افسانہ مقبول عام تصور کے برخلاف محض روزمرہ کے کسی مانوس تجربے، خارجی مظاہر، معاشرتی چیرہ دستیوں، قدرت کی ستم ظریفیوں یا کسی گہرے داخلی احساس یا وجودی سروکاروں کی فنکارانہ شعور کے ساتھ ترسیل سے عبارت نہیں ہوتا بلکہ یہ اصلاً زبان کے حوالے سے حقیقت کا ایک ایسا رویا (Vision) خلق کرتا ہے جسے ہم اپنی تہذیبی ترجیحات اور ثقافتی آرزو مندیوں کے حصول کے لیے ’’حقیقت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ فن پر خارجی حقیقت کا التباس اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اسے عام زندگی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ اصناف ادب کی نظری اساس کے خدوخال کی وضاحت، ہیئتی امتیازات کی متعین نشاندہی اور موضوع کی تعبیر و تشریح کو تنقید کا بنیادی وظیفہ متصور کیا جاتا ہے اور فن پارہ کی تعین قدر میں تخلیقی متون سے استنباط کو کم ہی درخور اعتنا سمجھا جاتا ہے اور تنقید ایک نوع کے Platiude کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔
افسانہ صداقت کا پرتو ہونے کے بجائے ایک پُر پیچ اور سیال لسانی حقیقت کو قائم کرتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ افسانوی متن سے براہ راست اس کی تفہیم کے اصول وضع کیے جانے کی سعی کی جائے اور اگر کسی فن پارہ میں تخلیقی عمل کی پیچیدہ حرکیات اور بیانیہ عرصہ کی تشکیل کے مراحل کو موضوع بحث بنایا گیا تو اس تفہیم کا اساسی حوالہ بنایا جائے۔ افسانہ کس طرح خود کو قائم کرتا ہے، یہ بیانات (Narratalogy) کا بنیادی مسئلہ ہے اور کسی طرح ثقافت کے متخالف اور متجانس عناصر حسیاتی رد عمل کو مہمیز کرتے ہیں اور افسانہ کس طرح ثقافتی عرصہ کے بعض نمایاں پہلوؤں کو جسے باختن نے Chronotype سے تعبیر کیا ہے، مرکز نگاہ بناتا ہے اور پھر کس طرح انہیں Subvert کرتا ہے، افسانہ کی تنقید کا بنیادی سروکار ہے۔ عالمی ادب کے علی الرغم اردو فکشن میں ایسی تحریریں بہت کم لکھی گئی ہیں جن میں فن کے مابہ الامتیاز عناصر کو ایک خیال انگیز مکالمہ کا ہدف بنایا گیا ہو۔ افسانہ کو افسانہ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش فعل عبث نہیں بلکہ یہ اصلاً تخلیقی امکانات کے لیے افق ہویدا کرتی ہے۔ انتظار حسین نے اب سے کوئی چار دہائیاں قبل اپنے ایک نسبتاً غیرمعروف افسانہ ’انجنہاری کی گھریا‘ میں اپنے افسانہ کے فن پر اظہار کیا تھا یہ اردو میں غالباً پہلا افسانہ ہے جس میں ضمناً ہی سہی افسانہ کی بافت اور اس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ اصلاً Meta Story ہے یعنی افسانہ کے فن کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے، اسے انگریزی میں Story about Story کہا جا سکتا ہے:
’’اس گارے کا گولا تو میں بعد میں بناؤں گا لگے ہاتھوں یہ بات شروع میں بتاتا چلوں کہ یہ افسانہ میں اپنے افسانہ کو سمجھنے کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔ انجنہاری کے واسطے سے اپنے اس افسانہ کی بات اکثر لوگوں کے لیے میری کم علمی اور گنوارپن کی دلیل بن سکتا ہے۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ زندہ تعلق میرا کتابوں سے نہیں مخلوقات سے رہا ہے۔‘‘ (انجنہاری کی گھریا)
انتظار حسین کے مذکورہ افسانہ کے بعض حصوں پر Story Narrataloty کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور احمد ہمیش، اسد محمد خاں، خالد جاوید اور صدیق عالم وغیرہ کے بعض افسانے جزوی طور پر اس نوع کے بیانیہ خلق کرتے ہیں مگر کسی ایک مکمل افسانہ کے توسط سے Story Narratology کے جملہ امکانات کو بروئے کار لانے کی کوشش بہت کم کی گئی ہے۔ مقام مسرت ہے عہدِ حاضر کے ایک معروف افسانہ نگار احمد رشید نے اس سلسلے میں کامیاب پیش رفت اپنے افسانہ ’کہانی بن گئی‘ سے کی ہے۔ افسانہ کے عنوان سے لے کر کرداروں کے اعمال و افعال اور بیان کردہ تجربات اور وقوعات کے ان عوامل کو مرکز نگاہ بنایا گیا ہے، جس کے توسط سے بیانیہ کو تشکیل دینے کے عمل کی حرکیات پوری طرح روشن ہو گئی ہے۔ افسانہ کسی تصور- اپنی تخلیقی بافت کا حصہ صرف اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب داخلی ارتکاز کی وساطت سے Story line کو ثروت مند بنایا جائے اور قاری کی دلچسپی کا مسلسل التزام رکھا جائے۔
احمد رشید کے افسانوں کے دو مجموعے اہل نظر سے داد حاصل کر چکے ہیں اور ان کی تخلیقی ہنر مندی کے امتیازات کی نشان دہی اب بھی اردو تنقید کے ناخن پر تاہم قرض ہے۔ احمد رشید جدید افسانہ کی ایک امتیازی صفت یعنی استعاراتی اور تمثیلی طرز اظہار کے قتیل ہونے کے باوجود کثیر حسی بیانیہ کے امکانات کا تخلیقی سطح پر اثبات کرتے ہیں اور اپنے افسانوں میں کرداروں کے تفاعل اور راویوں کے نقطۂ نظر سے افسانوی متن کو ایک مرکزی آواز کے جبر سے آزاد کر کے افسانہ کی خفا Polyphony میں منقلب کر دیتے ہیں۔ افسانہ کی بافت سے متعلق تصورات کی مختلف جہتوں کو افسانہ کی ترسیل کا حوالہ بناتے ہیں۔ احمد رشید کے افسانہ ’کہانی بن گئی‘ کے عنوان سے ایک نوع کے تخلیقی اہتزاز اور سرخوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر معاملہ محض جذباتی تسکین کا نہیں ہے کہ بیان کردہ تجربہ کسی طرح سادہ نہیں ہے۔ افسانہ ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس کے ہم سِن مرد کی ملاقات، جو بادی النظر میں متوقع اور پلان نظر آتی ہے، کے محور پر گردش کرتا ہے اور مکالموں کی وساطت سے عمل کی صورت پیدا کی گئی ہے۔ فن کی تخلیق کو در اصل عمل اور رد عمل کو محیط ایک پُر پیچ تجربہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسانہ کے راوی کے نزدیک عمل اور رد عمل کی تقسیم مصنوعی اور معنویت سے عاری ہے۔
’’شاید آپ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کا کوئی بھی عمل اپنے آپ میں ردعمل ہوتا ہے، ’’جی ہاں رد عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے۔ عمل کی کھوج بین قانون داں، صحافت داں اور دیگر علوم کے ماہرین کرتے ہیں۔‘‘ (کہانی بن گئی)
منظر، پس منظر اور پیش منظر سے فن اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔ مگر راوی کے نزدیک یہ مقبول عام تصور جزوی حقیقت کا حامل ہے کہ فن اس سے ماورا ہے گو کہ:
’’منظر اور پس منظر کے درمیان فن ہے، پیش منظر ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پس منظر ہم محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں۔‘‘
ما بعد جدید عہد کا شناس نامہ بعض اعلانات ہیں، جس میں تاریخ کی موت، آئیڈیالوجی کی موت، اور مصنف کی موت شامل ہے۔ اسی طرح میڈیا کی خلق کردہ چکا چوند سے آباد تمام سوسائٹی Spectele Society میں اب حقیقت اور افسانہ کا فرق معدوم ہو گیا ہے اور ہر تخلیقی تحریر Panfictionality کی نئی صورت سامنے آتی ہے۔ کہانی خارج میں وقوع پذیر نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ اس آن واحد کا حصہ ہے جہاں کہانی اور واقعہ کی تفریق یکسر مٹ گئی ہے۔ کائنات جس کا ہر منظر انکشاف بھی ہے اور حجاب بھی، تخلیقی اظہار کے نئے امکانات وا کرتی ہے۔ زندگی کا ہر مظہر اور اس سے متعلق بیانیہ ایک نوع کی کہانی ہے، جس پر موت کے سائے لرزاں نہیں ہیں اور کہانی مرنے کا تصور ہی بے معنی ہے۔ افسانہ کا راوی کہانی کے مر جانے کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ایک خیال ہے کہ کہانی مر گئی ہے۔‘‘
’’جب تک کرۂ ارض پر ایک انسان بھی زندہ ہے کہانی مر نہیں سکتی۔ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہر زندگی کے اندر پوشیدہ کائنات کے رموز کا انکشاف اور اس کا بیان دیگر اس کے ایک لمحہ کا اظہار از خود کہانی ہوتا ہے نگاہ چاہیے کہانی تلاش کے لیے۔‘‘ (کہانی بن گئی)
احمد رشید کے نزدیک کلائمکس افسانہ کی لازمی صفت نہیں ہے کہ اس کے فقدان کے باوجود ایک افسانہ اچھا ہو سکتا ہے۔ کلائمکس سے عاری افسانہ مابعد جدید افسانہ کی ایک نمایاں صفت ہے۔ ایسے بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں جن میں ابتداء، وسط اور اختتام کے تصور کو (Subvert) کیا گیا ہے اور یہ افسانے وسط (Middle) میں سانس لیتے ہیں۔ افسانہ میں افسانہ کے فن پر گفتگو اسے افسانہ نہیں بناتی اس کے لیے قاری کی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے Story line ضروری ہے۔ احمد رشید کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس افسانہ میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور مرد کی باہمی ملاقات سے قبل جو (Build Up) کیا ہے وہ بہت readable ہے۔ عورت اولاً اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرتی ہے پھر ٹرین کے ڈبے میں مسافروں کی آپسی چپقلش اور پھر منزل مقصود تک پہنچنے سے قبل مختلف لوگوں سے اس کے مکالمے میں یہ پورا بیانیہ بہت Engaging ہے۔ احمد رشید کا یہ افسانہ ہمیش کے مشہور افسانے ’کہانی مجھے لکھتی ہے‘ کے تئیں ایک تخلیقی رد عمل کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
کائنات کے مختلف مظاہر علی الخصوص ادب کا تانیثی نقطۂ نظر سے مطالعہ اور محاکمہ ہمارے زمانے کا حاوی ڈسکورس Dominant Discourse ہے اور فن کی دنیا میں عورت کو ’بلبل گرفتار‘ کے طور پر پیش کرنے کا چلن عام ہے اردو میں تو صورت اور بھی خراب ہے۔ اردو میں عورت کی لاچاری اور بے بسی کو جذباتی رقت انگیزی کے ساتھ پیش کرنے کو تانیثی بیانیہ Feminist Narrative سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر افسانوں میں ایک ایسی عورت سامنے آتی ہے جو مرد اساس معاشرہ میں انفرادی تشخص سے یکسر عاری اور ہر قسم کے ظلم اور استحصال کا ہدف ہے۔ اس کا وجود محکومی کی بدترین مثال ہے وہ ہر جگہ زنجیروں میں قید بے دست و پا ہے۔ مذہبی اور معاشرتی پابندیاں اس کے وجود کا ناگزیر حصہ ہیں۔ عورت محض ممتا اور امور خاندانی میں مہارت رکھنے والی نہیں بلکہ وہ اپنی کائنات کی Arbiterبھی ہے وہ ایک ایسا وجود ہے جو لازماً مدد پر منحصر نہیں ہے۔ جوزف بون اور مائیکل کنڈن نے اپنی مرتبہ کتاب Emerging: The Question of Feminist Criticism میں لکھا ہے کہ اکثر مرد تخلیق کار عورت کے تخیلی وجود کو مرکز نگاہ بناتے ہیں۔ احمد رشید کے افسانوں میں ہمارے زمانہ کے حاوی ڈسکورس تانیثیت سے بھی تخلیقی سطح پر خیال انگیز مکالمہ قائم کیا گیا ہے۔ احمد رشید نے اردو کے عام افسانہ نگاروں بشمول خواتین فن کاروں کی طرح عورت کی زبوں حالی اور بے بسی کے جذباتی بیان کو اپنا بنیادی سروکار نہیں بنایا بلکہ انھوں نے اپنے متعدد افسانوں مثلاً ’’بجوٹ‘‘، ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’کہانی بن گئی‘‘ اور ’’کھوکھلی کگر‘‘ میں عورت کی اسٹرویو ٹائپ امیج کو شکست کر کے عورت کا ایک متبادل امیج بھی پیش کیا جس سے عورت کے Empowerment کی نئی صورت سامنے آتی ہے۔ ان کے متذکرہ افسانوں میں عورت کے صنفی تشخص سے قطع نظر تخلیق، علم، طاقت اور اسناد سازی (Canon Formation) میں عورت کی سرگرم شرکت کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے اور تانیثی تجربے کی (Interiority) کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ فن کی تخلیق پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور اس عمل میں عورت اور مرد دونوں کو مساوی مرتبہ حاصل ہے، کہانی بن گئی‘ کا راوی تخلیق پر مردوں کی خود ساختہ اجارہ داری کے طلسم کو شکست کر دیتا ہے اور برملا کہتا ہے:
’’انسان کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا بیان فن کی معراج ہے۔ میں نے کہا ’’زندگی کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا اظہار عورت ہی کر سکتی ہے ورنہ زندگی کی پستی اور ادنیٰ کیفیتیں فن کا موضوع بنانے کے لیے میرے جیسا فنکار چاہیے۔ لیکن میں مسٹر روی کمار کی بلندی کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات پورے دعویٰ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ… فنکار کوئی عورت ہو سکتی ہے۔‘‘ (کہانی بن گئی)
اسی طرح احمد رشید کا افسانہ ’بجوٹ‘ بانجھ عورت کے وجودی سروکاروں، احساس محرومی اور عدم احساس تحفظ کے حسیاتی تناظر کو واضح کرتا ہے گو کہ انجام متوقع اور کسی نادیدہ منطقہ سے واقف کرانے سے عبارت نہیں نظر آتا ہے۔ انسان کو اکثر اس کے نا کردہ گناہوں کی سزا ملتی ہے اور اگر یہ معاملہ عورت کا ہے، تو صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ تولید کا عمل دو نفوس پر مشتمل ہے تاہم محرومی یا ناکامی کے لیے ایک ہی فرد یعنی عورت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ افسانہ کی مرکزی کردار کی خود کلامی ملاحظہ کریں:
’’بیٹھی تنہا رہ گئی۔ دھوپ چند لمحے پہلے رحمت تھی، سورج سمیت بدن میں داخل ہوئی اور سخت سردی میں دل و دماغ کو نار کی مانند جلانے لگی۔ سوچنے لگی بجوٹ ہونے میں میرا کیا قصور؟ دن رات جلنے کے لیے بجوٹ ہونا از خود نار جہنم ہے۔ زندہ رہنا بھی ہے اور جلنا بھی ہے …… کیا میں اپنی مرضی سے بجوٹ ہوں میرا بس چلے تو صبح لڑکا شام لڑکی پیدا کروں۔‘‘ (بجوٹ)
احمد رشید نے عورت کو Empower کرنے کی مجوزہ حکمت عملی یعنی اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر بھی سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ افسانہ ’فیصلے کے بعد‘ کی ہیروئن شق کا مکالمہ دیکھئے:
’’کیا عورت کی ہر بات مان لینا اس کی حفاظت کرنا ہے؟‘‘
اسی طرح ہیرو آفتاب بھی عورت کی آزادی کے تصور کو Subvert کرتا ہے:
’’تم تو آزاد ہو، آزادی کے لیے لڑتی پھرتی ہو، پھر کمی کس بات کی ہے۔ آفتاب نے خاموشی کا یہ سلسلہ توڑا۔
حیرت کی بات ہے کہ حقوق نسواں کی Activist اس کی تائید کرتی ہے
’’اور میں ٹوٹ گئی ہوں … قید ہو گئی ہوں آزادی کی جد و جہد میں‘‘
اس طرح احمد رشید کے افسانے اردو میں تانیثی ڈسکورس کو یک رخا اور سطحی بنانے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں اور ایک خیال انگیز اور Informed بحث قائم کرتے ہیں۔ ان کے افسانے موضوع کی پیش کش اور طرز اظہار کی سطح پر بھی معاصر اردو افسانہ سے ایک خوشگوار نقطہ انحراف کی خبر دیتے ہیں۔ معاصر معاشرہ سے بے اطمینانی اور اقدار کے زوال کا نوحہ عام بات ہے۔ تاہم تخلیقی فنکار انتہائی حوصلہ شکن حالات میں بھی انسانی برتاؤ کے کسی مثبت پہلو کو خاطر نشاں کرتا ہے۔ احمد رشید کے بیشتر افسانے اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہیں۔ مثال دیکھئے:
’’زمانہ کتنا ہی برا ہو لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے آج بھی مرد جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
(کہانی بن گئی)
اسی طرح احمد رشید نے غیر متوقع رد عمل کے نقوش بھی بڑی ہنر مندی کے ساتھ ابھارے ہیں۔ محبت کرنے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کی بات عام طور پر کرتے ہیں اور عاشق محبوبہ کے لیے آسمان سے تارے توڑ لانے کا وعدہ کرتا ہے۔ احمد رشید نے عشق کے ایک مکالمہ کی توسط سے نا ممکن کر دکھانے کی ایک نئی جہت آشکارا کی ہے۔ انسان فرشتہ بننے کی تو آرزو کرتا ہے، شیطان کی نہیں:
’’نہیں نہیں میں سچ کہتا ہوں، مردو زن سب ہی تمہاری خوب صورتی پر فدا ہیں۔‘‘
تو پھر یہ دل کس کو دوں (تھوڑے وقفہ کے بعد) مجبوری یہ ہے کہ ایک انار سو بیمار، وہ بڑی بے شرمی سے ہنسی۔
’’میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ خوشامدانہ لب و لہجہ
’’خیال صرف اس لیے کہ تم میرے اوپر فدا ہو، یہ فدائیت تو دوسروں میں بھی موجود ہے‘‘ اس نے طنز کیا:
’’میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ حکم کرو تو انسان سے شیطان بن سکتا ہوں۔‘‘
شیطان شر مجسم ہونے کے باوجود غیر متزلزل وفا داری کا مظہر بھی ہے کہ اس نے خالق مطلق کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکم خداوندی کے انکار کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوا مگر اس نے اپنی وفا کو قربان نہیں کیا۔ افسانہ نگار نے اس فراموش شدہ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ شیطان کے اس پہلو سے واقفیت عام نہیں ہے۔
احمد رشید کی لفظیات اور اسلوب بیان بھی بہت مختلف ہے۔ کبھی کبھی وہ عام فہم الفاظ کے بجائے عربی کے نامانوس الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اور کبھی عربی، فارسی کے الفاظ کے ساتھ ہندی تراکیب بھی استعمال کرتے ہیں۔
’’سڑک کے دونوں جوانب شٹر لگی دکانیں خاموش ہیں۔‘‘ (کھوکھلی گگر)
’’سبک خرام ہوا کی چلت پھرت سے گلابی سردی کا احساس ہو رہا تھا۔‘‘ (فیصلے کے بعد)
’بدعت‘ ایک مذہبی اصطلاح ہے جس کا مفہوم دین میں کسی نئی بات کو شامل کرنا ہے۔ بانجھ ہونا (بجوٹ) کوئی شعوری عمل نہیں ہے مگر افسانہ نگار کے نزدیک بجوٹ ہونا بھی ایک شعوری عمل ہے۔
’’میں نے کب کہا کہ تم بجوٹ ہو، لیکن عورت بھی نہیں‘‘ فیصلہ کن لب و لہجہ
’’یہ سوچ سراسر بدعت ہے۔‘‘
’’حقیقت ہے (وقفہ) بجوٹ ہونا بدعت ہے۔‘‘
احمد رشید کے افسانے ہمارے عہد کا ایک ایسا حسیاتی رویا خلق کرتے ہیں، جس کی اساسِ کائنات انسانی کے تضادات پر قائم ہے اور نا سپاسی ہو گی اگر ان کی تخلیقی ہنر مندی کا اعتراف نہ کیا جائے۔
٭٭٭