ممکن ہے کہ یہ عنوان جدید دور میں خصوصاً نوجوان قارئین کو عجیب لگے کہ بھئی سب کو پتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں اکثریت اس بنیادی نکتے سے آگاہ نہیں کہ دنیا بھر میں لسانی مسائل ایک زبان سے دوسری زبان تک مختلف ہو سکتے ہیں، مگر یہ مسئلہ اب تقریباً ہر بڑی زبان کو درپیش ہے کہ اصل رسم الخط اور بولی ٹھولی کو، کسی بھی وقتی یا عارضی دِقّت کے سبب، پس پُشت ڈال کر انگریزی سے مِلا کر (یعنی Mixکر کے) بولا اور لکھا جا رہا ہے، جسے عموماً Minglish کہا جاتا ہے یعنی انگریزی کا وہ رُوپ [Version] جو کسی مقامی زبان سے مل کر بنا ہو اور معیاری انگریزی سے مختلف ہو (English mixed with a local language)۔ بعض ممالک یا علاقوں میں اسے اپنے مقامی اثرات کے سبب، کچھ اور نام بھی دیا جاتا ہے جیسے ہانگ کانگ، مَکاؤ، گوانگ دونگ اور گُوانگ چی [Hong Kong, Macau, Guangdong and Guangxi]کے چینی علاقوں میں روایتی کینٹونیز کے زیرِ اثر [Cantonese-influenced Englis]، یا اُس سے مخلوط، کھچڑی انگریزی کو Chinglish کہتے ہیں۔ تھائی لینڈ کے عوام انگریزی پر اپنی زبان کی یوں چھاپ لگاتے ہیں کہ اُن کی انگریزی کو Tinglish کہا جاتا ہے۔ مالٹا میں مقامی زبان مالٹیز کے اختلاط سے انگریزی کی وہ شکل بنی کہ اسے مِنگلش کے علاوہ کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے: Maltenglish, also known as Manglish, Minglish, Maltese English, Pepè or Maltingliz۔ اس سے قطع نظر، امریکی انگلش کے ایک مقامی لہجے Appalachian English کو اَمیرکِش [Amerikish] کہا جاتا ہے، مگر اس میں ویسی تبدیلیاں نہیں جیسی ہم پاکستانی یا ہندوستانی کرتے ہیں۔ ہندوستانی خواندہ افراد ویسے بھی فرنگی کی زبان میں من پسند تبدیلیاں کرتے ہیں اور بہت کچھ کر چکے ہیں۔ اُن کی زبان British-Indian-English یا مختصراً Binglish کہلاتی ہے۔ پاکستانی انگریزی میں بھی تحقیق کا بہت سا مواد موجود ہے، مگر ابھی اُسے کوئی نام نہیں دیا گیا۔
جب ایک زمانے میں ہندوستانی ٹی وی چینل ’زی ٹی وی‘ کی نشریات کا آغاز ہوا اور مقامی زبان یعنی اردو۔ یا۔ ہندی/ہندوستانی میں زبردستی انگریزی الفاظ اور فقرے ٹھونس کر بولے جانے لگے تو اُسے ذرائع ابلاغ نے Zinglish اور Hinglish کا نام دیا۔ ان عنوانات کے تحت مختصر مضمون اور مراسلے بھی خلیجی ممالک کے انگریزی اخبارات کی زینت بنے۔ اب کچھ سال سے مراٹھی +انگریزی کو کھچڑی زبان کے طور پر Minglish کہا جانے لگا ہے۔
اب ایمانداری سے جائزہ لیں تو ہماری زبان بھی اردو سے زیادہ ایسی انگریزی زدہ، مخلوط زبان ہو چکی ہے جسے ماضی میں Urdish اور Minglish کہا جاتا تھا، پھر خاکسار نے اسے Burgerish کا نام دیا اور بعض حضرات اسے Paklish/Pinglish کہنا پسند کرتے ہیں۔
اس ساری تفصیل سے قطع نظر جب کہیں کسی جگہ، کسی ملک میں ایک سے زائد قومیں مل جُل کر رہتی ہیں اور اُن کے بیچ زبان کا معاملہ شعوری یا غیرشعوری اختلاط کے طفیل دیگر سے مختلف ہو جاتا ہے، ایک نئی بولی جنم لیتی ہے تو اُسے ’خیول‘ یا کریول کہتے ہیں۔ زباں فہمی کے کسی مضمون میں خِیول۔ یا۔ کریول [Creole] کا ذکر مختصراً کر چکاہوں، ماریشس کے باب میں قدرے تفصیل بھی لکھی تھی۔ اس کی تعریف یہاں مزید تفصیل سے دُہراتا ہوں تاکہ مفہوم واضح ہو سکے:
A creole is a language that comes from a simplified version of another language, or the mix of two or more languages. In Haiti, people speak a creole that’s mostly based on French. When a new language is a variation on one or more older languages, you can call it a creole.
مفہوم یہ ہے کہ خِیول یا کریول کسی دوسری زبان کا ایک سادہ سا بہروپ یا دو (یا زائد) زبانوں کے ملاپ سے معرض وجود میں آنے والی بولی ہے۔ ہَئیتی کے لوگ فرینچ زدہ خِیول بولتے ہیں۔ مزید وضاحت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک یا زیادہ قدیم زبانوں کے تغیر سے یہ بولی بنتی ہے۔ یہ اصطلاح پہلے پہل فرینچ سیاح مِیشیل ژاژولے [Michel Jajolet, sieur de la Courbe] نے 1685ء میں استعمال کی تھی، جب وہ اپنے سفر نامے میں سینی گال (افریقہ) میں پُرتَگِیز کے زیر اَثر بولی جانے والی زبان کی نشان دہی کر رہا تھا۔ یہ اصطلاح اٹھارویں صدی تک کسی دوسری زبان کے لیے استعمال نہیں ہوئی، نیز 1825ء کے بعد تک اس کا وسیع استعمال انگریزی زبان میں بھی نہیں تھا، جبکہ اس کی جگہ ’پاتوئی‘ [patois] مستعمل تھی۔ مزید معلوم ہوا کہ اصل اصطلاح در حقیقت امریکاز میں موجود اسپین اور پرتگال کی نوآبادیات میں وضع کی گئی اور سولہویں صدی تک اس کا اطلاق اصل ہِسپانوی، پُرتگِیز اور اَفریقی نژاد لوگوں سے اِنہی کی مخلوط نسل کو الگ کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ اس بنیاد کے بعد وہی ذکر آتا ہے (محولہ بالا) کہ سترہویں صدی کے آغاز میں پہلے فرینچ، پھر انگریزی میں یہ اصطلاح امریکی اور بحر ہند کی نوآبادیات میں پیدا ہونے والے افریقی یا یورپی نژاد لوگوں کے لیے استعمال ہوئی۔ یہی اصطلاح وسیع تناظُر میں انہی خطوں میں پائے جانے والے پودوں، جانوروں اور رسم و رواج کے لیے بھی استعمال ہونے لگی تھی۔ (بحوالہ انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا)۔ ملائیشیا میں قومی زبان مالے یا ملائی اور انگریزی کے ملاپ سے بننے والی خیول کو Manglish کہا جاتا ہے۔
اوپر کی یہ تمام گفتگو بظاہر ہمارے عنوان سے تعلق نہیں رکھتی، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب کوئی زبان یا کچھ زبانیں اس طرح کسی علاقے، شہر یا ملک کے باشندوں کی مقامی بولی ٹھولی پر اثر اَنداز ہوتی ہیں کہ وہ ایک نئی بولی بولنے لگتے ہیں جو کہیں کہیں ترقی کر کے باقاعدہ (رسم الخط، قواعدِ صَرف و نحو کے ساتھ) زبان بن جاتی ہے تو اُسے کچھ اور نام دینا پڑتا ہے۔
کچھ عرصے قبل بزم زباں فہمی کے فاضل، بزرگ رُکن ڈاکٹر محمد اَکرم چودھری صاحب نے عربی کی ایسی ہی مخلوط بولی کی نشان دہی کر کے ہمیں حیران پریشان کر دیا تھا۔ خاکسار نے اُن سے گزارش کی تھی کہ براہ کرم اس موضوع پر کوئی مبسوط نگارش عنایت فرمائیں۔ اس سے قبل مجھے فارسی اور فرینچ میں ایسی ہلکی پھلکی مثالیں دیکھنے کو ملیں، بنگلہ، پشتو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور بروشسکی میں بھی ایسی مثالیں دیکھنے میں آئیں کہ انگریزی اور کہیں کہیں اردو کے اختلاط سے کوئی مِلواں یا کھچڑی بولی بولی جا رہی ہے۔ ان سبھی زبانوں نے حسبِ ضرورت یا جدید بننے کی خواہش میں انگریزی کے الفاظ اور فقرے بے حساب اپنا لیے ہیں۔ (فارسی کی متعدد قدیم و جدید شاخوں سے کماحقہ‘ واقفیت نہ ہونے کے باوجود، بندہ یہی سمجھتا ہے کہ مخلوط بولی بولنا، شہری ایرانیوں کی اپنی رَوِش ہے)۔ بروشسکی میں ایسے الفاظ کی ایک فہرست راقم نے اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider] میں شایع کی تھی۔
یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ مخلوط بولی اور سب سے زیادہ رومن رسم الخط کا استعمال ہمارے یہاں اردو کے ضمن میں ہو رہا ہے۔ بربِنائے ضرورت کوئی مخلوط بولی بولنے کا شعوری اقدام یقیناً مستحسن نہ ہوتے ہوئے بھی قبول کر لیا جاتا ہے، مگر اِسے معیاری زبان یا جُداگانہ زبان کا درجہ ہرگز نہیں دیا جاتا۔ ہمارے خطے میں دینی، علمی، ادبی و لسانی زوال کا یہ عالَم ہے کہ ہم نے پہلے اِنگریز کے زیرِ اثر، اردو کوم ٹانے کی کوشش یا مہم کا شعوری، غیر شعوری طور پر حصہ بننا گوارا کیا، پھر اپنی ہی مادری زبان، رابطے کی سب سے بڑی اور آسان زبان کو اِس طرح نقصان پہنچایا جیسے دودھ دوہنے کے بعد گائے یا بھینس بیکار ہو گئی اور اُسے طرح طرح سے اذیت پہنچا کر ٹھکانے لگانا مقصود ہو۔ آج پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں مقیم اردو گو اور اُردو داں طبقہ بجائے زبان سیکھنے سکھانے کے، رومن رسم الخط اپنا کر یہ سمجھ رہا ہے کہ بس یہی شارٹ کٹ ہے، اسی طرح لکھو اور یہ سمجھ لو کہ دنیا بھر میں ہماری زبان سمجھ لی گئی ہے۔ نوبت بہ ایں جا رَسید (نوبت یہاں تک پہنچ گئی) کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ رومن کیا ہے۔ انھیں باقاعدہ بتانا پڑتا ہے کہ جناب رومن رسم الخط ہی نہیں، ایک زبان بھی ہے یا تھی جسے لاطینی [Latin] بھی کہتے ہیں اور جو عہدِ جدید میں مُردہ زبانوں [Dead languages] میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی زندہ اور جاری شکل ہے اِطالوی [Italian] جو علمی و ادبی اعتبار سے بہت ہلکی یا خالی خالی ہے۔ رومن رسم الخط میں انگریزی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں لکھی جاتی ہیں، مشرقی زبانوں میں تُرکی بھی اسے اپنائے ہوئے ہے۔
ایک مرتبہ پھر اپنی قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اردو اپنے رسم الخط کی بجائے رومن میں لکھنا، ہماری نہیں، غیر ملکیوں کی (وہ بھی عارضی یا وقتی) ضرورت یا مجبوری ہو سکتی ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ غیر مُنقَسِم ہندوستان میں دَر آنے والے پُرتگیز، ولندیزی (ڈچ) ، المانوی (جرمن) ، فرینچ اور اِنگریز عربی، فارسی و ترکی کے ساتھ ساتھ یا ان کے بعد اردو سیکھنے میں کوئی دِقّت محسوس نہیں کرتے تھے، البتہ ہر قوم اور ہر طبقے میں غبی [Dull]، کُند ذہن اور کمزور طالب علم بھی ہوتے ہیں جو کوئی زبان کُجا، کوئی بھی بات سیکھنے میں دیگر کی نسبت، زیادہ وقت لگاتے ہیں یا سِرے سے سیکھتے ہی نہیں۔ ایسے ہی کچھ لوگوں نے اُردو یا ہندوستانی زبان سیکھنے (اور اِنہی جیسوں کو سکھانے) کے لیے رومن رسم الخط کا سہارا لیا ہو گا۔ ہمیں پرانی کتب میں انگریزوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں، مگر وہ اِن تمام اقوام کے آخر میں آئے تھے، جبکہ جرمن کوئی بڑی تعداد میں نہیں آئے، محض امتثال امر کے لیے نام لیا۔ سوال یہ ہے کہ قومی زبان بولنے اور جاننے والے افراد کی بہت بڑی تعداد جب اُردو کو مادری یا قریب قریب مادری زبان کے طور پر جانتی ہے، اس کا استعمال رابطے کے لیے کرتی ہے تو لکھائی سیکھنے میں کونسی قباحت ہے؟ اور سیدھی سادی زبان بولنے یا بولنا سیکھنے میں کونسے ہاتھی گھوڑے جوتنے پڑتے ہیں؟
کل تک چند مخصوص ’نودَولتیہ‘ عُرف ’برگر‘ یا نام نہاد ’اشرافیہ‘[Elite class] کا مسئلہ تھا کہ اگر اُردو سیکھ لی اور صحیح بول لی تو غضب ہو جائے گا، نوکروں اور ’اُردو میڈیم بد تمیز‘ لوگوں یا سبزی پھل والوں سے بولنے کے لیے اُلٹی سیدھی بولی بولنا کافی ہے ……مگر افسو س، صد اَفسوس!
اور پرانے لوگوں کی طرح کہوں تو ’ہیہات، ہیہات‘! ’حَیف، صد حَیف‘…آج ہم جیسے ’غریب عوام‘ کے گھروں اور اردگرد کے مکانوں میں بھی ایسے ہی ’نمونے بڑی تعداد میں پیدا ہو چکے ہیں جو آسان سے آسان بات کا مطلب ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھتے ہیں اور گنتی بھی، بھلے ہی سو تک نہ آتی ہو، نواسی کا مطلب ایٹی نائن سمجھ کر ہی کام چلاتے ہیں، لکھنا تو اُنہیں آتا ہی نہیں۔ ابھی چند لمحے پہلے، افغان جمعدار لڑکا گھر کا کُوڑا چننے آیا تو اُس کی ایک غلط حرکت پر ڈانٹا اور جواب میں سُنا: Shit۔ اب بھلے ہی اُس کو مطلب نہ معلوم ہو۔ ہمارے یہاں کام کے لیے آنے والی بلوچ نژاد پنجابی ماسی کی لڑکی بھی (کچھ ہماری ’گھریلو سرکار‘ کی ’غیر رَسمی‘ ٹیوشن کے طفیل اور کچھ خود آموزش سے) ایسے ایسے انگریزی الفاظ بولنے لگی ہے کہ ہم حیران ہو جاتے ہیں۔ اب اس باب میں افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ لوگ اپنا کام چلانے کے لیے اُلٹی سیدھی رومن اُردو لکھ تو لیتے ہیں، مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح بھی لکھا ہے یا کچھ اور مطلب تو نہیں نکلے گا۔ خاکسار کو ماضی میں ایم ایس این میسنجر اور یا ہو میسنجر پر (محض اتفاقاً کسی لڑکی ہی سے) رومن اردو میں بات چیت عُرف Chat کرتے ہوئے یہ تلخ تجربہ ہو چکا ہے کہ مخاطب کو سیدھا سادا اُردو لفظ، فہم کی کمی کی وجہ سے گالی محسوس ہوا۔ اُن دنوں اردو ٹائپنگ عام نہیں تھی۔
آئیے رومن اردو کی کچھ ’خطرناک‘ مثالیں یہاں دیکھتے ہیں:
ا)۔ تم اُسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
Tum usai/usay chod/chhod/chor/chhor/chhorr kyoon/kyooN nahi daitai/daytay?
ب)۔ وہ تو چھَڑا چھانٹ ہے، اُس کا کیا بھروسا؟
Wo/woh tou chada/chhada/chara/charra chant/chaant/chaaNt hai. Uss ka kya bhraosa?
ج)۔ تمہیں میری چوٹ کا ذرا بھی خیال نہیں؟
Tumhein/TumheiN meri chot/chout/choutt ka zara bhee Khayal nahi?
د)۔ متعدد حروف خصوصاً حرف دال، ذال اور ڈال کے اختلافات کو رومن اردو میں کسی بھی طرح صحیح پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اب ذرا دِل پر ہاتھ رکھ کر یہ عبارت تمام اِمکانات کے ساتھ پڑھیں یا کسی ’رومن زدہ‘ سے پڑھوا لیں اور پوچھیں کہ کونسی عبارت صحیح لگی اور مطلب کیا سمجھ میں آیا۔ رومن رسم الخط کی شان میں اور اس کے مضر اَثرات کی بابت بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ میں مختصراً یہی کہتا ہوں کہ رومن رسم الخط میں ہماری صوتیات کو سمونے اور بالکل ویسا ہی پیش کرنے کی ہرگز اہلیت نہیں جو ہمارے نستعلیق یا نسخ میں ہے۔
ان نکات پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی شعور ہرگز اس بات پر آمادہ نہیں ہو گا کہ اردو کا اپنا رسم الخط ترک کر کے رومن اختیار کرے جس میں لفظ کچھ سے کچھ اور معانی یکسر تبدیل ہو جائیں۔
جہاں ایک طرف انگریزی۔ زدہ مخلوط بولی ٹھولی کا رِواج یا فیشن دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہیں بعض جگہ اُردو کے چاہنے والے بھی اپنے مقامی لب و لہجے کی اردو سے ہمیں خوش کر دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ایک نجی ادارے نے فیس بُک پر خالص بنگلہ لہجے میں اردو کے چھوٹے چھوٹے کلِپ بنا کر چلائے، بہت حیرت زا مسرت ہوئی۔
٭٭٭