غزلیں ۔۔۔ خلیل مامون

بلا رہا ہے مجھے آسماں تمہاری طرف

جلا کے نکلا ہوں سب آشیاں تمہاری طرف

 

میں جانتا ہوں کہ سارے جہاں ہیں ختم یہاں

مجھے ملے گا نہ کوئی جہاں تمہاری طرف

 

خموشیوں کا بس اک سلسلہ ہے دور تلک

نہ کوئی لفظ نہ کوئی زباں تمہاری طرف

 

ہر ایک جیتا ہے وسعت میں کائناتوں کے

کوئی بناتا نہیں ہے مکاں تمہاری طرف

 

مرے ہوؤں کو کوئی مارے کس طرح آخر

نہ کوئی تیر نہ کوئی سناں تمہاری طرف

 

نہ کوئی دریا نہ پربت نہ آشیاں نہ شجر

زمیں ہے کوئی نہ ہی آسماں تمہاری طرف

 

ظہور عشق کی دنیا کو چھوڑ آیا ہوں

میں خود کو کرتا ہوں سب سے نہاں تمہاری طرف

 

میں منزلوں سے بہت دور آ گیا مامونؔ

سفر نے کھو دیے سارے نشاں تمہاری طرف

٭٭٭

 

 

 

 

اس شہر سنگ سخت سے گھبرا گیا ہوں میں

جنگل کی خوشبوؤں کی طرف جا رہا ہوں میں

 

منظر کو دیکھ دیکھ کے آنکھیں چلی گئیں

ہاتھوں سے آج اپنا بدن ڈھونڈھتا ہوں میں

 

چلا رہا ہے کوئی میرے لمس کے لیے

اندھیاری وادیوں سے نکل بھاگتا ہوں میں

 

قاتل کے ہاتھ میں کوئی تلوار ہے نہ تیغ

وہ مسکرا رہا ہے مرا جا رہا ہوں میں

 

مجھ کو وہ میرے دل کے عوض دے سکیں گے کیا

مامونؔ دنیا والوں سے کیا مانگتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نیند چبھنے لگی ہے آنکھوں میں

کب تلک جاگنا ہے راتوں میں

 

تم اگر یوں ہی بات کرتے رہے

بیت جائے گا وقت باتوں میں

 

انگلیاں ہو گئیں فگار اپنی

چھپ گیا ہے گلاب کانٹوں میں

 

شاید اپنا پتہ بھی مل جائے

جھانکتا ہوں تری نگاہوں میں

 

سب ہے تیرے سوال میں پنہاں

کچھ نہیں ہے مرے جوابوں میں

 

جو نہیں مل سکا حقیقت میں

ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں خوابوں میں

 

فیصلہ تو تمہیں کو کرنا ہے

دیکھتے کیا ہو تم گواہوں میں

 

مصلحت کوش ہو گیا مامونؔ

گھر کے تنقید کرنے والوں میں

٭٭٭30

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے