اقبال نے کہا تھا … ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی … علامہ محمد اقبال کا دور یقیناً زرخیزی و بالیدگی کا دور تھا۔ ذہانت و فطانت، فہم و ادراک، شعور و آگہی لیے بڑے بڑے نام سر زمین علم سے سر اٹھاتے اور تناور درخت بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ خود اقبال ایسا چھتنار تھے کہ جس کے سائے میں اگنے والے پودے اپنے قد و قامت سے محروم رہنے کے بجائے پوری شدت اور آب و تاب سے جلوہ ریز ہوتے اور اپنی چھتر چھایا سے نسل نو کو مستفید کرتے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اقبال جوہر شناس تھے، وہ انسان میں ایسی صلاحیتیں بھی تلاش کر لیتے جو خود اس پر بھی منکشف نہ ہوئی تھیں، اقبال کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے سبب وہ اس راہ کا انتخاب کر لیتے جس کے متعلق انھوں نے سوچا بھی نہ ہوتا، اقبال نے ہمیشہ اپنے دوستوں، بزرگوں، ہم عصروں اور نوجوان نسل کی ہمت افزائی کی اور انھیں زمانے کے بے مہر روّیوں سے نبرد آزما ہونے پر آمادہ کیا۔ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا مشورہ دیا، ان کے لیے آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کی خواہش کی، دنیا پر امامت کرنے کی توقع رکھی، انھیں باور کرایا کہ تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔ ایسے میں شیخ عبد القادر جیسی ذہین و فطین اور نابغۂ روزگار شخصیت کے لیے، اقبال سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ اقبال کے عہد نوجوانی سے ہی ان سے توقعات قائم کر لیتے ہیں … انھیں اس امر کا اندازہ تھا کہ یہ فعال اور ہمہ جہت انسان امت مسلمہ کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ ا قبال سے اولیں ملاقاتوں کا احوال اور شعر گوئی کا انداز شیخ صاحب سے زیادہ بہتر اور کون بیان کر سکتا ہے۔ شیخ صاحب کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ انھوں نے ستارۂ اقبال کا طلوع دیکھا اور ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں وہ ان کے ساتھ تھے۔ ۱؎
اقبال نے اپنی نظم ’’ہمالہ‘‘ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی، شیخ عبد القادر اس نظم کے متعلق کہتے ہیں کہ انگریزی خیالات اور فارسی بندشیں پھر سر زمینِ وطن سے محبت اور اس پر فخر کا احساس، لوگوں کے اصرار پر ترنم سے پڑھی گئی اس نظم نے عوام و خواص دونوں کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔ میں نے رسالہ مخزن کا اجرا کیا تو اقبال کی یہ نظم جلد اول، اپریل ۱۹۰۱ء میں شائع کر دی ہر چند کہ وہ اجازت دینے میں متامل تھے کہ ایک مرتبہ اور دیکھ لوں، ابھی کچھ خامیاں ہیں، لیکن میں جانتا تھا کہ نظم بہت پسند کی گئی ہے اور بے داغ تکمیلیت کی خواہش کے حصار سے شاعر اور وہ بھی اقبال جیسا شاعر کبھی نکل نہ سکے گا۔ ۲؎
شیخ صاحب کو ’’ہمالہ‘‘ ہی نہیں انجمن اور دیگر مقامات پر منعقدہ پیشتر جلسوں میں پڑھی جانے والی تخلیقات کی سماعت اور پھر مخزن میں اشاعت کا شرف حاصل ہے۔ مخزن کا اجراء کیا گیا تو شیخ صاحب کی کوشش اور خواہش یہی تھی کہ اس کے ہر شمارے کے لیے علامہ اقبال سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر لیں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔
دیباچۂ ’’بانگِ درا ‘‘ کے لیے علامہ اقبال نے شیخ صاحب ہی کا انتخاب کیا۔ ان کا تحریر کردہ دیباچہ اقبال کے اشعار کی تفیم و تعبیر میں، ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو سمجھنے میں وہ فضا جو ان تخلیقات کا محرک بنی، وہ مسائل جو امتِ مسلمہ کو اور بنی نوع انساں کو در پیش تھے، سبھی کا احاطہ کرتا ہے۔ بانگِ درا کا دیباچہ شیخ عبد ا لقادر کی شاہکار تخلیقات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں سے ہی شیخ صاحب کی دلی وابستگی، محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ اہم بات یہ ہے شیخ صاحب ہی نہیں بلکہ عوام و خواص بھی صاحب کتاب سے عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب کا تحریر کردہ دیباچہ علامہ اقبال اور ان کے قارئین کے درمیان مزید یگانگت کا سبب ہے۔ دیباچے کے آخر میں شیخ صاحب اقبال سے ملتمس ہیں کہ وہ فارسی کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوں، ان کی خواہش پوری ہوئی اور علامہ کے اردو شعری مجموعے بالِ جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز کے عنوان سے شاعر مشرق، ترجمانِ حقیقت، حکیم الامت کی قدر و منزلت میں مزید اضافے کا سبب ہوئے۔
۱۹۰۷ء میں علامہ اقبال اور شیخ صاحب کو انگلستان میں یکجا رہنے کا اتفاق ہوا۔ علامہ اقبال کیمرج میں اور شیخ عبد القادر لندن میں، لیکن ملاقات کے مواقع نکال لیتے۔ ان ملاقاتوں کا احوال اس عہد کے کئی ادبی مورخوں کی تحریروں میں ملتا ہے۔ عطیہ بیگم بھی ان دنوں لندن میں تھیں، ان کی ڈائری کے اوراق میں ان دونوں دوستوں کی فصاحت و بلاغت کی خوبی اور قابلیت و علمیت کا جا بجا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ دونوں نوجوان امت مسلمہ کی زبوں حالی پر کڑھنے کی بجائے عملی قدم اٹھا نا چاہتے تھے۔ اقبال، عبد القادر کی اس خوبی سے آشنا تھے کہ یہ شخص ہمدرد ہے اور کسی کی بھی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ بانگِ درا میں شامل، ۱۹۰۸ء کی تخلیق، ’’عبد القادر کے نام‘‘ گیارہ اشعار پر مشتمل نظم، کہ جس کا آخری شعر فارسی میں نظم کیا گیا ہے، اقبال کی شیخ صاحب سے وابستہ امیدوں کا اظہار ہے۔ شیخ عبد القادر کے لیے کہی گئی نظم خطابیہ انداز میں ہے اور اس میں ایک عزمِ نو کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ جب ہند کے عوام، بالخصوص مسلمان، نہایت دگرگوں حالات سے گزر رہے تھے۔ علامہ اقبال اپنے ہمراہ ان سر کردہ رہنماؤں کو لے کر چلنا چاہتے تھے کہ جو خوابِ غفلت کی شکار قوم میں احساس غیرت و حمیت بیدار کریں۔ نظم میں شیخ عبد القادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام کی زندگی سے جہالت کی تاریکی دور کر کے اسے عشق رسول کے نور سے آشنا کیا جائے، اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو امید بندھ جاتی ہے کہ یہ قوم حیات نو پا لے گی۔ اگر مسلمان جد و جہد کو شعار بنا لیں، غیر اسلامی روایات و تہذیب سے گریز کریں، انقلابِ نو کو زندگی کی بقا کا ذریعہ جانیں، عشق رسول کو رہنما بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ان کے قدم نہ چومے۔ مسلمانوں کی بیداری کے لیے وہ شیخ عبد القادر کو اپنے ہمراہ لے کر چلنا چاہتے ہیں، نظم میں فارسی الفاظ و تراکیب، تشبیہات و تلمیحات نے ایک ایسی فضا تخلیق کی ہے جس میں غنائیت و موسیقیت، ترنم و آہنگ بھی ہے اور اس پیغام کی کرنیں بھی جو آگے چل کر خضر راہ اور طلوعِ اسلام، میں زیادہ روشن ہو کر سامنے آتی ہیں۔
خود شیخ عبد القادر اقبال کی آرزو کی تکمیل میں کس طرح کوشاں رہے، انھی کی زبان سے سنیے۔
’’علامہ اقبال مرحوم نے جو میرے نام پیغام دیا تھا۔
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اگرچہ ہماری زندگی کی راہیں الگ الگ رہیں اور مستقل طور پر ہم نشینی حاصل نہیں رہی لیکن ایک طرح ان کا منشا پورا ہو کر رہا، میری زندگی بھی خدمتِ اردو میں صرف ہوئی۔‘‘ ۳؎
علامہ اقبال کی شاعری کا آفتاب نصف النہار پر تھا، طبعیت زوروں پر تھی شعر کہنا شروع ہو تے تو ایسے محسوس ہوتا کہ اشعار کی بارش ہو رہی ہے۔ اہل علم اور با ذوق افراد اقبال کو گھیرے رہتے۔ شعر خود کبھی نہیں لکھتے تھے، دوست احباب کاغذ قلم تھامے تیار بیٹھے ہوتے۔ قوم کا درد ایک ایک مصرع سے چھلکتا۔ مسلمانوں کا شاندار ماضی بھلائے نہ بھولتا اور حال کا زوال آمادۂ گریہ کرتا لیکن اس خوابیدہ قوم کو رونے رلانے کے بجائے بیدار کرنے کی ضرورت تھی۔ برصغیر کے سیاسی حالات دگرگوں تھے۔ سامراجی قوتیں عوام سے خوفزدہ ہو کر دفعہ ۳۰ کا نفاذ کر چکی تھیں جس کے باعث کہیں اجتماع نہیں ہو سکتا تھا۔ اسلامی ممالک مظالم کے ایک نہ رکنے والے سلسلے کا شکار تھے۔ مسلمان شاہی مسجد لاہور میں بجھے دلوں کے ساتھ نماز عصر کے لیے جمع تھے۔ بادشاہی مسجد میں نمازِ عصر کی ادائگی کے بعد علامہ اقبال کے گرد عقیدت مندوں کا ہجوم اکھٹا ہو گیا۔ اس جلسے میں علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ حضور رسالت مآب میں ‘‘ اپنے مخصوص انداز میں پڑھی۔ میاں سر محمد شفیع، انجمن حمایت اسلام کے بہت سے اہم اراکین اور شیخ عبد القادر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس نظم نے اہل دل مسلمانوں کو رلا رلا دیا کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو جنگِ بلقان اور طرابلس کے مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت پر لبریز نہ ہو۔ ایک ایک آنسو ایمان کی تازگی اور نئے ولولوں کا امین تھا۔ شیخ عبد القادر علامہ اقبال کی کیفیت حاضری و حضوری کے راز دار تھے، عشق رسول ہی نے انھیں وہ جرات رندانہ بخشی تھی کہ وہ اپنے اور تمام مسلمانوں کے دلوں میں اٹھنے والے سوالوں، تمام گلے شکووں اور آرزوؤں کو آپﷺ کی خدمت میں پیش کر دیتے۔
علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’خضر راہ‘‘ اپریل ۱۹۲۲ء انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں، جو اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ کے صحن میں منعقد ہوا، پڑھی۔ سامعین کا پُر شوق اور پُر جوش ہجوم آپ کی نظم سننے کا متمنی تھا۔ علامہ اقبال تشریف لائے تو آپ کے ہمراہ سر ذوالفقار علی خان اور خان بہادر سر عبد القادر دائیں بائیں موجود تھے۔ آپ نے ترنم کے ساتھ نظم پڑھی اور جب آپ اس شعر پر پہنچے تو ہر طرف آہ و بکا کا شور بلند ہوا خود علامہ کی ہچکی بندھ گئی اور کوئی آدھ گھنٹے کے بعد دوبارہ نظم کا وہیں سے آغاز ہوا، جہاں سے سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ شیخ عبد القادر علامہ اقبال کے اس درد سے آگاہ تھے جو امتِ مسلمہ کی اپنے شاندار ماضی سے بے نیازی و بے اعتنائی کے سبب روز افزوں تھا۔
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز ۴؎
اقبال جانتے تھے کہ نوجوان نسل میں احساس بیدار کرنے کی ضرورت ہے، کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہے، یہ سب سے بڑی بدقسمتی ہے، شیخ صاحب علامہ اقبال کی بہت سی نظموں کے تخلیقی پس منظر سے آگاہ تھے۔ ایک زمانے میں یہ بحث بھی چلی تھی کہ جواب شکوہ علامہ نے کس کے ایما پر کہی۔ ملفوظات قدسی اور نیاز مندانِ لاہور میں درج کیا گیا ہے کہ شکوہ کے بعد جوابِ شکوہ علامہ نے محض حضرت شاہ اسد الرحمن قدسی کے کہنے پر اور ان کی خواہش کے احترام میں لکھی۔ اس کی تردید نذیر ناجی نے بھی کی اور شیخ اعجاز احمد نے بھی، ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو صہبا لکھنوی کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’… نہ تو علامہ نے اور نہ سید راس مسعود مرحوم نے کبھی یہ فرمایا کے علامہ نے قدسی صاحب کے ایما پر ’’جوابِ شکوہ‘‘ لکھا تھا، میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ’’شکوہ کے بعد جوابِ شکوہ لکھا جانا یقینی امر تھا کسی کے ایما پر نہیں لکھا گیا۔ … میرے خیال میں علامہ نے شاعری کے سلسلے میں اگر کسی شخص کی بات مانی تھی تو وہ تھے سر شیخ عبد القادر، مرحوم، لیکن ’’جوابِ شکوہ‘‘ ان کے ایما پر بھی نہیں لکھا گیا …‘‘ ۵؎
علامہ اقبال کو ’’ترجمانِ حقیقت‘‘ کا لقب، شیخ صاحب ہی کا عطا کردہ ہے۔ ۶؎
قیام مغرب کے زمانے میں مغرب کی ترقی اور ان کے زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط دیکھتے ہوئے اقبال شعر و شاعری سے کچھ دور ہو گئے، شیخ صاحب بلکہ پوری قوم کے لیے یہ فیصلہ قابل قبول نہ تھا۔ شیخ صاحب اصرار کیے جاتے، اقبال ٹالتے رہتے، آخر ایک روز اقبال نے شیخ صاحب کو مخاطب کیا۔
مدیر ’’مخزن‘‘ سے جا کے اقبال کوئی میرا پیام کہہ دے
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انھیں مذاقِ سخن نہیں ہے ۷؎
اس وقت شیخ صاحب ہی کی ذات تھی کہ جس نے علامہ اقبال کو ترک شعر سے گریز کے فیصلے کو بدلنے پر مجبور کیا، اس کے لیے شیخ صاحب نے یہ کمال کیا کہ اقبال کو اس امر پر آمادہ کر لیا کہ ان کے استاد تھامس آرنلڈ صاحب پر فیصلے کو چھوڑ دیا جاتا ہے اگر وہ کہیں کہ اقبال کا فیصلہ درست ہے اور قوم کو اس وقت شعر و شاعری کی قطعی ضرورت نہیں ہے تو اقبال بلا تکلف اسی لمحے شاعری سے گریز کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب جانتے تھے کہ سر آرنلڈ کبھی اقبال کو شعر گوئی ترک کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ یہی ہوا۔ انھوں نے شاعری کو صرف علامہ اقبال کے لیے ہی نہیں پوری قوم کے لیے مفید قرار دیا۔ ایک تغیر البتہ یہ ہوا کہ توجہ اردو میں شعر کہنے کی بجائے فارسی کی طرف مبذول ہو گئی۔
شیخ عبد القادر فارسی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ شعر اقبال اردو زبان میں ہو یا فارسی میں، شاعر کا خلوص، جذبہ و احساس، زندگی کی صداقتوں کی تفسیر، وارداتِ قلبی کی تشریح، سبھی ان پر منکشف ہو جاتے۔ مولانا عبد المجید سالک اقبال و شیخ صاحب کے دلی تعلق اور اس محبت و عزت کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان دونوں دوستوں میں ابتدائی دور سے ہی تھی ’’جن بزرگوں نے پنجاب میں لوگوں کے اندر اردو زبان کا صحیح ذوق پیدا کیا ان میں شیخ صاحب کا نام صف اول میں آتا ہے۔ وہ علامہ اقبال کے ہم نشیں اور عمر بھر کے ساتھی تھے۔ علامہ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی طبعیت کا یہ خاص انداز سب کو معلوم تھا کہ وہ کبھی کسی کے کہنے پر اپنا کلام نہیں سناتے تھے، لیکن میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بھی شیخ صاحب ان سے ملنے کے لیے آتے تو علامہ اقبال نے خود بخود چند اشعار ان کو سنا دیے، وہ انھیں حقیقی سخن فہم سمجھتے تھے۔ ۸؎
شیخ عبد القادر علامہ اقبال کے خلوت و جلوت کے ساتھی تھے۔ نجی محفلوں کے قصے، حاضر جوابیاں اور بدیہہ گوئی کے واقعات اہل پنجاب سے منسوب ہیں۔ لاہور میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے یوپی سے نواب نوشاد علی خان تشریف لائے۔ ان کا قیام سر محمد شفیع کے ہاں تھا۔ ایک دن وہ شکوہ کر بیٹھے کہ سر سید تو اہل پنجاب کی زندہ دلی کے بہت واقعات سنایا کرتے تھے، مجھے تو ایسا کچھ محسوس نہ ہوا۔ شیخ عبد القادر نے برجستہ کہا کہ آپ نے قیام کے لیے غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارے ساتھ رہتے تو علم ہو جاتا کہ زندہ دلی کسے کہتے ہیں، چنانچہ کانفرنس سے فارغ ہوتے ہی سر جلال الدین نے اپنے ہاں کھانے کا اہتمام فرمایا۔ علامہ اقبال کی موجودگی میں اس دور کی خوش گلو بہارو طوائف کو بلوایا گیا۔ دن بھر اسے علامہ کا کلام یاد کروایا گیا۔ کھانے کے بعد محفل جمی، اس نے بہت خوبصورتی سے کلام اقبال پیش کیا۔ محفل رونق پر آتی جا رہی تھی کہ نوشاد علی خان نے اشارہ کیا کہ اسے رخصت کر دیا جائے۔ اقبال سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے، میں کلام اقبال بزبانِ اقبال سننے کا خواہش مند ہوں۔ اقبال کا انکار اقرار میں تبدیل نہ ہوا یہ بات سبھی جانتے تھے کہ اقبال شعر سنانے کے معاملے میں بہت محتاط تھے، ہاں گرامی اور شیخ عبد القادر کی بات دوسری تھی۔ ۹؎
واقعی شیخ عبد القادر کی بات دوسری تھی، اقبال کو شیخ صاحب پر کامل بھروسا تھا، وہ جانتے تھے کہ جسے شعر سنانے جا رہا ہوں وہ سخن فہم ہی نہیں جوہر و قدر شناس بھی ہے۔ ادھر اقبال سے دلی تعلق کی بنا پر شیخ صاحب کو اتنا مان تھا کہ بھرے مجمع میں اقبال کی طرف سے خود ایسے اعلان کر دیتے تھے کہ کوئی اور اقبال کی اجازت کے بغیرایسی جرات نہ کر سکے۔ محمد عبد اللہ قریشی رقم طراز ہیں۔ یکم تا ۳ اپریل ۱۹۰۴ء انجمن حمایت اسلام کا انیسواں جلسہ اسلامیہ کالج لاہور کے لالہ زار میں منعقد ہوا۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’تصویرِ درد‘‘ پیش کی، کلام اقبال بزبانِ اقبال ہو، موضوع بھی دل کو چھو لینے والا ہو تو سامعین کا جوش و خروش اور جذبہ و احساس دیدنی تھا۔ مولانا حالی نے دس روپے کا نوٹ عطا فرمایا، جسے حاصل کرنے کے لیے عمائدین شہر نے بڑھ بڑھ کر بولیاں دیں۔ مولانا حالی کو سننے کے لیے سبھی بے تاب تھے انھوں نے پڑھنا شروع کیا لیکن ضعیف العمری کے سبب ان کی آواز سامعین تک نہ پہنچ پاتی تھی، مجمع انھیں سننے کے لیے اپنی نشستوں سے اٹھ کر آگے بڑھنے لگا، اس ہنگامے میں آواز اور دب دب جاتی تھی۔ اس بدنظمی کو روکنا ضروری تھا، شیخ عبد القادر فوری طور پر اٹھے اور یہ اعلان کیا کہ آپ خاموشی سے مولانا حالی کو جتنا سنا جا سکتا ہے سنیے اور ان کی زیارت کیجیے۔ بعد میں یہی نظم اقبال آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ شیخ صاحب کی تدبیر کار گر ہو ئی اور مجمع پُر سکون ہو گیا، نظم کے اختتام پر اقبال اٹھے اور انھوں نے اپنی بلند اور توانا آواز میں نظم سنائی۔ رباعی سنانے سے پہلے انھوں نے فی البدیہہ یہ رباعی کہی:
مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی
معمور مے حق سے ہے جامِ حالی
میں کشور شعر کا نبی ہوں گویا
نازل ہے میرے لب پہ کلامِ حالی ۱۰؎
گویا اس رباعی کی شانِ نزول شیخ صاحب ہی کی مرہون منت ہے۔
خود شیخ صاحب اقبال کے ایک ایک شعر ایک ایک مصرع کے منتظر رہتے۔ اقبال بنام فوق اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں ’’شعر ہے جو کبھی کبھی خود موزوں ہو جاتا ہے سر شیخ عبد القادر لے جاتے ہیں۔‘‘ ۱۱؎
شیخ برادری میں اہلِ علم حضرات کی کمی نہیں۔ استاد، شاعر ادیب و ادب گر با ذوق تخلیق کار اور قاری اردو ادب کے لیے گنجِ گراں مایہ رہے۔ ’’خواجہ حسن نظامی شیخ عبد القادر اور شیخ محمد اقبال کو ’’شیخین پنجاب کہا کرتے تھے۔‘‘ ۱۲؎
یہ وہی حسن نظامی ہیں کہ ان کی پنجاب آمد پر شیخ صاحب سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے برجستہ کہا علامہ اقبال کا خیال تھا کہ وہ ضعیف العمر شخص ہیں اور میں کہتا تھا تھا کہ وہ نو عمر ہیں۔ آج انھیں دیکھ کر اندازہ ہو گیا ہے کہ میں درست تھا۔ ۱۳؎
اور خود علامہ اقبال شیخ عبد القادر کو ان کی تمام دنیا کو موہ لینے والی عادات کی بنا پر شیخ عالم گنڈھ کہا کرتے تھے، یعنی شیخ صاحب اپنے دوستوں کو محبت کی نہ کھلنے والی گرہ میں باندھنے کا فن جانتے تھے۔ اقبال سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ذکرِ اقبال ہو اور شیخ صاحب ہوں، وہ کہیں اور سنا کرے کوئی، والی کیفیت ہوتی، وزیر تعلیم اس امر سے آگاہ تھے کہ اقبال سے قربت کے علاوہ اقبال شناسی اور اقبال فہمی، میں شیخ صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔ انھوں نے اقبال کی شاعری پر چھ لیکچرز کا اہتمام کیا۔ ہر چند کہ جانتے تھے کہ شیخ صاحب سال بھر سے علیل چلے آ رہے ہیں۔ ایسے میں انھیں اس مشقت میں ڈالنا زیادتی ہو گی لیکن اقبال سے محبت و عقیدت کے پیش نظر شیخ صاحب نے ان لیکچرز کا دینا منظور فرمایا۔ بدقسمتی سے زندگی نے وفا نہ کی، وہ اس سلسلے کو مکمل نہ کر سکے۔ لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ انھیں ان لیکچرز کو قلمبند کرتے ہوئے محض اپنی یادداشت پر بھروسا کرنا پڑتا تھا، کیونکہ ناتوانی اور بیماری انھیں، حوالے تلاش کرنے کی مہلت نہ دیتی تھی۔ ۱۴؎
فضل الرحمٰن انتہائی دکھ کے ساتھ کہتے ہیں، ہمیں ان کی موت کی خبر اس وقت موصول ہوئی جب بنیادی کمیٹی کو اقبال میموریل لیکچرار کی حیثیت سے ان کی نفسیاتی تعلیم کی توثیق کرنا تھی۔ ۱۵؎
شیخ عبد القادر نے اقبال اور شعر اقبال کی تفہیم و تعبیر میں مثبت کردار ادا کیا۔ اقبال ان کا پسندیدہ موضوع تھے۔ علامہ اقبال پر ان کے لکھے گئے مقالات و مضامین اور مختلف کتب کے دیباچوں کے عنوانات پر ایک نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اقبال کو کتنی متنوع جامع شخصیت تصور کرتے تھے اور اقبال پر کیے گئے کام کو کتنی وقعت دیتے تھے۔ مثنوی رموزِ بے خودی (تنقیدی نظر)، بانگِ درا، نذرِ اقبال، دانائے راز، یادِ اقبال، اقبال اس کی شاعری اور پیغام، اقبال کا فلسفہ حیات و مو ت، اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور، شاعرِ مشرق سے میری آخری ملاقات، چند پیش گوئیاں، فکرِ اقبال کا ارتقا، کیفِ غم، اقبال فلسفی شاعر اور مال اندیش کی حیثیت سے، ہم عصر شعرا پر اقبال کا اثر، طلوعِ اقبال، میر کی واسوخت اور اقبال کا شکوہ وغیرہ۔
شیخ عبد القادر اقبال کی شخصیت، ان کی مفکرانہ اور شاعرانہ عظمت، ملکی و بین الاقوامی سیاست، ملتِ اسلامیہ کے مشترکہ مسائل اور فکر اسلامی کے مثبت اسرار و رموز کو شعر اقبال کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ ۱۹۵۷ء اور بعد زاں ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب ’’اقبال، دی گریٹ پوئٹ‘‘ میں علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ارتقائی مدارج کا جائزہ لیتے ہیں۔ نو مضامین پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے اقبال کے وجدان، جذب و جنوں شوق، آرزو مندی، جستجو، خرد، علم اور عزم و یقین سے متعلق ان کے نظریات کی وضاحت کی ہے۔ شیخ سر عبد القادر کا انگریزی زبان پر مکمل قدرت کے مظاہرہ ان کے انگریزی زبان میں لکھے گئے مضامین سے ہوتا ہے۔ ان کے یہ مضامین عصری تقاضوں پر عمیق نظر کے ساتھ ساتھ فکری، علمی اور تخلیقی توانائیوں کے مظہر ہیں۔ ان کی زندگی میں علامہ اقبال کا حوالہ اور ان کاساتھی و ہم عصر ہونانہ صرف اقبال کے شیدائیوں اور محققوں کے لیے اہم ہے بلکہ قومی اور ادبی لحاظ سے اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اردو زبان و ادب پر ان کا یہ بلند پایہ کام اپنی نظیر آپ ہے۔
شیخ عبد القادر کے علامہ اقبال پر لکھے گئے نو مضامین کا دوسرا ایڈیشن جناب محمد حنیف شاہد کی ادارت میں ’’Iqbal; The Great Poet of Islam’’ کے عنوان کے ساتھ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے۔ ان مضامین کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں:
- Dr Sir Muhammad Iqbal
- The Great Poet of Islam
- Sir Muhammad Iqbal
- Iqbal as a Poet Philosopher and Seer
- Iqbal as a Poet and Philosopher
- The Seer and the Mystic
- The Influence of Iqbal on Urdu Literature
- Iqbal and Modren Civilization
- The Devil’s Conference
- A Letter from London
مشترکہ حلقۂ احباب
علامہ اقبال اور شیخ عبد القادر مشترکہ حلقۂ احباب رکھتے تھے۔
حیات اقبال اور کلام اقبال کے مبصرین جب بھی ستارۂ اقبال کے شعری افق پر نمودار ہونے کا ذکر کرتے ہیں، شیخ صاحب سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ سرگذشتِ اقبال میں عبد اسلام خورشید اقبال کے پہلے دور کے دوستوں میں مرزا جلال الدین، سر عبد القادر، سر شہاب الدین نواب ذو الفقار علی خان اور سر محمد شفیع وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۶؎
شیخ صاحب کو مرزا داغ، اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال سے دلی تعلق تھا، ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’یہ تینوں حضرات میرے جگری دوست تھے، جو وقت میں نے ان کے ساتھ گزارا ہے وہ میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے ہے۔ داغ اپنے عہد کے غزل گو شعرا میں ممتاز تھے۔ انھیں دو اور بھی امتیاز حاصل تھے۔ نظام دکن کے استاد کی حیثیت سے انھوں نے جو تنخواہ پائی وہ ہمارے ملک میں کسی شاعر کو صرف شاعری کے عوض آج تک نہیں ملی۔ ان کا دوسرا امتیاز اس سے مختلف ہے یعنی اقبال جیسا شاعر ابتدا میں ان کا شاگرد تھا‘‘ اور اقبال کے بارے میں وہ ہمیشہ پر امید رہے اور ان کا کہنا تھا کہ اقبال نے مسلمان قوم پر جو اثرات مرتب کیے ہیں آئندہ نسلیں اسے ہم سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں مستفید ہو سکیں گی۔ ۱۷؎
مولانا حبیب الرحمن خان شیرانی شیخ عطا اللہ کے مرتب و مدون کردہ مجموعۂ خطوط ’’اقبال نامہ‘‘ کا مقدمہ تحریر کرتے ہوئے ان کے دوستوں کاتذکرہ کرتے ہیں۔ ’’شیخ عبد القادر کی خانقاہ اردو ادب کے اہلِ ذوق کا مرجع بنی ہوئی تھی۔ اقبال، نیرنگ، احمد حسن مصنف، خود شیخ یہ اربعہ عناصر ذوق ادب کے وہاں جمع ہوتے۔ مجھ کو اس صحبت میں ان احباب کو دیکھنے ملنے اور ان سے خصوصیت حاصل کرنے کا موقع ملتا رہتا۔‘‘ ۱۸؎
جسٹس شاہ دین ہمایوں، ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، ذہانت و فطانت میں اپنی مثل آپ تھے، انتہائی لائق طالب علم تھے، ان کے ایک لیکچر سے متاثر ہو کر جو انھوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں مسلمانوں کے تعلیمی زوال پر دیا تھا، سرسید نے انھیں کانفرنس کی صدارت کی پیش کش کی، اس وقت ان کی عمر صرف چھبیس برس تھی۔ ۱۸۹۰ء میں لندن سے بیرسٹری کرنے کے بعد ان کی متاثر کن شخصیت لاہور کے قابل نوجوانوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی تھی، انھیں بھی ان نوجوانوں سے بہت سی امیدیں تھیں، مخزن میں شائع ہونے والی بیشتر نظمیں اس کا ثبوت ہیں۔ ’’شالامار باغ کشمیر‘‘ مخزن جون ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی:
ناظر بڑا مزا ہو جو اقبال ساتھ دے
ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالامار ہو
شیخ سے مراد شیخ عبد القادر ہیں۔ ۱۹؎
۱۹۲۷ء میں سید سلیمان ندوی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں شرکت کے لیے لاہور آئے، یہاں ان کا بہت محبت کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ علمی و ادبی محفلوں اور بے تکلف دعوتوں میں لاہور کے مشاہیر شریک ہوتے اور سید صاحب کی صحبت سے مستفید ہوتے۔ اعظم گڑھ واپسی پر سید صاحب نے معارف میں ان ادبی و علمی مجالس کا احوال رقم کیا اور شہر لاہور میں ان کاملین فن کے اجتماع کو بے مثل قرار دیا۔ آپ لکھتے ہیں:
’’اصحاب علم اور ارباب علم و ادب کی جمعیت کے لحاظ سے بھی وہ آج کل ہندوستان کی سب سے بہتر مجلس ہے ڈاکٹر سر محمد اقبال، شیخ عبد القادر، پرنسپل عبد اللہ یوسف علی، پروفیسر حافظ محمود شیرانی، … مولوی ظفر علی خان اور متعدد ایسے باکمال اصحاب کی سکونت کا اس کو فخر حاصل ہے جن کے یکجا مرقع کی مثال کسی اور شہر میں نظر نہیں آتی۔‘‘ ۲۰؎
۱۹۰۸ء میں اقبال پی ایچ ڈی اور بیرسٹری کی سند کے ساتھ وطن واپس آئے، میر غلام بھیک نیرنگ انبالے سے اقبال کے استقبال کے لیے دہلی پہنچے۔ اقبال کی آمد سبھی اہلِ وطن کے لیے خوش آئند تھی، سبھی شدت سے ان کی آمد کے منتظر تھے، میر نیرنگ کا تخلیقی ذہن دورانِ سفر مصروف رہا، سفر کے اختتام پر ایک خوب صورت نظم آپ کے ہمراہ تھی، جو اقبال کی پسندیدہ زمین میں تھی، بعد ازاں انھوں نے یہ نظم ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ء درگاہ خواجہ نظام الدین اولیا میں احباب کی محفل میں سنائی، سامعین میں خواجہ حسن نظامی، شیخ عبد القادر، راشد الخیری، شیخ محمد اکرام اور سید جالب دہلوی نمایاں تھے۔
پھر تیرے دم سے ہوں گے تازہ سخن کے چرچے
پھر رونقیں رہیں گی یاروں کی انجمن میں ۲۱؎
ڈاکٹر محمد دین کہتے ہیں کہ میری علامہ اقبال سے اس زمانے میں ملاقات ہوئی جب وہ بھاٹی دروازے میں مقیم تھے یہ وہ دور تھا کہ جو علامہ کی سر عبد القادر اور مولوی انشا اللہ سے بہت گہری دوستی تھی۔ میں سر عبد القادر کے ہمراہ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا۔ ۲۲؎
اس زمانے کے اہم نام قانون کے شعبے سے وابستہ تھے، لاہور کا بار روم ایک قابلِ قدر مقام تھا جہاں لالہ شادی لال، مولوی شاہ دین، میاں محمد شفیع، سر فضل حسین اپنی قانونی موشگافیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی علمی، سیاسی و سماجی حالت پر بھی رائے زنی کرتے۔ علامہ اقبال کی وابستگی نے اس کے وقار میں مزید اضافہ کیا۔ علامہ اقبال سر جلال الدین اور نواب ذو الفقار علی خان کی بلا ناغہ ملاقاتوں کے باعث سر فضل حسین انھیں TRIO (اصحاب ثلاثہ) کہتے۔ سر عبد القادر بھی اکتوبر ۱۹۱۲ء میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے لائلپور جانے سے پہلے ان محفلوں میں شریک ہوتے۔ ۲۳؎
بیسویں صدی کی ابتدا میں لاہور کی ادبی فضا میں مشاعروں کی گونج باقی تھی، میر ناظم حسین لکھنوی دبستان لکھنو کی نمائندگی کرتے اور مرزا ارشد گورگانی دبستانِ دہلی کی اقبال ان محفلوں میں چلنے والی معاصرانہ چشمکوں اور ادبی چپقلشوں سے دور رہتے۔ ’’اردو بزم مشاعرہ‘‘ کے تحت مشاعروں کا سلسلہ چلتا رہتا اور نوک جھونک بھی قائم رہتی۔ جب اس بزم کے تحت مشاعروں کا سلسلہ تھما تو حکیم شہباز دین کے ہاں ہر شام نشست جمنی شروع ہوئی اور اکابرینِ ادب اور با ذوق اصحاب کا اجتماع ہوتا جن میں حکیم امین الدین، حکیم شہباز دین، سر عبد القادر، سر شہاب الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین، شیخ گلاب دین، مولوی احمد دین، مولانا عبد الحکیم، کلا نوروی، مولوی محمد، محمد حسن جالندھری، مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی فقیر سید افتخار الدین، خان احمد حسین خان، منشی محمد دین فوق، مولانا اصغر علی روحی اور شید وکیل باقاعدگی سے شرکت کرتے، سر عبد القادر ادب کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ’’ مخزن ‘‘ کا اجرا ان کا وہ کارنامہ ہے کہ جس کے سبب وہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ۲۴؎
خواجہ فیروز الدین بیرسٹر ایٹ لا علامہ اقبال کے ہم زلف بھی تھے اور دوست بھی۔ علامہ اقبال کی دوستانہ اور بے تکلف محفلوں کا احوال بیان کرتے ہیں بازار حکیماں میں شہباز الدین کے مکان پر جو حلقۂ احباب کا اجتماع ہوتا ان میں علامہ اقبال، خود صاحب مکان حکیم شہباز الدین، مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین خلیفہ نظام الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش اور خواجہ کریم بخش چودھری شہاب الدین، سر فضل حسین اور شیخ عبد القادر نمایاں تھے۔ اس مجمع احباب کو لوگ ’’ ہاؤس آف لارڈز ‘‘ کے نامے یاد کرتے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس بزم دوستاں میں شریک کئی شخصیات ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازی گئیں جیسے سر محمد اقبال، سر عبد القادر، سر فضل حسین اور سر شہاب الدین وغیرہ…۳۵؎
احباب کا اجتماع ہر شام ہوتا لیکن کیفیت یہ ہوتی کہ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا کسی مسیحا و خضر سے زیادہ دل خوش کن ہوتا۔ سبھی یوں ملتے جیسے برسوں کے بچھڑے رفیق اچانک مل بیٹھے ہوں۔ ۱۹۰۵ء کے لگ بھگ کا ذکر ہے۔ لاہور میں ایک مکان للی لاج کے نام سے ان احباب ذوق کا مرکز تھا۔ بازار حکیماں سے بازارِ سیدمٹھا کے مشرقی حصے سے کچھ پہلے سیدھے ہاتھ ’’ تھڑیاں بھابھڑیاں ‘‘ محلہ تھا جس کی بیشتر آبادی جینیوں کی تھی اس مکان میں لاہور کے روشن خیال مسلمان بزرگ ہر شام اکٹھے ہوتے اور اہم علمی ادبی قومی مسائل پر گفتگو ہوتی شرکا میں علامہ اقبال سر عبد القادر سر شہاب الدین شا مل تھے، یہیں مولانا ظفر علی خان نے زمیندار لاہور سے شائع کرنے کا اعلان کیا تھا، زیادہ تر بزرگ شہر کے اسی حصے میں رہتے سر عبد القادر ’’تھڑیاں بھابڑیاں‘‘ سے ملحق ایک گلی میں رہتے۔ واضح رہے کہ للی لاج تین بھائیوں خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش اور خواجہ کریم بخش کی مشترکہ جائداد تھی۔ ۲۶؎
اقبال کے مشترکہ احباب کو لکھے گئے کچھ خطوط ایسے بھی موجود ہیں جن میں شیخ عبد القادر کا ذکر محبت، خلوص اور بے تکلفی سے کیا گیا ہے۔ بعض سے عبد القادر کی علمیت و لیاقت پر اقبال کو جو بھروسا تھا، وہ بھی ہویدا ہے، کچھ خطوط اس بات کے غماز ہیں کہ شیخ صاحب اقبال کے ان دیرینہ دوستوں میں سے ہیں جن کی اقبال کے ہاں تواتر سے آمد و رفت تھی اور، وہ اقبال کے خلوت و جلوت کے ساتھی تھے۔ ۱۹۰۲ء میں میر منشی سراج الدین کو اپنے خط میں لکھتے ہیں، ’’آج عید کا دن ہے اور بارش ہو رہی ہے۔ گرامی صاحب تشریف رکھتے ہیں اور شعر و سخن کی محفل گرم ہے۔ شیخ عبد القادر ابھی اٹھ کر کسی کام کو گئے ہیں …‘‘ ۲۷؎
خان بہادر شاد عظیم آبادی اقبال اور شیخ صاحب کے مشترکہ دوستوں میں سے تھے۔ ۳۲ برس آنریری مجسٹریٹ کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اقبال ان کی شعری صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے، لاہور سے ۲۵ اگست ۱۹۲۴ء کو لکھے گئے خط میں ان کی خدمات کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا ہے اور شیخ صاحب کی تفصیلی خیریت کی اطلاع بھی دی گئی ہے۔ ’’آپ کی ہمہ گیر دماغی قابلیت اور اس کے گراں بہا نتائج اس ملک کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ موجودہ نظام تمدن، پرانے نظام کا نعم البدل نہیں ہے کاش عظیم آباد قریب ہوتا، اور مجھے آپ کی صحبت سے مستفیض ہوے کا موقع ملتا، ۔ شیخ عبد القادر صاحب مع الخیر ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے (ان کے) بہت سے بال بچے ہیں۔ تھوڑے عرصے کے لیے ہائی کورٹ لاہور کے جج بھی ہو گئے تھے مگر اب پریکٹس کرتے ہیں، آج کل لاہور سے باہر ہیں۔ انشاء اللہ جب ان سے ملاقات ہو گی آپ کا سلام ان تک پہنچا دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی خیریت کا سن کر وہ بھی میری طرح بے انتہا مسرور ہوں گے۔‘‘
۲۸؎
۱۷ اپریل ۱۹۰۹ کو لاہور سے عطیہ فیضی کو خط کے جواب میں لکھتے ہیں۔ ’’… عبد القادر سے اکثر چیف کورٹ کے کمرۂ وکلا میں ملاقات ہوتی ہے، تقریباً روزانہ ہی، مگر عرصۂ دراز سے ہم نے آپ کے بارے میں گفتگو نہیں کی …‘‘
۲۹؎
خطوط شیخ عبد القادر بنام اقبال میں باہمی تعلقات، ذاتی معاملات اور نجی زندگی کے کیف و کم کے ساتھ ساتھ ادبی، علمی سیاسی اور معاشرتی مسائل بھی موضوعِ بحث آئے ہیں۔ محمد حنیف شاہد کی مرتب کردہ کتاب ’’ مقالاتِ قادر‘‘ میں شیخ صاحب کے اقبال اور فرزندِ اقبال کے نام چند خطوط بھی تبرکاً شامل ہیں۔ پہلا خط ۱۷ مئی ۱۹۰۴ کو بحری جہاز مالدیویہ سے لکھا گیا ہے۔ انداز تخاطب، پیارے اقبال سے بے تکلفی اور محبت مترشح ہے۔ لکھتے ہیں ایک مدت سے امید یہی تھی کہ اکٹھے سفر کریں گے اب آپ کی عدم موجودگی بے حد کھل رہی ہے۔ جہاز پر کوئی رفیقِ سفر نہیں جو ہیں ان کی زبان ملاحظہ کیجیے، یہ باجو بیٹھو، آج پون ذرا جاستی ہے۔ آپ ہوتے تو سارا مجمع زیرِ قلم ہوتا۔ سفر اور ہمرہان سفر پر وہ گلکاریاں کی جاتیں کہ یاد گار ہوتیں۔ سمندر کے سفر سے لوگ خوامخواہ خوف زدہ رہتے ہیں، سمندر انتہائی پر سکون ہے۔ خط لکھتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا۔ آخر میں وہ فرمائش جو اس خط کا لازمی عنصر یعنی تازہ کلام برائے مخزن۔ خط کیا ہے دو بے تکلف اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے دلی دوستوں کی وقتی جدائی، مستقبل کی منصوبہ بندی اور مشترکہ دوستوں کی محبتوں کا بیان ہے۔ دوسرا خط در اصل پہلے خط ہی کا ضمیمہ معلوم ہوتا ہے۔ خط پر تاریخ اور مقام درج نہیں ہے لیکن چونکہ یہ خط مخزن کے اگست ۱۹۰۴ کے شمارے میں شائع ہوا تھا اس لیے یہ اگست سے قبل… ہی علامہ اقبال کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے۔
آغاز فارسی شعر سے کرتے ہیں
یکے دریا، نہ وے را بُن پدید و بے کراں پیدا
در و اندیشہ حیراں، وہم سرگرداں، خرد شیدا
خط میں اس محرومی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اندرونی علاقے سمندر سے سیکڑوں میل دورہونے کے سبب یہاں کے باشندوں کی وسیع تعدادسمندر کی کیفیت، ہیبت اور خدا کے جلال و جمال کے نظاروں سے یکسر محروم و لا علم ہے۔ ان کا علم جغرافیے کی کتابوں تک محدود ہے۔ اس خط سے شیخ عبد القادر کے اسلوب کی جولانی اور بہاؤ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ صانع حقیقی کی صنعت کاملہ جس کا ایک واضح مظہر سمندر ہے، انسانی علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ استفہامیہ انداز میں اللہ کی قد رت و صناعی کی داد لفظ لفظ سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔
شیخ صاحب کے اس طویل خط میں مذہب، فلسفہ، منطق، شعر و ادب سبھی گھلے ملے نظر آتے ہیں۔ خط کیا ہے سمندر کی ہیئت و ہیبت کا ایک تاثراتی و تجزیاتی مطالعہ ہے۔ سمندر کے صبح و شام، لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کا بیان ہو یا وہاں موجود مہجور و خوش نصیب لوگوں کی کیفیات کا احوال۔ ان کی تحریروں میں ایسی جذباتیت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ خط کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے۔ ’’خیر یہ تو با اقبال لوگوں کی کیفیتیں ہیں۔ ہمیں ان سے کیا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ اقبال کو بلاؤں کہ ’’آ اور دیکھ‘‘
۳۰؎
اقبال کے نام تیسرا خط ۲ ستمبر ۱۹۰۴ء لندن سے لکھا گیا ہے۔ جس میں اقبال کے ۹ اگست کو لکھے گئے خط کے ۲۹ اگست کو ملنے کی اطلاع دی گئی ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ خط کا جواب خواہ مختصر ہی لکھیے لیکن دیجیے ضرور کہ ایک تو اپنا خط ملنے کی رسید، دوسرے سلسلہ نہیں ٹوٹتا۔ خط میں آئندہ دسمبر کے انتظار کا تذکرہ ہے کہ اقبال کا ستمبر ۱۹۰۵ء میں انگلستان جانے کا منصوبہ ہے۔ چند احباب کے آ جانے سے خط مختصر لکھنے کی توجیہ بھی پیش کی گئی ہے اور آئندہ مفصل خط لکھنے کا وعدہ بھی۔
شیخ صاحب کو ایک خط ایسا بھی لکھنا پڑا جو وہ کبھی لکھنا نہیں چاہتے تھے، ان کے احباب کو لکھے گئے خط ہوں یا دیگر تحریریں، علامہ اقبال کا ذکر کس محبت، شوق و وارفتگی اور بے تکلفی کے باوجود عزت و احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ مذکورہ تعزیتی خط اقبال کے فرزند آفتاب اقبال کے نام ہے اور انگریزی میں لکھا گیا ہے۔ ۵ مئی ۱۹۳۸ء کو لکھے گئے اس خط میں دوست کی جدائی کا نوحہ بھی ہے اور ان کی عظمت کا احساس بھی۔ لندن میں ان کی یاد میں ہونے والی تقریبات کا احوال بھی درج ہے اور اس مرد مومن، شاہین صفت انسان اور محبوب دوست کے دنیا سے رخصت ہو جانے کا دکھ ہویدا ہے۔ ۳۱؎
٭٭
حوالہ جات
۱۔ شیخ عبد القادر ’’میں نے ستارۂ اقبال کا طلوع دیکھا‘‘ مشمولہ اوراق نو ص ۶۶
۲۔ شیخ عبد القادر، دیباچہ بانگِ درا، ص ۲۴
۳۔ ریاض قادر، ناصر کاظمی، مدیران، ۱۹۵۰ء ’’ اوراق نو ‘‘ص ۵
۴۔ عبد اللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، ص ۱۱۶۔ ۱۱۷
۵۔ صہبا لکھنوی، اقبال اور بھوپال، لاہور اقبال اکادمی، ص ۳۸
۶۔ سید معشوق حسین اطہر ہاپوڑی ’’آہ شیخ عبد القادر ادیبِ شہیر ملک‘‘، مشمولہ اوراق نو، ص ۱۱۶
۷۔ اداریہ ادب لطیف مارچ ۱۹۵۰ء، ص ۳
۸۔ مولانا عبد المجید سالک، اوراق نو، ص ۱۳۱
۹۔ عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، ص ۱۲۰
۱۰۔ محمد عبد اللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں، ص ۸۷
۱۱۔ انوارِ اقبال ص ۵۳
۱۲۔ ملا واحدی، میرا افسانہ،ص ۷۵
۱۳۔ محمد عبد اللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں، ص ۴۰۳
۱۴۔ اوراق نو، ص ۲۲۔ ۲۳
۱۵۔ شیخ عبد القادر، ’’اقبال فلسفی، شاعر اور مآل اندیش کی حیثیت سے‘‘ مترجم انیس جہاں، مشمولہ اوراق نو، ص ۳۹
۱۶۔ عبد السلام خورشید، سرگذشتِ اقبال، ص ۵۶۱
۱۷۔ اقتباس، امروز، مشمولہ اوراقِ نو، ص ۱۳۸
۱۸۔ مولانا حببیب الرحمن خان شیروانی ۱۹۷۷ء شیخ عطا اللہ کے مرتب و مدون کردہ مجموعۂ خطوط ’’اقبال نامہ‘‘ لاہور، اقبال اکادمی۔
۱۹۔ محمد عبد اللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں ،ص ۱۱۳۔ ۱۱۴
۲۰۔ محمد عبد اللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، لاہور مجلسِ ترقیِ ادب
۲۱۔ محمد عبد اللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں، ص ۷۳
۲۲۔ ایضاً، ص ۱۶۵
۲۳۔ ایضاً، ص ۱۰۸
۲۴۔ محمد عبد اللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، لاہور مجلسِ ترقیِ ادب، ص ۹۰
۲۵۔ رفیع الدین ہاشمی، تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ لاہور، اقبال اکادمی، ص ۱۱
۲۶۔ محمد عبد اللہ چغتائی، روایاتِ اقبال، ص ۹۷
۲۷۔ رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ، لاہور اسلامک پبلی کیشنز
۲۸۔ محمد عبد اللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، ص ۸۸
۲۹۔ عطیہ فیضی، ۱۹۷۵ء، اقبال، لاہور، آئینۂ ادب
۳۰۔ محمد حنیف شاہد، نذر اقبال، ص ۱۷۴
۳۱۔ محمد حنیف شاہد، نذر اقبال، ص ۱۸۱
کتابیات:
۱۔ اقبال، علامہ محمد، ۱۹۹۹ء، ’’کلیات اقبال‘‘، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن
۲۔ تاثیر، محمد دین: قرشی، افضل حق، ۱۹۷۷ء، ’’اقبال کا فکر و فن‘‘ لاہور، منیب پبلی کیشنز
۳۔ خورشید، ڈاکٹر، عبد السلام ۱۹۷۷ء، ’’سرگذشت اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکادمی
۴۔ سالک، عبد المجید، ۱۹۵۵ء ’’ذکرِ اقبال‘‘، لاہور، بزم اقبال
۵۔ شاہد، محمد حنیف، ۱۹۹۲ء، ’’سر شیخ عبد القادر، کتابیات‘‘، مقتدرہ قومی زبان
۶۔ شاہد، محمد حنیف، ۱۹۷۲ء، ’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور، بزم اقبال، کلب روڈ
۷۔ عبادت بریلوی، ۱۹۷۷ء، ’’اقبال کی اردو نثر‘‘، لاہور، مجلس ترقی ء ادب
۸۔ عطیہ بیگم، ۱۹۶۹ء ’’اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکیڈمی
۹۔ قریشی، محمد عبد اللہ ۱۹۷۷ء، ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘، لاہور، مجلسِ ترقی ادب
۱۰۔ گوہر نوشاہی، ۱۹۹۱ء، ’’ لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘ لاہور مکتبۂ عالیہ
۱۱۔ ملا واحدی، ۲۰۰۴ء، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس
۱۲۔ ممتاز حسن، ڈاکٹر، مرتبہ: ۱۹۷۳ء ’’اقبال اور عبد الحق‘‘لاہور، مجلسِ ترقی ادب
۱۳۔ نیرنگ، میر غلام بھیک، ۱۹۸۳ء، ’’کلامِ نیرنگ‘‘ کراچی، مکتبہ اسلوب
۱۴۔ ہاشمی، رفیع الدین، ۱۹۸۲ء، ’’تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و تو ضیحی مطالعہ‘‘، لاہور اقبال اکادمی
رسائل:
۱۔ احمد سلیم، ترتیب و تعارف، ۲۰۰۴ء، انتخاب مخزن، لاہور سنگِ میل
۲۔ ادب لطیف مارچ ۱۹۵۰ء
۳۔ ریاض قادر، ناصر کاظمی، مدیران، ۱۹۵۰ء ’’ اوراق نو ‘‘ خصوصی شمارہ بیاد شیخ عبد القادر
۴۔ محمد طفیل، نقوش، مکاتیب نمبر جلد اول شمارہ ۱۰۹، اپریل مئی ۱۹۶۸ء
انگریزی کتب
- K.K. AZIZ 2010. A BIOGRAPHY OF ABDULLAH YOUSAF ALI, A LIFE FORLORN, LAHORE,SANG E MEEL
- SHAIKH SIR ABDUL QADIR . EDITED BY MUHAMMAD HANIF SHAHID 2006 IQBAL, THE GREAT POET
- OF ISLAM, ISLAMABAD, LAFZ LOG PUBLICATIONS
- DR. WAHEED AHMAD, LETTERS OF MAIN FAZL.I. HUSSAIN JUNE 1976. LAHORE, RESEARCH
- SOCIETY OF PAKISTAN, UNIVERSITY OF THE PUNJAB
٭٭٭