اب چھوڑ کے تنہا مجھے بیٹھا ہے کہیں، وہ
لیکن یہ مرا وہم ہے رہتا ہے یہیں وہ
پوچھا جو گیا مجھ سے کہ کیا چاہیے تم کو
میں نے یہ کہا، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، وہ!
ہر حال میں رہتا ہے ہمیں یاد وہ پیارا
ایسا تو نہیں بس ہی گیا ہم میں کہیں وہ
پرسش نہ کرے حال کی بیمار کے اپنے
ہاں، دوست کہیں کچھ بھی پہ ایسا تو نہیں وہ
ہے صبر یہ کس میں کہ رہے حشر کو تکتا
اپنی تو دعا یہ ہے کہ مل جائے یہیں وہ
تا عشق میں پھرتا رہے مارا یہاں کوئی
اس بات کی خاطر تو نہیں چھپتا کہیں وہ
اب مجھ میں عظیم اور نہ کچھ رہنے دیا جائے
ہاں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، وہ!
٭٭٭
کون کس حال میں پھرتا ہے وہ سب جانتا ہے
آدمی اپنی ہی نیت کو بھی کب جانتا ہے
میں تو پہچان سکا ہوں نہ ابھی تک خود کو
کس لیے پھرتا ہوں آوارہ یہ رب جانتا ہے
جانتا ہے کہ کہاں ہے مری منزل بے شک
وہ جو پتھر کے چٹخنے کا سبب جانتا ہے
بولتا رہتا ہے رب جانے نہ کیا کیا آخر
ایک انجان جو بس بات کا ڈھب جانتا ہے
ہے اسی علم کی بخشش کہ مجھے علم ہوا
کوئی کچھ جانتا پہلے تھا نہ اب جانتا ہے
بیٹھا رہتا ہے خموش ایک ہی کونے میں کہیں
وہ جو کچھ جاننے والا تھا کہ جب جانتا ہے
جب کہ رہتا نہیں کچھ پاس گنوانے کو عظیم
آدمی اپنی تباہی کو بھی تب جانتا ہے
٭٭٭