غزلیں ۔۔۔ سلیمان خمار

پہاڑوں کی بلندی پر بیٹھا ہوں

زمیں والوں کو چھوٹا لگ رہا ہوں

 

ہر اک رستے پہ خود کو ڈھونڈھتا ہوں

میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں

 

بھرے شہروں میں دل ڈرنے لگا تھا

اب آ کر جنگلوں میں بس گیا ہوں

 

تو ہی مرکز ہے میری زندگی کا

ترے اطراف مثل دائرہ ہوں

 

اجالے جب سے کترانے لگے ہیں

سیہ راتوں کا ساتھی بن گیا ہوں

 

مراہم شکل کب کا مر چکا ہے

مجھے مت چھیڑئیے میں دوسرا ہوں

٭٭٭

 

 

دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے

سر چھپانے کے لئے گھر بھی مجھے چاہیے ہے

 

تھوڑی تدبیر کی سوغات ہے مطلوب مجھے

اور تھوڑا سا مقدّر بھی مجھے چاہیے ہے

 

تیرنے کے لئے دریا بھی ہے کافی، لیکن

شوق کہتا ہے سمندر بھی مجھے چاہیے ہے

 

صرف دیواروں سے ہوتی نہیں گھر کی تکمیل

چھت بھی درکار ہے اور در بھی مجھے چاہیے ہے

 

گاہے فٹ پاتھ بچھا کر بھی میں سو جاؤں گا

گاہے اک مخملیں بستر بھی مجھے چاہیے ہے

 

تیری معصوم ادائی بھی سر آنکھوں پہ مگر

تجھ میں اک شوخ ستمگر بھی مجھے چاہیے ہے

 

چاہیے ہے کبھی ریلا بھی مجھے سردی کا

اور کبھی دھوپ کا لشکر بھی مجھے چاہیے ہے

 

استعارے بھی ضروری ہیں سُخن میں، لیکن

شعر میں صنعتِ پیکر بھی مجھے چاہیے ہے

 

گفتگو کس سے کریں بونوں کی بستی میں خُمار

بات کرنی ہے تو ہمسر بھی مجھے چاہیے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں

گھور تنہائی کے جنگل کا میں حصہ ہو جاؤں

 

اک ترے دم سے ہی شاداب ہے یہ میرا وجود

تُو نظر پھیر لے مجھ سے تو میں صحرا ہو جاؤں

 

دل کی دیواروں پہ مرقوم رہے نام مرا

قبل اس کے کہ میں بھولا ہوا قصّہ ہو جاؤں

 

تُو اگر دل میں بسا لے تو بنوں میں شاعر

تُو جو ہونٹوں پہ سجا لے تو میں نغمہ ہو جاؤں

 

ایسا ہو جائے نہ سوجھے تجھے کچھ میرے سوا

ایسا ہو جائے کہ میں ہی تری دنیا ہو جاؤں

 

جانتا ہوں میں تری سرمئی آنکھوں کا طلسم

اک نظر مجھ پہ بھی، میں بھی ترے جیسا ہو جاؤں

 

میں ادھورا ہوں بہت تجھ سے بچھڑ کر اے دوست

تُو جو مل جائے دوبارہ تو میں سارا ہو جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

شناخت مٹ گئی چہرے پہ گرد اتنی تھی

ہماری زندگی صحرا نورد اتنی تھی

 

تمام عمر اسے سینچتے رہے لیکن

گلاب دے نہ سکی شاخ زرد اتنی تھی

 

گرے نہ اشک کبھی حادثوں کے دامن پر

ہماری آنکھ شناسائے درد اتنی تھی

 

تری پکار کا چہرہ دکھائی دے نہ سکا

مرے قریب صداؤں کی گرد اتنی تھی

 

تلاشِ زیست میں دل جیسی چیز چھوٹ گئی

حکایتِ دل و جاں فرد فرد اتنی تھی

 

جھلستی دھوپ کا اُس پر گماں گزرتا تھا

بچھی تھی راہ میں جو چھانو زرد اتنی تھی

 

پِگھل سکی نہ کبھی برف اکیلے پن کی خُمار

وہ شعلہ رو بھی طبعیت کی سرد اتنی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا

اب کہیں سے بھی اُجالا نہیں آنے والا

 

جبرئیل اب نہیں آئیں گے زمیں پر ہرگز

پھر سے آیات کا تحفہ نہیں آنے والا

 

ہو گئے دفن شب و روز پُرانے کب کے

لوٹ کر پھر وہ زمانہ نہیں آنے والا

 

پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں

دھوپ تو آئے گی سایہ نہیں آنے والا

 

یہ بھی سچ ہے کہ اجل بن کے کھڑے ہیں امراض

یہ بھی طے ہے کہ مسیحا نہیں آنے والا

 

ہم کو سہنا ہے اکیلے ہی ہر اک درد کا بوجھ

خیر خواہوں کا دلاسہ نہیں آنے والا

 

میرے افکار کے سوتے نہیں تھمنے والے

میری سوچوں پہ بُڑھاپا نہیں آنے والا

 

نئے لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بھی تو ہو

صرف الفاظ سے لہجہ نہیں آنے والا

 

جھوٹ بے پاؤں بھی دوڑے گا بہت تیز خُمار

لب پہ سچّائی کا چرچا نہیں آنے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مدّت ہوئی راحت بھرا منظر نہیں اُترا

ساون کا مہینہ مری چھت پر نہیں اُترا

 

روشن رہا اک شخص کی یادوں سے ہمیشہ

گرداب میں ظلمت کے مرا گھر نہیں اُترا

 

جس آنکھ نے دیکھا تمہیں دیتی ہے گواہی

تم جیسا زمین پر کوئی پیکر نہیں اُترا

 

سچّائی مرے ہونٹوں سے اتری نہیں ہرگز

جب تک مرے کاندھوں سے مرا سر نہیں اُترا

 

قدرت کی عبارات کو پڑھتے رہے برسوں

مفہوم مگر ذہن کے اندر نہیں اُترا

 

نشّہ ہی کچھ ایسا تھا فتوحات کا اُس پر

جذبات کے توسن سے سکندر نہیں اُترا

 

ساحل پہ جو اترا تھا سفینوں کو جلا کر

صدیوں سے پھر ایسا کوئی لشکر نہیں اُترا

 

اترا نہیں نفرت کے سمندر میں کبھی میں

مجھ میں کبھی نفرت کا سمندر نہیں اُترا

 

کوشش تو بہت کی تھی خُمار ہم نے بھی لیکن

شیشے میں وہ اک شوخ ستمگر نہیں اترا

٭٭٭

 

 

 

 

پھول کی رُت نہ بہاروں کا گزر میرے بعد

تھم کے رہ جائے گا موسم کا سفر میرے بعد

 

جس طرف دیکھیے پت جھڑ کے نظارے ہوں گے

تکتے رہ جائیں گے سایوں کو شجر میرے بعد

 

کلیاں کھِلنے کی ادائیں بھی بِسر جائیں گی

بھول جائیں گے مہکنا گُلِ تر میرے بعد

 

دل کے کہساروں پہ لگ جائیں گے شب کے ڈیرے

وادیِ جاں میں نہ اُترے گی سحر میرے بعد

 

ابر سے قطرۂ نیساں بھی نہیں ٹپکے گا

سیپیاں بھی نہ بنائیں گی گُہر میرے بعد

 

کیوں نہیں آیا وہ اک شاعرِ آوارہ مزاج

تجھ سے پوچھے گی ترے گھر کی ڈگر میرے بعد

 

اے محبت ترا ہر ناز اُٹھا یا میں نے

کون اُٹھائے گا ترے ناز مگر میرے بعد

 

فن لِپٹ کر مری چوکھٹ سے بہت روئے گا

آنکھیں غزلوں کی بھی ہو جائیں گی تر میرے بعد

 

میرے دیوان کو سینے سے لگا رکھیں گے

اہلِ فن، اہلِ زباں، اہلِ ہُنر میرے بعد

 

تبصرے کرتے رہیں گے مرے لہجے پہ خُمار

محفلِ شعر میں اربابِ نظر میرے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

شاعری مظہرِ احوالِ دروں ہے، یوں ہے

ایک اک شعر بتا دیتا ہے یوں ہے، یوں ہے

 

اک تری یاد ہی دیتی ہے مرے دل کو قرار

اک ترا نام ہی اب وجۂ سکوں ہے، یوں ہے

 

خشک صحرا بھی نظر آتا ہے گلزارِ اِرم

ہمرہی کا یہ تری سارا فسوں ہے، یوں ہے

 

عشق ہر اک سے غلامی کی ادا مانگتا ہے

اُس کے دربار میں جو سر ہے نگوں ہے، یوں ہے

 

خاک چھانیں گے چلو ہم بھی بیابانوں کی

جب یہی شیوۂ اربابِ جنوں ہے، یوں ہے

 

تجھ کو چاہا ہی نہیں تیری پرستش کی ہے

پھر بھی ہونٹوں پہ ترے ہاں ہے نہ ہوں ہے، یوں ہے

 

حالِ دل سن کے مرا چُپ نہ رہو کچھ تو کہو

خامشی نعمتِ گویائی کا خوں ہے، یوں ہے

 

جب بھی محفل میں غزل اپنی سناتا ہے خُمار

تبصرے ہوتے ہیں ہر شعر پہ یوں ہے، یوں ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے