سوچ کے نیم وا دریچے سے ۔۔۔ طارق غازی

بند گلیاں دکھائی دیتی ہیں

زرد کلیاں دکھائی دیتی ہیں

رنگ رلیاں دکھائی دیتی ہیں

 

ہاں وہ شب جس میں خواب ٹوٹے تھے

عشق روٹھا تھا، ساتھ چھوٹے تھے

جتنے سچے تھے سارے جھوٹے تھے

 

کروٹیں نیم جاں ارادوں کی

آہٹیں کچھ ہیولیٰ سازوں کی

پیچکیں سب الجھتے دھاگوں کی

 

تقویٰ روئے وہاں ریا روئے

تیرگی روئے یا دیا روئے

تم نے جو چاہا وہ کیا، روئے

 

ستم نابکار کا غم کیوں

دشت میں شاخسار کا غم کیوں

دل ویراں بہار کا غم کیوں

 

غلطی کیسی، کیا پشیمانی

شہر غفلت میں کیسی حیرانی

جوئے خوں میں وہی ہے طغیانی

 

بے سند لفظِ مختصر بھی وہی

خوف اب بھی وہی، خطر بھی وہی

درد اِدھر بھی ہے، درد اُدھر بھی وہی

 

پوچھتی ہیں الم زدہ نسلیں

اب کہو قافلے کہاں بس لیں؟

پھر بھٹک جائیں؟ پھر کمر کس لیں؟

 

رنج خوردہ زمیں سے کیا شکوہ

سجدۂ بے جبیں سے کیا شکوہ

مار کا آستیں سے کیا شکوہ

 

کشتگان فریب، لے آؤ

لاؤ، دامان و جیب لے آؤ

پھر اک اورنگ زیب لے آؤ

سوچ کے نیم وا دریچے سے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے