غزلیں ۔۔۔ احمد صفی

مجھ کو پچھلے پہر ہے پھر لائی

*’شاہراہوں پہ میری تنہائی‘

 

گرد و گرما میں خوب بہلائی

یہ طبیعت بھی تو ہے صحرائی

 

در پئے جان، جانِ جاں تم ہو

اس طرح جان پر ہے بن آئی

 

ہاتھ میں فون ہے کہ دنیا ہے

کوئی دیکھے تو عالم آرائی

 

تم نہیں تھے مگر تصور تھا

پھر طبیعت اسی سے بہلائی

 

سارے خوابوں کو در سے لوٹایا

نیند، دیکھو تو کیا ہے کر آئی

 

راہ اس نے کنوئیں کی دکھلائی

جس کو جس کو کہا تھا جب بھائی

 

ٹوٹا افسونِ قیس و ریگ و تپش؟

تم کہ سمجھے تھے خود کو صحرائی

 

بات احمد سنی گئی تب ہے

ویسے تقریر خوب فرمائی

 

*مصرعۂ طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمانے کو دکھایا جا رہا ہے

ہمیں سینے لگایا جا رہا ہے

 

کسی کو ہم سے کیا دلچسپی ایسی

بلانے کو بلایا جا رہا ہے

 

قیامت ہی تو ہے اب ہم کو منظر

قیامت کا دکھایا جا رہا ہے

 

محل تعمیر کرنا ہو گا اس پر

کسی کا گھر گرایا جا رہا ہے

 

ہے تنگ آ کر اٹھایا جس نے پتھر

تو بم اس پر گرایا جا رہا ہے

 

پلے برسات میں ہم گولیوں کی

ہمیں خوں سے ڈرایا جا رہا ہے؟

 

تو کیا احمد بھی پتھر ہو گیا ہے

جو رستے سے ہٹایا جا رہا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے