غزلیں ۔۔۔ عرفان ستار

ہاتھوں میں سپر ہے، نہ ہی شمشیر بکف ہوں

اے شخص، میں تیرے لیے آسان ہدف ہوں

 

لہجے میں ہے میرے مری سچائی کی تلخی

کیسے تجھے سمجھاؤں کہ میں تیری طرف ہوں

 

کٹتے گئے، چھٹتے گئے، بکتے گئے سب لوگ

اب اہلِ جنوں کے لیے میں آخری صف ہوں

 

اے اہلِ جہاں تم کو ندا ہے کہ کرو قدر

میری کہ میں منجملۂ اصحابِ شرف ہوں

 

غواص کہاں وہ جو مجھے کھوج نکالے

میں بحرِ خرافات میں پوشیدہ صدف ہوں

 

آہنگ کے رسیا ہو تو جی مجھ سے لگے گا

تم شعر کے پارکھ ہو تو سامانِ شغف ہوں

 

اک دور تھا جس میں جو میں ہوتا تو گہر تھا

جس دور میں ہوں اس میں تو برباد و تلف ہوں

 

دنیا کے بدلتے ہوئے اطوار نہ سیکھے

میں آج بھی پابندِ روایاتِ سلف ہوں

 

عرفان مرا ذکر کہیں اور تو کیا ہو

میں وہ ہوں جو خود اپنی کہانی سے حذف ہوں

٭٭٭

 

 

 

یہی تنہائی کر سکتی ہے غم خواری ہماری

جو یوں چپ چاپ سہہ لیتی ہے بےزاری ہماری

 

تمہارے فیصلے، فتوے یہاں لاگو نہیں ہیں

جنوں کی سلطنت میں ہے عمل داری ہماری

 

ہماری کامیابی ہی ہمارا مسئلہ ہے

سمجھ میں کس کی آئے گی یہ دشواری ہماری

 

یہ کیسے دورِ بد ذوقی میں ہم نغمہ سرا ہیں

کوئی کرتا نہیں ہے ناز برداری ہماری

 

ابد تک سوئیں گے اس کو سزا دینے کی خاطر

تمہارے خواب کی دشمن ہے بیداری ہماری

 

طبیبانِ کرام آئے ہیں تو دیں گے دوا بھی

سمجھ میں جوں ہی آ جائے گی بیماری ہماری

 

کسی محفل میں ہم کو غم زدہ دیکھا ہے تم نے؟

تمہیں حیراں تو کرتی ہوگی عیاری ہماری

 

ذرا سی گفتگو میں لوگ کھل جاتے ہیں ہم پر

کسی کا بھی نہ چھوڑے گی سمجھ داری ہماری

 

کسی کا قرض ہم پر ہو تو جلدی سے بتا دے

مکمل ہو چکی ہے ورنہ تیاری ہماری

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے