غزلیں
اعجازعبید
گہری جھیل میں کوئی دائرہ سا ابھرا ہے
سنگ ریزہ پھر کوئی یاد نے اچھالا ہے
شب کی برف باری کی برف اب پگھلتی ہے
جو بدن میں زندہ تھا، وہ پرندہ ٹھٹھرا ہے
باغ، پھول، پتّی، کھیت، چاند، آسماں ، تارے
یوں تو کتنے ساتھی ہیں ، دل مگر اکیلا ہے
ریت کا ہر اک ذرّہ کس جگہ سمندر ہے
جنگلوں کو کیا معلوم، کتنی دور صحرا ہے
پیڑ کا وہ تنہا سا برگِ سبز ٹوٹے گا
جانے والے موسم کا آخری اشارہ ہے
رات پھر رات ہی، یہ ظلم بھی کر سکتی ہے
ذہن میں خوابوں کی تصویر بکھر سکتی ہے
تیز رفتار ہوا آندھی کی صورت کیوں ہے
یہ اگر چاہے تو خاموش گزر سکتی ہے
رات کے ہاتھ میں ہیں چاند ستارے پھر بھی
راستہ خوف کے ذرّات سے بھر سکتی ہے
جلتی پیشانیوں پر سجدے کے داغ ابھرے ہیں
یہ عبادت ہمیں مایوس بھی کر سکتی ہے
رنگ ہوں آنکھوں میں ، سج جاتے ہیں منظر سارے
طبع خوش ہو تو ہر اک چیز سنور سکتی ہے