غزلیں ۔۔۔ اعجاز عبید

محترم شفق سوپوری نے جب اپنی یہ غزل جو اسی شمارے میں شامل ہے، پوسٹ کی تو خیال آیا کہ اس سے چار پانچ دن پہلے ہی اسی زمین میں کچھ اشعار مجھ سے بھی سرزد ہو گئے تھے، انہیں بھی شامل کر دیا جائے۔ چنانچہ حاضر ہیں بغیر مطلع کے یہ اشعار:

 

ساری دنیا سے دشمنی لے لی

جس کی خاطر، وہ کب ہوا میرا

 

سو نہیں پایا میں تو مدت سے

چین سے بخت سو گیا میرا

 

یہ عجب بات ہے کہ خود اس نے

راز کس کس سے کہہ دیا میرا

 

جس کے بن تھا کٹھن مرا رہنا

وہ کبھی بھی نہیں ہوا میرا

 

کل یوں ہی دل اداس تھا، تو کوئی

شعر مجھ کو سنا گیا میرا

 

باز آؤ گے کب بھلا اعجازؔ

کر رہے یہ کیا ترا میرا

٭٭٭

 

 

 

اور پھر ردیف بدل کر یہ غزل

 

سارا کچھ دفن کر دیا تیرا

اب تو کچھ بھی نہیں بچا تیرا

 

تب منا لی تھی ہم نے چودھویں شب

رخ روشن جو دکھ گیا تیرا

 

خود سے ہم کب کے مل چکے لیکن

کچھ پتہ ہی نہیں چلا تیرا

 

اڑنے دینا کبھی تو آنچل کو

اور کبھی کس کے تھامنا تیرا

 

میری مانو تو خود کشی کر لو

جان لیوا تھا مشورہ تیرا

 

جانے کب تک بھلا نہ پائیں گے

چاہ کر بھی نہ چاہنا تیرا

 

ایک اک کر کے جل اٹھے تھے دئے

میرے گھر یوں گزر ہوا تیرا

 

بھولنے جب لگے تھے ہم تجھ کو

ہو گیا پھر سے سامنا تیرا

 

میں تو کھویا ہوا تھا ماضی میں

اور آگے کو سوچنا تیرا

 

مل نہ پائے گا تیرے جیسا کوئی

کیا نہیں کہتا آئینہ تیرا

 

چھوڑو یہ سب، عبیدؔ، ختم کرو

کیا یہ کرنے لگے مرا تیرا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے