بد زبان عورت مظلوم ہو تو دوسری عورتیں یہ کہہ کر پلّہ جھاڑ لیتی ہیں کہ یہ ہے ہی اس قابل، نہ مردوئے کے منھ لگے نہ پٹے۔ عورت کو عورت کے درد کا احساس دو موقعوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ بیوہ ہونے پر دونوں ہاتھ پکڑ کر بٹے سے چوڑیاں توڑی جاتی ہیں تو رونے کا ایک کہرام مچتا ہے۔ دوسرے خوشی ہونے کے موقع پر، چاہے لاکھ دشمنی ہو مگر اس وقت تمام دشمنیاں بالائے طاق رکھ کر جب تک عورت نبٹ نہ جائے ایک پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ دوسرا ہے، لاجونتی سے سبھی کو ہمدردی تھی۔ چلو مان لیا عورت کو عورت کے درد کا احساس اس لیے ہو کہ ہم جنس ہونے کا ہے، لیکن مردوں کو کیا پڑی ہے؟ کہ انہیں بھی دکھ کا احساس شدید تھا، ہو سو ہو، لیکن میرا دکھ لاجونتی کے دکھ سے بڑا نہیں تو چھوٹا بھی نہیں۔ ایک تو میرا نجی غم ہجر، دوسرے لاجونتی کے کھونے سے پانے تک کا وہ عرصہ جس کا احساس ایک طویل سلسلۂ غم ہے۔ لیکن میری ہم جنس قوم کو میرے کرب کا احساس نہیں۔ ممکن ہے کہ مرد کو اپنی عورت کے مقابلے میں دوسروں کی عورتوں کا خیال زیادہ ستاتا ہے۔ روزانہ دیکھتے ہیں کہ سڑک کے معمولی حادثہ کی شکار عورت کے بچاؤ کے لیے مردوں کی بھیڑ، رانی مکھی کے لیے مدھو مکھیوں چھتہ لپک پڑتا ہے، اور بھیڑ کے ذریعہ اس آدمی کی ایسی پٹائی ہوتی ہے کہ بے چارے کی غلطی نہ ہونے پر اسے بھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ غلطی میری ہی ہے اب اس پر حجّت کیسی؟ پھر میری لاجونتی جسے میں پیار سے لاجو کہتا تھا، ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح نازک سی، دیہاتی لڑکی تھی۔ اس کا دبلا پن اس کی صحت خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، بلکہ چھوئی موئی کے پودے کی مانند سرل اور کومل کہ ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائے۔ میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا کہ لاجونتی کے گاؤں اپنے دوست کی بارات میں گیا تھا۔ میں نے سنا ’’میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی‘‘ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔‘‘ لاجونتی کا زبانی گیت اور اس کی پتلی کمر نے وہ کمال کیا کہ میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ دولہا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار، بیوی بھی چٹ پٹی ہو گی۔‘‘ یہ بات میں نے قدرے زور سے کہی کہ اس کے کانوں تک پہنچی۔ کون استری ہے کہ اپنی سندرتا کی تعریف سنے اور فریفتہ نہ ہو جائے۔ اس پل وہ بھول گئی کہ شہری بابو بھدے بوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر پتلی ہے۔ پہلی نظر کا عشق اندھا ہوتا ہی ہے، پھر نظر میلے کچیلے جوتوں پر کیوں جائے، بھاگیہ کی لکیریں بھی کس نے دیکھی ہیں۔ پہلے سے بنے بنائے منصوبوں پر ایسا پانی پھیرتی ہیں کہ نشان بھی دکھائی نہیں دیتے۔ پہلی ہی نظر میں لاجو گرویدہ ہو گئی، بھلے ہی میں سندر نہ سہی لیکن نام تو سندر لال ہے اور بیاہ کر گھر آ گئی۔
وہ پتلی دبلی اور میں بھاری بھرکم، یہ دیکھ کر پہلے تو میں گھبرایا اور سوچنے لگا کہ اس کی نازکی ایسی ہے کہ زیادہ دھوپ سے رنگ سنولا جائے، طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ بن کر ایک بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر، کبھی ادھر لڑھکتا رہتا تھا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مار پیٹ سہہ سکتی تھی تو میری بد سلوکی بہ تدریج بڑھتی گئی اور میں نے ان حدوں کا خیال ہی نہیں کیا جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا تھا، لیکن ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی معاون ثابت ہوئی تھی۔ اسی لیے تو بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی میرے صرف مسکرا دینے پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی تھی اور ایک اشارے پر میرے قریب چلی آتی تھی اور گلے میں باہیں ڈال کر کہتی ’’پھر سے مارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی۔‘‘…اس سلوک سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ایک دم ساری مار پیٹ بھول گئی ہے۔ چوں کہ وہ گاؤں کی دیگر لڑکیوں کی طرح یہ جانتی تھی کہ مرد تو ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ اکثر سر کش عورتیں ایسا ماننے سے انکار کرتیں تو دوسری عورت ’’اس کی ناک پکڑ کر کہتی کہ ایسا کوئی مرد ہی نہیں ہے کہ عورت اس کے قابو سے باہر ہو۔‘‘ گویا مرد عورت پر حاکمیت کا درجہ رکھتا ہے اور محکومیت عورت کی فطرت ہے، تب ہی تو لاجونتی میری بد سلوکی کو برداشت کرتی تھی یا اس کو میری سختی کی عادت ہو گئی تھی، اور میں نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی… اس کے جگہ بے جگہ اٹھنے بیٹھنے، کھانے کی طرف سے بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اس کے مغویہ ہو جانے کے بعد مجھے ہر ہر لمحے، میرے ظلم و ستم اور اس کی مظلومیت…نہ…نہیں، نہیں … اس نے مظلوم سمجھا ہی نہیں …بلکہ ظلم سہنا اپنا کرتویہ سمجھا…اس کی معصومیت بہت یاد آتی ہے …جانے وہ کہاں ہو گی، کس حال میں ہو گی، ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہو گی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں …؟ نہیں …نہیں، مجھے بھگوان پر بھروسہ ہے۔ بھگوان کبھی برا نہیں کرتا۔ یہ تو کھیل اتہاس کا ہے … بٹوارہ تو سچ مچ ہو گیا…لیکن، لیکن دانشمندوں کے تغلقی فیصلے نے مٹی کو خون آلود کر دیا تھا… ہجرت، ہوئی، بے شمار انسان مارے گئے اور عورتوں کی چھینا جھپٹی مالِ مفت کی طرح ہوئی…بے رحمی چاروں اور ہوئی۔ بٹوارہ کے بعد سکون بھی ہونا تھا، اور ہوا بھی۔ بے شمار زخمی لوگوں نے اٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی…لیکن اس کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے، زندگی ہے تو جینا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ اپنی مرضی سے یا مجبوری سے۔۔۔۔۔ تاریخ کی قسمت میں ایسی ٹیڑھی میڑھی لکیریں ہیں جو انسانوں کے خسارے سے بھری پڑی ہیں۔۔۔۔ در اصل تاریخ ٹیڑھی، میڑھی الجھی لکیروں کا گچھا ہے، کسے شمار کیا جائے۔ مورّخ کہتا ہے کہ عروج و زوال کی کہانیوں سے تاریخ بنتی ہے۔۔ بگڑتی ہے … لیکن بھگتنا تو انسانیت کو پڑتا ہے۔
فلاحی کام کرنے کے لیے ’’گھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں تشکیل ہوئیں۔ شروع شروع میں تیز رفتاری سے کام چلا۔ ’کاروبار میں بساؤ‘، ’زمین پر بساؤ‘ اور ’گھروں میں بساؤ‘ کے پروگرام شروع ہوئے، لیکن ایک بڑے مسئلے کی طرف کسی کی نظر نہیں گئی کہ کوئی ایسا پروگرام بنایا جائے جو کہ مغویہ عورتوں کے سلسلے میں ہو جس کا نعرہ ہو ’دل میں بساؤ‘ جیسے ہی اس کی گونج نارائن بابا کے مندر اور آس پاس رہنے والے قدامت پسند طبقے کے پاس پہنچی تو اس کی بڑی مخالفت ہوئی، بات ان کی کچھ حد تک صحیح بھی تھی…سیتا ماں دیوی سروپ بن باس کے بعد واپسی پر ساکچھات بھگوان شری رام چندر نے اگنی پریکشا سپھل سیتا جی کو لکچھمن کے دوارا جنگل میں دوبارہ چھڑوا دیا تھا، کیوں؟ اس لیے کہ ایک دھوبی جب اپنی دھوبن کو یہ کہہ کر مار رہا تھا کہ میں رام تھوڑی ہوں جو تو ایک رات باہر بتا کر آئے اور میں تجھے دوبارہ گھر میں بسالوں۔ دھوبی ایک معمولی آدمی تھا اور بھگوان رام ایک پرشوتم کی مان مریادہ بڑی تھی، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسا درد لے کر زندگی بھر جیتے جو ان کی چاروں دشاؤں چلتا، پھرتا اور منڈلاتا نظر آتا۔ لیکن اس قدامت پسند طبقے کو یہ ضرور سوچنا تھا کہ وہ انسان ہیں، تیاگ اور بلیدان انہیں کا کرتویہ ہے۔ دیوتا تو… پھر دیوتا ہوتا ہے۔ اپنی چہیتی سنگنی اور آگیہ کاری پتنی کو چھڑوا دینا کیا تیاگ کی پری بھاشا میں نہیں آتا…قصور تو راون کا ہے کہ ایک مہان پنڈت اور گیانی برہمن جاتیہ کا ہوتے ہوئے سیتا کو بھیس بدل کر چرا کر لے جانے کا ساہس کیا… لیکن کیا کیا جائے، برہمن اور چھتری میں کچھ تو امتیاز کرنا ضروری بنتا ہے۔
بہر حال انسانوں کی بستی اور دیوتاؤں کے سنسار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مندر کے پاس محلہ ملا شکور میں ایک کمیٹی قائم ہو گئی، وکیل صاحب صدر اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے مجھے اس کمیٹی کا سکریٹری چن لیا گیا۔ شاید اس لیے کہ میری اپنی بیوی اغوا ہو چکی تھی اور لوگوں کا خیال تھا کہ میں جس قدر تندہی سے کام کر سکتا ہوں اتنا کوئی دوسرا نہیں …آخر میں نے اپنی لاجو …کو کھویا ہے، اس کا درد جس قدر مجھے ہو گا کسی دوسرے کو کیسے ہو سکتا ہے؟
چنانچہ پر بھات پھیری نکالتے ہوئے۔ میں، میرا دوست سالو اور نیکی رام جب مل کر یہ گیت گاتے ’ہتھلائیاں کمھلاں تی لاجونتی دے بوٹے‘…تو میری بولتی اچانک بند ہو جاتی اور میں چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچنے لگتا۔۔۔۔ پربھات پھیری کے سمے مجھے لاجو کی یاد کچھ زیادہ ہی ستاتی…سوچتا کاش میری لاجونتی مل جائے تو سچ مچ ہی دل میں بسا لوں گا۔۔۔۔ اور دنیا کو بتا دوں گا کہ ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہو جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں، فسادیوں کی ہوسناکیوں کا شکار ہو جانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں …وہ سماج جوان عورتوں کو اپنانے میں آنا کانی کرتا ہے ایسے گلے، سڑے سماج اور ان لوگوں کو ختم کر دینا چاہیے جو ان عورتوں کو عزّت دینے کے لیے ایسی تحریک دیتا جو گھر میں کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دی جاتی ہے …اور ’’انہیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں۔‘‘ کیوں کہ ان کے دل زخمی ہیں، وہ نازک ہیں چھوئی موئی کی طرح…ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گی……
غرض ’دل میں بساؤ‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلہ ملا شکور کی کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں، صبح اوّل وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا ہے۔۔۔۔۔ نہ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ، نہ ٹریفک کی الجھن، نہ رات میں چوکیداری کرنے والے کتّوں کا شور، اپنے اپنے بستروں میں دبکے پڑے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سن کر کراہیت سے کہتے ’’او! وہی منڈلی ہے!۔‘‘وہ عورتیں جو بڑی حفاظت سے اس پار اپنے گھروں میں پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح بستر پر پڑی تھیں اور ان کے خاوند پہلو میں ڈنٹھل کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ ہی منھ میں کچھ منمناتے۔۔۔۔۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں کھولتا اور ’دل میں بساؤ‘ کے فریادی اور اندوہ گیں پروپیگنڈے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سو جاتا۔
لیکن مجھے بستروں میں دبکے لوگوں کی کراہیت /خفگی سے کیا لینا دینا۔ جس پر بیتتی ہے وہی اس درد کو جانے، جن کی عورتیں محفوظ واپس آ گئیں، انہیں کس بات کا غم۔۔۔۔ چوں کہ وہ تو اپنی پتنی کی مستی میں چور ہیں۔ غم تو میرا بڑا ہے کی میری پتنی…میری لاجو میرے ساتھ نہیں۔ وہ محفوظ بھی ہے یا غیر محفوظ بھگوان جانے۔۔۔۔ بچے تو پھر بچے ہیں جو میرے دل کی پکار کو گیت سمجھتے ہیں۔ دکھ تو بڑوں کا ہے کہ وہ بھی میرے درد اور میری ٹیس کو نہیں سمجھ رہے۔
ایک شام کو کمیٹی والوں کا جلوس قدامت پسندوں کے گروہ میں پہنچ گیا۔ مندر کے باہر پیپل کے پیڑ کے نیچے شردھالو رامائن کی کتھا سن رہے تھے۔ شری رام چندر جی نے گربھ وتی مہا ستونتی بٹیا کو گھر سے نکال دیا۔ یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پنڈت جی کے اس فقرے کو سن کر میں تنک گیا اور ترنت کہا ’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا۔‘‘شردھالوؤں میں ہڑبونگ سا مچ گیا، کسی نے چپ رہنے کی دھمکی دی اور مجمع سے ایک آدمی نے زور سے کہا ’ہم تجھے مار دیں گے۔‘
نارائن بابا نے بڑے پیار سے کہا ’تم شاستروں کی مان مریادہ کو نہیں سمجھتے سندر لال۔‘، ’میں تو ایک بات سمجھتا ہوں بابا۔ رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘
جو لوگ مارنے پر تلے تھے ایک دم شانت ہو گئے۔
میں نے کہا شری رام نیتا تھے ہمارے پریہ کیا بات ہوئی بابا جی…کہ انہوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ جانا اور مہارانی کی سچائی پر وشواس بھی نہیں کیا۔
تم نہیں سمجھو گے سندر لال…یہ رام چندر جی کا تیاگ ہے کہ ان کی پرجا کے ایک معمولی ویکتی کی آواز پر اتنا بڑا فیصلہ لے لینا، کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔
’ہاں بابا…ایسا تیاگ تو دیوتا ہی کر سکتے ہیں! نہ جانے ایسی کتنی ہی باتیں دھرم اور سنسار کی میری سمجھ میں نہیں آتیں …مجرم صاف بچ نکلتا ہے اور سزا ملتی ہے بے گناہ کو۔۔۔۔۔ مجھے تو کیول اتنا بتا دیا جائے کہ کیوں رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا چوں کہ دشٹ راون نے چھل کپٹ سے اغوا کیا۔ …تو ماتا سیتا کی غلطی کیسے ہو گئی؟ …مجھے ست یگ کا یہ نیائے کل جگ جیسا کالا ادھیائے لگا…مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کتّا معصوم فاختہ کو دبوچے اور قصور فاختہ کا کہلائے … مہا راج میں تو رام راج اسے سمجھتا ہوں جس میں ہر فرد کو انصاف اور برابری کا حق ملے … ’’آج ہماری نردوش سیتا گھر سے نکال دی گئی ہے۔ سیتا… لاجونتی… میری لاجو…‘ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے میرے دل کو کسی نے کس کے دبوچ لیا ہے۔ ’سالو اور نیکی رام سرخ جھنڈا اٹھائے ’’سندر لال بابو زندہ باد!‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھیڑ کے آگے چل دیئے۔ جلوس ہی میں سے ایک نے کہا ’’مہا ستی سیتا زندہ باد!‘‘ اور ایک طرف سے آواز آئی … ’’شری رام چندر‘‘ اور پھر بہت سی آوازیں آئیں …اس طرح نارائن بابا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ شردھالوؤں کا مجمع بھی بھیڑ میں شامل ہو گیا۔
ابھی صبح بھی نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔ ’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دلے بوٹے۔‘‘ گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی کہ لال چند دوڑا دوڑا آیا اور بولا ’’بدھائی ہو سندر لال‘‘
’’کس بات کی بدھائی لال چند‘‘
’’میں نے لاجو بھابھی کو واگہہ سر حد پر دیکھا ہے‘‘
میں یہ خبر سن کر چونک گیا اور اس کا کاندھا پکڑ تے ہوئے کہا ’’بھائی کوئی اور ہو گی‘‘
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو‘‘
’’تم اسے پہچانتے ہو‘‘ میں نے بے یقینی کا اظہار کیا۔
’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی!…ایک تیندولہ تھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر‘‘ اس نے روا روی میں کہا۔
’’ہاں ہاں ہاں …اور تیسرا ماتھے پر…میں نے یقین اور بے یقینی کے ملے جلے احساس سے چونکتے ہوئے کہا…ایک ہی پل میں مجھے لاجو کے جسم کے تمام تیندولے یاد آ گئے جو اس نے اپنے جسم پر بچپنے میں ہلکے ہلکے سبز رنگ کے دانوں کی طرح سجا لیے تھے، جیسے چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں، اور جب بھی میں ایک تیندولے پر انگلی رکھتا تو وہ چھوئی موئی کے پودے کی طرح شرما جاتی…جیسے اس کے چھپے ہوئے خزانے کا راز فاش ہو گیا ہو، اور اس کے لٹ جانے سے وہ مفلس ہو گئی ہو…میرا سارا جسم ایک انجانے خوف اور محبت کی مقدس آگ میں جلنے لگا اور لال چند کو پھر سے پکڑ کر پوچھا ’’لاجو واگہہ کیسے پہنچ گئی‘‘
’’ہندوستان اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا ہے‘‘ لال چند نے اطلاع دی۔
سالو نے تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے قطع کلامی کی ’’کیا سچ مچ آ گئی لاجونتی بھابھی‘‘
لال چند نے تفصیل سے بات بتاتے ہوئے کہا ’’واگہہ میں پاکستان نے سولہ عورتیں دے دی ہیں اور اس کے بدلے میں سولہ عورتیں لے لی ہیں۔ وہاں جھگڑا یہ پڑ گیا ہے کہ ہمارے والنٹیروں نے اعتراض کیا ہے کہ جو تم نے عورتیں دی ہیں وہ ادھیڑ اور بوڑھی، بے کار عورتیں ہیں۔ جب کہ ہم نے تمہیں کار آمد اور جوان عورتیں دی ہیں …اس جھگڑے پر وہاں لوگ جمع ہو گئے۔ ان کے والنٹیروں نے لاجو بھابھی کو دکھاتے ہوئے کہا ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ ’’دیکھو۔۔۔۔ دیکھو…جتنی عورتیں تم نے دی ہیں ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی؟ … ’’اس سمے خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لاجو بھابھی سب کے سامنے اپنے تیندولے چھپا رہی تھیں۔‘‘
’’پھر جھگڑا بڑھ گیا…دونوں نے اپنا مال واپس لینے کی ٹھان لی، میں نے شور مچایا… ’’لاجو … لاجو بھابھی…‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کر بھگا دیا، اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا۔
میں سوچنے لگا لاجو آئی بھی پر نہ آئی…سالو اور نیکی رام مجھے دیکھ رہے تھے، اور میں نظریں بچاتے ہوئے ادھر، ادھر دیکھ رہا تھا۔۔ میرا منھ خشک ہو گیا، ایک حرف بھی زبان سے نہیں نکلا۔ لگتا ہے کڑی دھوپ میں ریگستان کے لمبے سفر کے بعد پیاس اور گرمی کی شدت سے زبان لٹک جاتی ہے، اور بولنے پر کانٹے چبھنے لگتے ہیں۔ میرے لیے تو صورت بٹوارے کے بعد بھی ویسی ہی ہے جیسی بٹوارہ کے وقت پریشان کن تھی۔ آج موت کا چرچہ ایسا عام ہو گیا ہے کہ اگر کسی سے پوچھو کہ سانبھر والا میں لہنگا سنگھ کی بھابھی نیتو کا کیا ہوا… ’’مر گئی‘‘ جھٹ سے کہتا ہوا آگے نکل جاتا ہے جیسے ’’موت اور مرتیو‘‘ کے ارتھ سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان ایسا غیر جذباتی اور احساس سے عاری ہو گیا ہے کہ اس کے سامنے موت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پورا سنسار بازار بن گیا ہے اور آدمی تاجر ہو گیا ہے کہ وہ انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ ایسے کر رہا ہے جیسے مویشیوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ جانوروں کا جبڑا کھول کھول کر دیکھنا کہ کتنے دانتوں کا ہے۔ اس تجارتی سنسار کی بے شرمی دیکھ کر پرانے زمانے میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فروخت کا قصہ یاد آتا ہے کہ جیسے ازبیک (ترک قوم کا ایک قبیلہ کا بادشاہ)ان گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے جسموں کے اعضا کو ٹٹول کر دیکھ رہا ہے۔۔۔۔ اور نا قبول کرتے ہوئے آگے گزرتا جاتا ہے اور وہ بے چاری عورت قبولِ شکست اور شرمندگی کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازاربند تھامے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے، سسکیاں لیتی ہے۔ بالکل وہی حال ان مغویہ عورتوں کا ہے … اس سے زیادہ برا حال ان مغویہ عورتوں کا ہے جن کے شوہروں، ماں، باپ، بہن بھائیوں تک نے ان کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ آخر مر کیوں نہ گئیں؟ …اپنی غیرت اور عصمت کو بچانے کے لیے زہر کیوں نہ کھا لیا، کنویں میں چھلانگ لگا دیتیں۔ دیوار و چھت سے کود کر جان دے دیتیں۔ یہ کیسا عجیب و غریب درد ناک منظر ہے کہ چھوٹے بھائی کی پرورش ایک ماں کی طرح کی۔ اسے گود میں کھلایا، بچپن کی باتیں یاد دلائیں، پھر بھی اس نے دیکھنے سے انکار کر دیا۔ شوہر جن کی خاطر ماں، باپ، بہن، بھائی سبھی کو چھوڑ کر اس کا گھر آباد کیا، اس نے بھی آنکھیں پھیر لیں …راون تو دشٹ تھا…غیر تھا… ظالم تھا، لیکن اپنوں کے اس ظلم اور وحشی پن کو کہاں رکھو گے، ان کا یہ عمل کیا بادشاہ ازبیک اور راون کے ظالمانہ سلوک سے کم ہے۔ اس سوچی میں نارائن بابا جیسے بھی شامل ہیں …لیکن… م۔۔۔۔ یں۔۔۔۔ کسی کی بھی نہیں مانوں گا۔۔۔۔ میری لاجونتی …لاجو…میری سنگنی۔ اسے وہ درجہ دوں گا جس کی حقدار ہے۔ اب میں اسے کبھی نہ ماروں گا، نہ پیٹوں گا…اسے پیار دوں گا۔۔۔۔ مان دوں گا، اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا۔
کیا میری لاجونتی…میری پتنی مل جائے گی؟ …یا میری تقدیر میں اس کا ملن نہیں ہے۔
اچانک لاجو کے آنے کی خبر ملی، میں ہکا بکا رہ گیا۔ پل بھر کے لیے میری زبان گنگ ہو گئی۔ نہ کچھ کہتے بنا اور نہ کچھ سنتے ہی بنا۔ زمین پر پاؤں نہیں جم رہے تھے۔ آس پاس سہارے کے لیے کوئی ایسی چیز بھی نہیں تھی جسے پکڑ لوں۔ میں نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی، اور اپنی اندرونی کشمکش کا مقابلہ کرتے ہوئے زمین پر سختی سے پاؤں جمائے اور سیدھا چوکی کلاں چل دیا جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی ہے …
لاجونتی سامنے کھڑی تھی اور ایک جانے پہچانے خوف سے کانپ رہی تھی۔ چوں کہ وہ جانتی تھی کہ چھوٹی موٹی باتوں پر بھی سندر اس کے ساتھ مار پیٹ کرتا تھا، اب جب کہ وہ غیر مرد کے ساتھ زندگی کے دن بتا کر آئی ہے تو مار ہی ڈالے گا…میں نے لاجونتی کی طرف دیکھا، وہ مسلمانی طرز کا لال ڈوپٹّہ بائیں بکّل مارے اوڑھے تھی۔ ہندو اور مسلمان کی تہذیب اور معاشرت کے فرق سے بھی ناواقف تھی۔ دائیں بکّل یا بائیں بکّل اوڑھے جانے کا امتیاز کرنے سے بھی قاصر تھی۔ وہ میرے سامنے خوف و امید کے جذبہ کو آنکھوں میں لیے کھڑی کانپ رہی تھی۔
مجھے یہ دیکھ کر دھچکا سا لگا تھا کہ لاجونتی کا رنگ اور نکھر گیا ہے، پہلے سے زیادہ صحت مند ہو گئی ہے۔ یہ سب میری سوچ کے خلاف تھا کہ وہ میری یاد میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی ہو گی، اس قدر مریل کہ منھ سے آواز نکالے نہ نکلتی ہو گی۔ شاید پاکستان میں جہاں بھی رہی ہو وہاں خوش رہی ہو گی، آنا نہ چاہتی ہو، حکومتِ ہند کے دباؤ میں آئی ہو…میں یہ سب دیکھ کر خاموش رہا جیسے نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہو۔۔۔۔۔ اس کی صحت مندی نے ذہن میں بہت سے سوالات قائم کر دیئے۔ بہ ظاہر اس کا تندرست ہونا ایسا تھا کہ دو قدم چلنے پر سانس پھولنے لگتا ہے، وہ غم کی کثرت کی وجہ سے موٹی ہو گئی تھی…مجمع کے اندر سے تیکھی آوازیں آ رہی ہیں۔ ’’مسلمران (مسلمان) کی جوٹھی عورت نہیں لیں گے۔‘‘…لیکن میری مردانگی نے ان مخالفتوں کا مقابلہ کیا اور ان آوازوں کو چیرتے ہوئے لاجو کو لے کر گھر کی اور قدم بڑھا دیئے …ایک بے معنی خوشی اور جیت کا احساس میرے دل میں جگمگا رہا تھا کہ ہزاروں سال پہلے جو اپنی جانکی کو جھوٹی پرمپراؤں کے جنگل میں چھوڑ آیا تھا اسے دوبارہ ایودھیا واپس لا کر میں نے پرانے اتیہاس میں ’’بن باس کے بعد‘‘(افسانہ، احمد رشید)کے عنوان سے ایک نیا ورق جوڑ دیا ہے۔
لاجونتی کی گھر واپسی کے بعد زندگی کی ایک نئی شروعات ہوئی، وہ بہت خوش تھی، لیکن کچھ ہی روز میں اس کی خوشی کی چاندنی پھیکی پڑنے لگی تھی۔ دن بہ دن زیادہ بولنے اور مسکرانے کی عادت کم گوئی میں بدل گئی۔ وہ بجھی بجھی سی رہنے لگی، پھر اس کے ہونٹوں پر آہستہ آہستہ چپ سی لگ گئی، شاید اس کی وجہ میں ہی ہوں۔ مجھے لاجونتی سے محبت ہونے کے باوجود مزاج میں محتاطی آ گئی تھی، اور محبت عملی اور گویائی اظہار کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے لیے میرے برتاؤ میں شائستگی آ گئی تھی، ہمدردی اور حسنِ سلوک سے رشتہ زیادہ ہو گیا تھا۔ ہر وقت اس کے لیے اچھا سوچنا، اچھا کرنا میری زندگی کا منصوبہ اور مقدر بن گیا تھا۔ جب کہ جذبۂ عشق نہ منصوبہ کا قائل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی مقصد سے اس کا واسطہ ہوتا ہے۔ اس کے مغویہ ہو جانے پر اس نے جو مصیبتیں اور اذیتیں جھیلی ہیں اس کے لیے میرے دل میں پریم پوجا کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ لیکن لاجونتی پتنی سے دیوی سوروپ میں بدلنے سے دکھی رہتی ہے، مگر میں بھی کیا کروں جب بھی اس کے قریب آنے یا چھونے کی کوشش کرتا ہوں کوئی تیسرا مضبوط ہاتھ ایک ہی جھٹکے میں مجھے الگ کر دیتا ہے۔
لیکن مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں نے اپنی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کر لیا تھا۔ پہلے میری عادت ’’لاجو‘‘ کہہ کر پکارنے کی تھی، لیکن اب عزت و مان کے ساتھ دیوی کہنا شروع کر دیا ہے۔ شروع شروع میں وہ بہت خوش ہوئی لیکن بعد میں وہ اس سوچ وچار میں رہنے لگی کہ وہ کیسے اپنی آپ بیتی سنائے جو اغوا ہونے کے بعد اس پر گزری ہے۔ میرے غیر متوقع نرم رویے سے وہ آہستہ آہستہ کھلنے لگی یا یوں کہہ لیجئے جو ایک ڈر سا اس کے دل و دماغ پر شروع سے غالب تھا اب وہ زائل ہونے لگا تھا۔ لیکن میں ان تمام بیتی ہوئی باتوں کو لاجونتی کی زبانی سننے سے گریز کرتا، کیوں کہ ان کا خیال آتے ہی میرے دل میں نفرت اور غیرت کی ملی جلی کیفیت پیدا ہونے لگتی۔ سوچتا ہوں، جو بھی ہو بہر حال غیر مرد تھا وہ بھی مسلمان…میری لاجو جس کے جسم و جاں صرف میرا ہی ادھیکار ہے، اس نے میری ہی طرح اسے چھوا ہو گا …چوما ہو گا، لپیٹا ہو گا۔ بس یہ سوچ کر دل و دماغ میں بے چینی سی پیدا ہو جاتی ہے …مگر اس میں لاجونتی کا کیا قصور؟ ایک بے بس پرندہ کی طرح بھیڑیئے کے چنگل میں …پرندہ تو وہ کرے گا جو بھیڑیا چاہے گا۔ پھر بھی ایک دن میں نے لاجونتی کے سیاہ دنوں کے بارے میں پوچھ ہی لیا۔
’’کون تھا وہ‘‘؟ …
اور لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا ’’جمّاں‘‘ اس کے سر کو دھیرے دھیرے سہلاتے ہوئے چہرے پر عجیب سی اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔
’’دیکھنے میں کیسا تھا؟‘‘
’’بس ٹھیک ٹھاک تھا، چوڑا چکلہ سا‘‘
’’مارتا تو نہیں تھا‘‘
لاجونتی نے اپنا سر میری چھاتی پر رکھتے ہوئے کہا ’’نہیں‘‘ پھر بھی مجھے اس سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا۔
تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی…اب تو نہ مارو گے؟‘‘
میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور بے اختیار منھ سے نکلا۔۔۔۔ ’’نہیں دیوی! اب نہیں …اب کبھی نہیں ماروں گا‘‘ میرے لہجے میں شرمندگی اور افسوس کا اظہار تھا۔
پھر ہم دونوں ہی آنسوؤں کی باڑھ میں بہہ گئے …لاجونتی وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی جو اس کے دل میں تھا۔ لیکن میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’اب چھوڑو بیتی باتوں کو جو گزر گیا اس کا ذکر کیا کرنا، تمہارا تو اس میں کوئی قصور نہیں، اور جن کا قصور ہے انہیں تو ہمارا بھگوان دیکھے گا۔‘‘…کتنا آسان ہے یہ سب کچھ کہہ دینا، میری اس تکلیف اور درد کا احساس ایک کینسر زدہ ہی کر سکتا ہے۔ میں سوچنے لگا نہ تو زنجیرِ وقت کا وہ حصّہ کسی بھی چھری سے کٹ سکتا ہے اور نہ ہی مٹی کے بدن پر وہ دھبّے، کسی آگ میں پگھل کر یا پانی میں دھل کر صاف ہو سکتے ہیں۔
لاجونتی اپنے من کی بات کبھی سندر لال سے نہ کہہ سکی، بلکہ اپنے بدن کو سمیٹے سوچتی رہتی کہ بٹوارہ کے بعد استری کا یہ بدن تو ایک دیوی کا بدن ہونے کی سرشاری میں بہت خوش ہوں۔ اب میں نے اس بدن کی آواز کو سننا بھی چھوڑ دیا ہے جو سندر لال کی انگلیوں کے لمس سے گنگنانا شروع کر دیتا تھا۔ اس کے دماغ پر شک اور وسوسے کی ایسی چادر تن گئی ہے کہ اسے ہٹانا مشکل ہو گیا ہے۔
لاجو چلی گئی ایک لمبی یاترا پر۔۔ پہلے میرے آس پاس منڈلاتی تھی۔ اب وہ دیوی میرے دل میں رہتی ہے۔ پھر بھی میں دکھی ہوں!؟ …لاجونتی سے دیوی بننے کا سفر میری آنکھوں میں قید ہے، پھر بھی مجھے قرار نہیں …اس لیے میرے سر پر نہ پھٹنے والے جدائی کے بادل چہار سو گھرے ہوئے ہیں، اور جب وہ برستے ہیں تو میری آنکھوں سے جھڑی سی لگ جاتی ہے۔ اس سنسار میں اکیلا ہوں، بالکل تنہا سا آدم کی طرح جو بھٹکے تھے اپنی حوّا کے لیے …ملنے اور بچھڑنے کے اس پرانے کھیل نے آدمی کا سکوت و سکون غارت کر دیا ہے …میں نے بھی عمر کی اس دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے جہاں قوتِ سماعت و بصارت فوت ہو جاتی ہے۔ اب تو کسی بھی عمر کی عورت کی آواز سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی صورت دکھائی دیتی ہے۔ نہ کوئی مرد ایسی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کوئی عورت اسے دیکھے …پھر بھی سیاہ بادلوں کی اوٹ سے دو خوبصورت پیاسی آنکھیں شکایت بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہتی ہیں، اور میں اندر ہی اندر شرمندگی سی محسوس کرتا ہوں۔ یہ سوچ کر کہ ’’جمّاں‘‘ اس لیے دانو ہے کہ اس نے چھوئی موئی بدن کو چھوا، اور میں بہت بڑا دشٹ اس لیے ہوں کہ کنول جیسے پھول بدن کو میں نے کیوں نہیں چھوا…مجھے بھی لاجو کی طرح دیکھنا تھا، سوچنا تھا کہ انسان جو لافانی ہے اور بے وفا ہوتا ہے اور آتما امر اور اجّول ہوتی ہے۔
٭٭٭