آپ کے اپنے جریدے ’سَمت‘ کا چونسٹھواں شمارہ پیش خدمت ہے جو اس بار کچھ تاخیر سے شائع ہو رہا ہے، جس کی معذرت۔ اس کا ذکر بعد میں۔
مصنوعی ذہانت دنیا کے پر میدان میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔ ادب اور بطور خاص اردو ادب کے میدان میں اس کی فتوحات کس حد تک ممکن ہیں، اور اس سلسلے میں ادیب اور فن کار کتنا فائدہ یا نقصان اٹھا سکتے ہیں، اس قسم کے سوالات کے حل تلاش کرنے کے لئے اس شمارے میں ایک خصوصی گوشہ شامل کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ مواد معلوماتی ثابت ہو گا اور پسند خاطر ہو گا۔
اس عرصے میں دو احباب نے ملک عدم کی شہریت اختیار کر لی، آفتاب اقبال شمیم اور سلیمان خمار۔ ان پر مختصر گوشے بھی شامل ہیں۔
مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ میری کوششوں کے باوجود مجھے خاطر خواہ تعاون نہیں مل رہا ہے، اور بنیادی وجہ یہی رہی ہے جو یہ شمارہ یکم اکتوبر کو شائع نہیں ہو سکا ہے۔ ورنہ اب تک تو میں اس کوشش میں کامیاب رہا ہوں کہ ہر سال کا پہلا شمارہ یکم جنوری، پھر یکم اپریل، یکم جولائی اور آخری شمارہ یکم اکتوبر کو شائع ہو۔
اور ایک اہم بات یہ کہنی ہے کہ افسوس کے ساتھ یہ بھی اطلاعاً عرض ہے کہ زیر نظر شمارہ آخری شمارہ ہے جو اسی پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔۔ اس فیصلے کی کئی وجوہات ہیں، ایک بات تو کہی جا چکی ہے کہ احباب کا تعاون خاطر خواہ نہیں مل سکا ہے۔ ماضی میں کئی بار کئی احباب کو شریک مدیر یا معاون مدیر کے طور پر شامل کرنا چاہا تاکہ کچھ دوسرے ذرائع سے بھی معیاری مواد دستیاب ہو سکے اور میں بھی کچھ محنت سے بچ جاؤں۔ اس شمارے کے لئے بھی کچھ احباب کا تعاون درکار تھا جو مصنوعی ذہانت پر عمدہ تجربے کر رہے تھے۔ مگر۔۔۔۔
ایک اہم سبب میری اپنی بصارت کی خرابی بھی ہے جو سفید کاغذ یا سفید سکرین پر دن کے وقت پڑھنے میں، دونوں آنکھوں کا کیٹریکٹ (موتیا بند) کی سرجری کے باوجود، مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ موبائل فون/ٹیبلیٹ پر تو جہاں ممکن ہو جاتا ہے، میں نائٹ موڈ یا ڈارک تھیم منتخب کر لیتا ہوں، مگر ہر اطلاقیے میں یہ ممکن نہیں۔ سوچا تھا کہ آخری شمارے میں ہی جمع شدہ سارا متنی مواد پیش کر دوں لیکن اب یہ سوچا ہے کہ باقی سارا مواد ایک مخصوص شمارے میں پیش کر کے آپ سے مکمل اجازت لوں۔
بہر حال فی الحال تو اس تحریر سے اجازت لے لوں!
ا۔ ع
٭٭٭
سرورق کی تصویر: مریم تسلیم کیانی