سارے رستے رہا یہ ڈر شاید
ہو مرا آخری سفر شاید
اک دیا پھر جلائے بیٹھا ہوں
کوئی آئے گا لوٹ کر شاید
جس کو دیکھو وہ دیکھتا ہے مجھے
مجھ میں آیا ہے کچھ نظر شاید
میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں
بھول بیٹھا ہوں اپنا گھر شاید
زندگی سے میں پیار کرتا ہوں
موت سے اب نہیں ہے ڈر شاید
اُس کے چہرے پہ داغ کیسا ہے
چاند رویا ہے رات بھر شاید
٭٭٭
اپنے اس وسوسے سے باہر آ
سوچ کے دائرے سے باہر آ
سچ کی دنیا کو دیکھنے کے لئے
جھوٹ کے آئنے سے باہر آ
کتنا تجھ کو سنوار دوں گا میں
اے غزل قافیے سے باہر آ
زندگی خوش دلی کا نام تو ہے
موت کے فلسفے سے باہر آ
جو بھی گزرا ہے بھول جا اصغر
اب ہر اک حادثے سے باہر آ
٭٭٭