کبھی ہوا کبھی بجلی کے ہم رکاب ہوا
پھر اس کے بعد میں جینے میں کامیاب ہوا
نظر نواز نظارے تھے میرے چاروں طرف
کھلی جو آنکھ تو برہم وہ سارا خواب ہوا
کبھی جو باعث راحت تھا اہل دل کے لئے
یہ کیا ہوا کہ وہ منظر بھی اب عذاب ہوا
وہ العطش کی صدائیں وہ کرب تشنہ لبی
فرات جس کے تصور سے آب آب ہوا
ہماری چیخ فضاؤں میں کھو گئی یعنی
کھلا دریچہ کوئی وا نہ کوئی باب ہوا
ہمارے قتل کی سازش میں تھا شریک تو کیا
خطا معاف کرم اس کا بے حساب ہوا
انا پسند طبیعت کی سرفرازی دیکھ
کہ نازؔ خاک میں مل کر بھی آفتاب ہوا
٭٭٭
برف کے پھول کھلے دھوپ کے دانے نکلے
اب کے موسم میں سبھی خواب سہانے نکلے
پھر مری یاد تجھے چین نہ لینے دے گی
پھر تری بزم میں میرے ہی فسانے نکلے
دو قدم بڑھتے ہی خود اپنا پتا کھو بیٹھے
جب بھی ہم تجھ کو تری یاد دلانے نکلے
ان کو ہر موڑ پہ خوشیوں کے دفینے ہی ملے
میرے حصے میں فقط غم کے خزانے نکلے
میرا جلتا ہوا گھر دیکھ کے ہمسائے مرے
گھر سے نکلے تو مگر اشک بہانے نکلے
زندگی تو نے ہمیں اور بھی مقروض کیا
جب بھی ہم لوگ ترا قرض چکانے نکلے
٭٭٭