غزلیں ۔۔۔ طارق بٹ

دزدیدہ سی، ایک نظر سے، کیا کیا خواب سجایا ہم نے

ریزہ ریزہ سے منظر کو، دیکھ، کیا سرمایہ ہم نے

 

دل آنکھیں، شاداب کرے ہے، کیا ہی غضب ترے حسن کی رونق

دیکھ اِدھر، تجھ سبز نمو سے، کیا کیا باغ لگایا ہم نے

 

روپ نگر کے رہنے والو، تم نے کب دیکھا یہ رستہ

تھک تھک ہارے کہنے والے، قول یہی دوہرایا ہم نے

 

شعلہ صفت تھا عشق ہمیشہ، کیا اس میں انگار ہوا دل !

ہے یہ دعویٰ خوب کسی کا ’’آگ میں پھول کھلایا ہم نے‘‘

 

خود جو الجھے ہیں اب واعظ، آتے جاتے سب سے پوچھیں

کارِ عجب نہیں، دل کا آنا، ایسا کیا فرمایا ہم نے؟

 

اپنے چہرے کو پہچانو، دہر کے آئینہ خانے میں

پیٹھ پہ اس نے وار کیا ہے، جس کو دوست بتایا ہم نے

 

مدِّ مقابل دیکھ کے اپنا، وار کیا جاتا ہے صاحب

کیچڑ تھا، پتھر کیا پھینکا، دامن داغ کمایا ہم نے

٭٭٭

 

 

 

 

گم صُم سے اظہار میں اپنے آپ سنائی دیتی ہے

کان دھرو تو خاموشی کی چاپ سنائی دیتی ہے

 

سینے میں اک ہول سا اٹھتا ہے، جو کچھ احوال سنو

ڈوبے ڈوبے دل کی بھی کچھ تھاپ سنائی دیتی ہے

 

یارو، مت آوازہ کرو، دل زاروں، عشق کے ماروں پر

جان لو اتنا، جس تن ہو یہ چھاپ، سنائی دیتی ہے

 

بھولنے والی بات نہیں ہے، پہلے عشق کی پہلی تان

خون کی گردش، یہ سرگم، چپ چاپ سنائی دیتی ہے

 

جی کو کڑا کرتے ہیں اکثر، ذکر نہیں کرتے، لیکن

دل پر جب جب پڑتی ہے یہ تھاپ سنائی دیتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے