غزلیں ۔۔۔ صابرہ امین

یہ نینا جب سے ساگر ہو گئے ہیں

تو سارے گھاؤ بہتر ہو گئے ہیں

 

بنا ڈالا ہے اپنے دل کو پتھر

ہم اب اس کے برابر ہو گئے ہیں

 

تمہارے لفظ تو شیریں بہت تھے

مگر کیوں دل میں خنجر ہو گئے ہیں

 

غمِ دوراں، تمہاری یاد، آہیں

ہمیں کیا کیا میسر ہو گئے ہیں

 

نہیں امید کی کوئی کرن بھی

اندھیرے یوں مقدر ہو گئے ہیں

 

کیا بام و در نے سن لی اس کی آہٹ؟

یہ ویرانے معطر ہو گئے ہیں

 

ذرا نظریں اٹھا کر اس نے دیکھا

دل و جاں پھر نچھاور ہو گئے ہیں

 

نوازش دیکھ کر اس کی، ہمارے

عزائم بھی اجاگر ہو گئے ہیں

 

کہ جب سے دل ہوا ہے ان کا دریا

تبھی سے ہم سمندر ہو گئے ہیں

 

ہوئی ہے مہرباں اس کی نظر جب

تو ہم بھی ایک منظر ہو گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

تمہیں کیوں کھو دیا ہم نے یہ پچھتاوا نہیں جاتا

چلے آؤ کسی کو ہم سے اب چاہا نہیں جاتا

 

تھکاوٹ ان کو ہوتی ہے جنہیں دامن چھڑانا ہو

محبت کے سفر میں راستہ دیکھا نہیں جاتا

 

یونہی دن رات رہتے ہیں مگن ہم اس کی یادوں میں

مگر بس حال اپنے دل کا بتلایا نہیں جاتا

 

تمھاری بےرخی نے ہم کو کتنا توڑ ڈالا ہے

محبت کا فسانہ ہم سے اب لکھا نہیں جاتا

 

تمھارا عشق لے آیا ہے ہم کو بند گلیوں میں

تمہارے بام و در تک اب کوئی رستہ نہیں جاتا

 

نجانے آئے گی کب وہ گھڑی، وہ مان جائے گا

کوئی اس کو بتاؤ اس طرح روٹھا نہیں جاتا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے