تخلیق کار عالمی کلاسیک سے بے نیاز نہ رہ سکے اور اخذ، استفادے اور تراجم کا ایک لائق صد رشک و تحسین سلسلہ ہر دور میں جاری رہا۔ تراجم کو تخلیقی آہنگ سے مزین کرنے میں ان مترجمین کے کمالِ فن کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخِ ادب کے حقائق کی تنسیخ اور صداقتوں کی تکذیب ہو گی بلکہ یہ ایک ایسی غلطی ہو گی کہ جسے نا شکری اور احسان فراموشی پر محمول کیا جائے گا۔ عالمی کساد بازاری اور قحط الرجال کے مسموم ماحول میں چربہ ساز، سارق، کفن دُزد اور حیلہ جُو عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے گلشنِ ادب کی حسین رُتوں کو بے ثمر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ عالمی ادب کے منتخب افسانوں کے تراجم پر مشتمل اپنی کتاب ’’عالمی سب رنگ افسانے‘‘ میں محمد حامد سراج نے آئر لینڈ، اٹلی، افغانستان، ایران، امریکا، برازیل، بنگلہ دیش، ترکی، جرمنی، چلّی، چیکوسلوا کیا، چین، روس، رومانیہ، سربیا، شام، فرانس، مراکش، مصر، ناروے، ویت نام، ہنگری اور ہندوستان کے ممتاز افسانہ نگاروں کے لکھے ہوئے افسانوں کو نہایت خوش اسلوبی سے اُردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔

قحط الرجال کے موجودہ دور میں خود ستائی کی روش عام ہو گئی ہے۔ اپنے منھ میاں مٹھو بننے والے جعل ساز، چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد بونے تعلقات کی بیساکھیوں سے اب باون گزے بن بیٹھے ہیں۔ وقت کے اس سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جاہل کواس کی جہالت کا انعام دیا جاتا ہے۔ نمود و نمائش کو وتیرہ بنانے والے کاتا اور لے دوڑا کی بھیڑ چال پر عمل کرتے ہیں۔ محمد حامد سراج کو اس بات کا قلق تھا کہ بعض نام نہاد ادیب اپنی گرہ سے زرِ کثیر خرچ کر کے دو یا تین کتابیں چھپوا لیتے ہیں اور یہ کتابیں اپنے احباب کو تحفے میں ارسال کرنے کے بعد وہ اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ادب کا نوبل انعام اب انھیں ہی ملے گا۔ تخلیق ادب کے موضوع پر محمد حامد سراج نے لکھا ہے:

’’دریدہ زخموں کی بخیہ گری میں عمریں بیت جاتی ہیں اور اندمال کی خواہش تخلیق گری کا جواز ہے۔‘‘ (بخیہ گر ی: صفحہ ۶)

قاری چشمِ تصور سے اُن تمام الم ناک واقعات اور دریدہ زخموں کی بخیہ گری کاپسِ منظر دیکھ لیتا ہے جن مناظر کو محمد حامد سراج نے نیم باز آنکھوں سے دیکھ کر ان کی لفظی مرقع نگاری کی ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کے آئینہ دار ہیں۔ اسی لیے انھوں نے لکھا ہے:

’’کہانی میری اور میں کہانی کا ہوں۔‘‘ (وقت کی فصیل: صفحہ ۴)

محمد حامد سراج کے اسلوب میں پائی جانے والی فطری بے ساختگی قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہے۔ تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرما لا شعوری محرکات کے بارے میں محمد حامد سراج نے لکھا ہے:

’’جس روز میں لکھنا چھوڑ دوں گا، اُس روز میں مر جاؤں گا ‘‘ (برائے فروخت: صفحہ ۵)

’’میں ادب میں دائیں اور بائیں بازوکی بجائے صرف اور صرف راست سمت کا قائل ہوں۔‘‘ ( چوب دار: صفحہ ۳)

ملک کے طول و عرض سے آ نے والے ملاقاتی محمد حامد سراج کی مسحور کن شخصیت اور حسنِ سلوک کے مداح تھے۔ وہ اپنے اخلاق اور اخلاص سے ملاقاتیوں کے دلوں کو مسخر کر لیتے تھے۔ احباب کی مسرت و شادمانی کی کوئی محفل ہو یا دُکھ درد کا کوئی سانحہ محمد حامد سراج مقدور بھر کوشش کرتے کہ وہ اس میں شامل ہوں۔ دُکھی انسانیت کے زخموں کے اندمال کے لیے وہ ہمیشہ مرہم بہ دست پہنچتے تھے۔ ۱۹۹۵میں میرے والد کی وفات کی اطلاع ملنے پر وہ پروفیسر محمد فیروز شاہ کے ہمراہ طویل مسافت کے بعد میاں والی سے جھنگ پہنچے۔ مجھ سے تعزیت کی اور دیر تک فرشِ زمین پر بیٹھے رہے اور انسانی زندگی و موت کے بارے میں چشم کشا صداقتوں پر اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر انھوں نے مجھے مشیت ایزدی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا مشورہ دیا۔ میری ڈھارس بندھانے کے بعد وہ سہ پہر کے وقت واپس چلے گئے۔ چند لمحات کی یہ ملاقات بھی عجیب رفاقت تھی جس نے ہمیشہ مجھے حوصلہ اور تقویت دی۔ آج سوچا تو آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں کہ ایسی ملاقات پھر کبھی نہ ہو سکے گی۔ ایسے مخلص احباب کے رخصت ہونے کے بعد اب تو زندگی بھر کی تنہائی میرا مقدر بن چکی ہے۔

اپنی کتاب ’’وقت کی فصیل‘‘ کے انتساب میں محمد حامد سراج نے اپنی زندگی کے کرب کو شامل کیا ہے۔ ان کی دائمی مفارقت کے بعد ان کی یہ تحریر قارئین کو زندگی اور موت کے سر بستہ رازوں کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی عطا کرتی ہے۔

’’ماں باپ کی گمشدہ چھاؤں کے نام جو میرے گھر اور شہر خموشاں کے درمیان کہیں کھو گئی۔ جانے میرا مسکن کون سا ہے ؟یہ گھر ؟جس میں صرف سانس لینے کاعمل باقی رہ گیا ہے یا شہرِ خموشاں ؟جسے والدین نے اپنی چھاؤں سے جا آباد کیا۔‘‘ ( وقت کی فصیل: صفحہ ۳)

حیف صد حیف وہ گھر جس میں صرف سانس لینے کا عمل باقی رہ گیا تھا اس کے آنگن سے قزاقِ اجل کا لشکر گزر گیا۔ محمد حامد سراج تمھارے بعد وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو گئے۔ ہم سب حواس باختہ، غرقابِ غم، مضمحل اور نڈھال بیٹھے یہی کہہ رہے ہیں:

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دِن اور

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے