غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

کیچ چھٹتے نہیں یہ چھوڑ دیے جاتے ہیں

کھیل کے رُخ کو نئے موڑ دیے جاتے ہیں

 

ہار نا جیتنا پہلے ہی سے طے ہوتا ہے

جتنے قانون ہیں، سب توڑ دیے جاتے ہیں

 

تیسری آنکھ بھی سچ بول نہیں سکتی ہے

لینس ایسے بھی کبھی جوڑ دیے جاتے ہیں

 

کھیلنے والے بھی پابند ہیں آقاؤں کے

چاہنے والوں کے دل توڑ دیے جاتے ہیں

 

خیرؔ اطراف ہی سچ بولنے والے نہ رہیں

جتنے آئینے ہیں سب پھوڑ دیے جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

وہ جب سے دوست میرا ہو گیا ہے

مرا دشمن زمانہ ہو گیا ہے

 

بظاہر استفادہ ہو گیا ہے

حقیقت میں تو سرقہ ہو گیا ہے

 

کہاں پھرتے ہو خالی ہاتھ خالی

یہاں بھگوان پیسہ ہو گیا ہے

 

چلا ہے ڈھائی گھر جیسے ہی گھوڑا

سوار اُس پر پیادہ ہو گیا ہے

 

ہماری آنکھ کیا جھپکی تھی کچھ پل

اِسی عرصے میں کیا کیا ہو گیا ہے

 

چلا ہے جیسے بُل ڈوزر دلوں پر

غریبوں کا صفایا ہو گیا ہے

 

سنا ہے کارنامہ ہے کسی کا

مگر شہرہ کسی کا ہو گیا ہے

 

ترے آتے ہی مطلع ہو گیا تھا

ترے جاتے ہی مقطع ہو گیا ہے

 

پرایا کیا بنے گا خیرؔ اپنا

جو اپنا تھا پرایا ہو گیا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے