غزل
شمبھو ناتھ تواری
نہیں کچھ بھی بتانا چاہتا ہے
وہ آخر کیا چھپانا چاہتا ہے
رلایا ہے زمانے بھر کو اس نے
مگر خود مسکرانا چاہتا ہے
لگا کر آگ گلشن میں بھلا وہ
مکمل آشیانہ چاہتا ہے
بہا کر بےگناہوں کا لہو وہ
مسیحا کہلوانا چاہتا ہے
ذرا سی بات ہے بس روشنی کی
وہ اپنا گھر جلانا چاہتا ہے
بس اک قطرہ ہتھیلی پر سجا کر
وہ اک ساگر بنانا چاہتا ہے
زباں سے کچھ نہ بولوں ظلم سہہ کر
یہ کیا مجھ سے زمانہ چاہتا ہے
پرندے میں ابھی بھی حوصلہ ہے
فلک کے پار جانا چاہتا ہے
سبھی کی خامشی یہ کہہ رہی ہے
زباں تک کچھ تو آنا چاہتا ہے
٭٭٭