غزلیں
صادق اندوری
غزلیں صادق اندوری
مہک رہا ہے بدن سارا کیسی خوشبو ہے
یہ تیرے لمس کی تاثیر ہے کہ جادو ہے
تمھارا نرم و سبک ہاتھ چھو گیا تھا کبھی
یہ کیسی آگ ہے ، سوزاں ہر ایک پہلو ہے
ہے کس قدر متوازن نگاہ و دل کا ملاپ
کہ جیسے دونوں طرف ایک ساں ترازو ہے
رواں دواں ہے جدائی کا کرب یہ کیسا
وہ مطمئن نہ مجھے اپنے دل پہ قابو ہے
زمانہ کہتا ہے جس کو حسین تاج محل
وفا کی آنکھ سے ٹپکا ہوا اک آنسو ہے
بہت حسین ہے ماحولِ زندگی صادق
نظر کے سامنے جب سے وہ آئینہ رو ہے
(اکتوبر 1985ء)
نہ تم جدا ہو نہ میں جدا ہوں
تم آئینہ میں بھی آئینہ ہوں
سکوں مسافر کو دے رہا ہوں
شجر اکیلا ہی رہ گیا ہوں
مجھے حوادث نہ ڈھا سکیں گے
میں سنگِ بنیاد بن چکا ہوں
ہر اک طرف گھور اندھیرا پھر بھی
سراغ منزل کا پا رہا ہوں
کوئی مری گرد پائے گا کیا!
ہوا کی صورت گریز پا ہوں
زمانے کو راہ مل رہی ہے
اک ایسا تابندہ نقشِ پا ہوں
کہیں ملے فن کا درک صادق
تلاش میں عمر بھر رہا ہوں
(ستمبر 1985ء)
***