قَلب وحشت سے بھر گیا شاید
خواب آنکھوں میں مر گیا شاید
تیری نظروں سے کیا اُترنا تھا
سب کے دل سے اُتر گیا شاید
رہگزر میں بڑی خَموشی ہے
راہ رُو اپنے گھر گیا شاید
آئینے نے نظر جھُکالی ہے
میری حالت سے ڈر گیا شاید
ایک الزامِ زیست تھا وہ بھی
مرنے والوں کے سر گیا شاید
جانے والے بھلا ہو تیرا، تُو
مُجھ پہ احسان کر گیا شاید
شہرِ یاراں سے شمؔس نکلا تھا
دُشمنوں کے نگر گیا شاید
٭٭٭
دل کے دشتِ نِہاں سے آتی ہے
یاد تیری کہاں سے آتی ہے
روح میں کیسے عشق پَلتا ہے
گل میں خوشبو کہاں سے آتی ہے
اُٹّھی صحرا سے تھی ندائے جنوں
اور اب گلستاں سے آتی ہے
کوئی دیکھے صبا کی سرشاری
جب تِرے آستاں سے آتی ہے
ہم اُنہی عالموں کے باسی ہیں
وحشت دل جہاں سے آتی ہے
تم بھلا رمز جان پاؤ گے
بے خودی لا مکاں سے آتی ہے
وجد کی ایک کیفیت سی شمؔس
مہرِ نا مہرباں سے آتی ہے
٭٭٭