غزلیں ۔۔۔ مقصود وفاؔ

زندگی تھی ہی نہیں، زخم کسی یاد کے تھے

ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے

 

ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی

جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے

 

اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں

ہم وہی لوگ ہیں جو قریۂ آباد کے تھے

 

آخرِ کار کسی بات پہ دل ٹوٹ گیا

ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے

 

جب بھی ناکام ہوا میں تو مرے کام آئے

وہ زمانے جو کسی عرصۂ برباد کے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

سمجھ میں آتی ہے لیکن تمام آتی نہیں

یہ آگہی بھی کسی وقت کام آتی نہیں

 

پتا کرو کہ یہ رخنہ کہاں ہے گردش میں

گزر رہے ہیں شب و روز، شام آتی نہیں

 

سخن بغیر، میرے سامنے دریچے سے

ہوا تو آتی ہے، محوِ کلام آتی نہیں

 

میں لے رہا تھا محبت سے کام اور مجھ کو

خبر ملی کہ محبت تو کام آتی نہیں

 

ہمارے جسم ہواؤں میں اُڑ رہے ہیں وفا

ہماری راہ میں جائے قیام آتی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب زمینوں کی خاک چھان آیا

پھر مری رہ میں آسمان آیا

 

خواب آیا کسی بیاباں کا

اور بیاباں میں اِک مکان آیا

 

درد سینے میں دفن کر تو دیا

روح پر زخم کا نشان آیا

 

اُڑ چکے تھے یقین کے پُرزے

میرے دل میں کوئی گمان آیا

 

جب سمندر نگل گیا میرے لوگ

کشتیاں آئیں، بادبان آیا

 

آسمانوں پہ پاؤں رکھتا ہوا

کن ستاروں سے خاکدان آیا!

 

کھڑکیاں کھولتے ہوئے مجھ کو

اِک فصیلِ نظر کا دھیان آیا

٭٭30

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے