عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی
انسیت جب بڑھی ہے تھوڑی سی
اب تسلی ہوئی ہے تھوڑی سی
بات آگے چلی ہے تھوڑی سی
پھر تری یاد کے دریچے سے
زندگی دیکھ لی ہے تھوڑی سی
ان سے کچھ عشق وِشق تھوڑا ہے
یونہی دیوانگی ہے تھوڑی سی
چار پل ان کے ساتھ جینے کو
زندگی مانگ لی ہے تھوڑی سی
شہر تاریک ہے بہت یہ شکیل
روشنی بانٹنی ہے تھوڑی سی
٭٭٭
میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں
کسی کا آزار بن گیا ہوں کسی کے زخموں کو سی رہا ہوں
کسی کی فرقت کو سہہ رہا ہوں تو جھیلتا ہوں کوئی رفاقت
مرے مقدر میں جو لکھے ہیں وہ زہر سارے میں پی رہا ہوں
وہ مجھ سے مانوس ہو رہے ہیں کہ ظاہری سی ہے مسکراہٹ
میں زندگی بھر اسی تشکک، اسی تذبذب میں ہی رہا ہوں
ہے دوغلی سی مری کہانی، وثوق سے کچھ نہیں ہے ثابت
اگرچہ ہوں معتبر جنوں میں ، مگر میں با ہوش بھی رہا ہوں
شکیل ہے بے کلی سی دل میں مگر سکوں بھی ہے ایک گونہ
کہ یاد اس کی ہے دل میں اب بھی ، میں ساتھ جس کے کبھی رہا ہوں
٭٭