اندر اندر سے یہی ایک خلش کھائے مجھے
ایک دن وہ کہیں دشمن نہ سمجھ جائے مجھے
صاف پانی بھی نہیں مفت میں ملتا اب تو
کیسے ممکن ہے کہ تو مفت میں مل جائے مجھے
یاد آؤں میں کسی روز اسے شدّت سے
اور پھر نرم سی پلکوں سے وہ برسائے مجھے
جب میں جاگوں تو یہ مردے مجھے مردہ کر دیں
جب میں سو جاؤں تو پھر خواب ترا آئے مجھے
کوئی تو ساز بجے، کوئی تو پنچھی بولے
تو نہیں ہے تو کوئی اور ہی بہلائے مجھے
وقت کی مار سے مَیں ہوش نہ کھونے پاؤں
اس سے کہہ دو کہ وہ کچھ اتنا تو یاد آئے مجھے
٭٭٭
میرے دامن میں اداسی بھر گئی
زیست کی اک اور ساعت مر گئی
جانے کیا غم تھا بِچاری رات کو
آنسوؤں سے باغ گیلا کر گئی
جس گلی کے اک طرف تھا دشتِ یاس
دوسری جانب وہ میرے گھر گئی
باغ کے اشجار بھی کمزور تھے
پر تباہی آندھیوں کے سر گئی
لَوٹ کر یادوں کا موسم آ گیا
دل کی کیاری حسرتوں سے بھر گئی
آئنے سے دیکھ کر مجھ کو عبید
میری ہی تصویر مجھ سے ڈر گئی
٭٭٭