رشید افروز ’نصاب‘ کے آئینے میں ۔۔۔ محمد اسد اللہ

شاعری انسانی احساسات و جذبات کی فنکارانہ صورت گری کا ایک اہم، انوکھا اور موثر ذریعہ ہے۔ ہمارے احساسات پر وارد ہونے والے خوشگوار یا ناگوار لمحوں کو شاعری خوبصورت الفاظ کی شکل عطا کرتی ہے اس طرح کہ ہماری ذات کا لمس بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ غیر معمولی انداز میں بدلتی ہوئی زندگی اور اس کی پرچھائیوں کو ادب میں جدیدیت کی تحریک نے ایک الگ انداز میں پیش کیا ہے۔ نئی بات کے لئے نیا اور انوکھا لب و لہجہ اپنایا، یہ تحریک ادب اور خاص طور پر شاعری میں اظہار کے نئے اسباب بروئے کار لائی۔ جدید شاعروں میں بیشتر تخلیق کار ایسے تھے جنھوں نے اہم موضوعات اور رویوں کی منظر کشی کی، اور ایسے شعرا بھی تھے جنھوں نے اجنبی و نامانوس آوازوں کو لفظوں میں قید کر کے اپنی ہنر مندی کا ثبوت فراہم کیا۔ اس قسم کے شعرا میں ایک اہم نام رشید افروز بھی ہے۔

رشید افروز یکم اکتوبر ۱۹۴۵ء کو احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ ایم کام؛ ایم۔ اے اورایل ایل بی کی اسناد حاصل کی ہیں روزگار کا سلسلہ ۱۹۶۰ء میں جنرل اسٹور سے سکول میں تعلیم کے زمانے سے کیا۔ نومبر ۱۹۶۴ء مادری درسگاہ انجمنِ اسلام ہائی اسکول، احمد آباد میں بحیثیت مدرس ریاضی مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۰ء تک تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد بینک آف بڑودہ میں ملازمت اختیار کی اور سینیئر مینیجر کی حیثیت سے ۲۰۰۱ء میں سبک دوش ہوئے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ نفی ۱۹۸۰ء میں منظرِ عام پر آ یا۔ اور دوسرا مجموعہ نصاب ۲۰۲۱ء میں شائع ہو اجس میں ان کی ۱۹۶۶ء سے ۲۰۲۰ء تک کی شاعری کا انتخاب موجود ہے۔۔ رشید افروز نے ڈاکٹر محمود ابو سعود کی شاہکار کتاب’ اسلامی معیشت کے افکار و اصول‘ اور عبد المجید عزیز الزندانی کی اہم کتاب ’طریقۃ الایمان‘ کا گجراتی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔

رشید افروز کے مجموعۂ کلام ’نِصاب‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یقیناً یہ ان کے احساسات کی ترجمانی ہے، احساس کا یہ رنگ زیادہ گہرا نہیں، کیفیت بہت واضح نہیں مگر جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں ہماری زندگی میں بھی یہ سب کہیں نہ کہیں رو نما ضرور ہوتا ہے اسی لیے ان کا کہا ہمارے دل کو چھو لیتا ہے۔ رشید افروز بنیادی طور پر جدید شاعر ہیں۔ ان کی پہلی غزل ماہنامہ شب خون، شمارہ ۸؍جنوری ؍۱۹۶۷ میں شائع ہوئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ انھوں نے ابتدا ہی سے اپنے سفر کا راستہ اور منزل طے کر لی تھی۔ ان کے کلام میں جدید شاعری کے اہم موضوعات موجود ہیں۔ ان کی شاعری کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے وارث علوی لکھتے ہیں۔

’رشید افروز کی ہر شعری تخلیق کے پسِ پشت ایک ذاتی تجربے کی توانائی ہے۔۔۔۔، وہ اپنی ذات کو اپنے شعر سے ایک مخصوص اور محفوظ فاصلے پر رکھنے کے جمالیاتی اصول سے واقف بھی ہیں اور عمل پیرا بھی۔ اس نظر سے دیکھئے تو رشید افروز کی وہ نظمیں اور اشعار جو بادی النظر میں محض خیال آ رائی، تک بندی یا مرقع تراشی کے حامل معلوم ہوتے ہیں ان کے پیچھے بھی ذاتی تجربے کا کرب اور ایک بیدار سماجی شعور کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ (ماہنامہ تحریک۔ دہلی: شمارہ، ستمبر۱۹۶۹ء)

رشید افروز کی شاعری ان کے معاصرین سے قدرے مختلف ہے۔ ا س کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ان کے ہاں ابہام، پیچیدگی اور بے جا طوالت نہیں ہے۔ وہ پر کشش انداز میں اپنی وارداتِ قلبی کو فنکارانہ شکل عطا کرتے ہیں۔ ان کے پہلے شعری مجموعے نفی‘ (اشاعت ۱۹۸۰) کے متعلق عبید صدیقی لکھتے ہیں:

’رشید افروز کی شاعری ماحول کی جبریت کے خلاف ردِ عمل، اقدار اور انسانی رابطوں اور رشتوں کی شکست و ریخت کا نوحہ ہے۔ ان کی شاعری کا نمایاں وصف عصری حقائق کے عرفان سے حاصل شدہ تازگی اور تنوع ہے۔ رشید افروز جذبہ اور فکر کی تہذیب کے فن سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہیں۔‘ (۱۹۸۰)

رشید افروز کی شاعری جہاں اپنے عہد کا قبیح چہرہ دکھاتی ہے وہیں اس میں مثبت قدروں کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ ابتدائی صفحات میں حمد، مناجات، مدحتِ امامِ کوثر کے علاوہ تخلیق، عرفان، در گزر، اور تو چاہے جیسی نظمیں بھی ہیں جن میں خالق کائنات کا یقین شاعر کے لیے زندگی کا ایک بڑا سہارا ثابت ہوتا ہے۔

جب مدد کے لیے موجود کہیں کوئی نہ تھا

دل نے امید جگائی، مرے مولا! تو ہے

 

خود کو دیکھوں تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

تجھ کو سوچوں تو ہر اک شے میں سمایا تو ہے (حمد)

 

رگِ دل ہی تیرا مقام ہے، مری جاں میں تیرا قیام ہے

ترے ذکر سے مجھے کام ہے، مرے روز و شب کو سنوار دے (مناجات)

 

آج

اشکِ ندامت نے

دل کی سیاہی مٹا دی

میں حیران ہوں

اب خدا اور مرے درمیاں

فاصلہ ہے نہ دیوار ہے۔ (عرفان)

 

پرانی بات ہے لیکن ابھی احساس زندہ ہے

کہ اس ویران گھر سے شور اٹھتا دیکھ لیتا ہوں

 

ان خوش رنگ مناظر کے باوجود مجموعی طور پر شاعر نے اپنے عہد کے تاریک گوشوں اور دلخراش احساسات ہی کو غزلوں اور نظموں میں نمایاں کیا ہے۔

 

جاگی ہوئی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے

بس اتنی تمنا ہے ذرا دیر سلا دے

 

بارہا میں نے جسے کچلا ہے

ہر قدم پر وہی سایہ دیکھوں

 

خوف کی زنجیر میں جکڑے ہوئے

بزدلوں کے ہاتھ میں تلوار تھی

 

میں نے اپنے ہاتھوں میں

دریا قید کیا تھا

ریت کہاں سے آئی؟ (شکست)

 

یہ سچ ہے۔۔۔ کہ

اس رات کے بعد

پھر دن نکل آئے گا

مگر اس نئے دن کے ہاتھوں میں

سورج بھی ہو

یہ ضروری نہیں۔ (احتمال)

 

رشید افروز نے اپنی چھوٹی چھوٹی الجھنوں اور احساسات کے لطیف ارتعاش کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، اس طرح کہ ہم ان نظموں اور اشعار کو پڑھتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ اسی قسم کی لہریں تو ہمارے اندر بھی گزرتی رہتی ہیں۔ نئے دور کا انسان جن داخلی مسائل سے دوچار ہے ان کا بیان بھی رشید افروز کی شاعری کو قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔

نئے جہاں کا نصاب لکھوں

ورق ورق اضطراب لکھوں

 

سبز پتوں پہ چمکتی ہوئی شبنم نے کہا

رات ڈھل جائے تو ہر رنگ نیا لگتا ہے

 

شہر امید کی بستیاں لٹ گئیں

خاک اگلتے ہیں اب آرزو کے کھنڈر

 

میں نے سورج سے اجالے کی تمنا کی تھی

میرے تاریک مقدر کو سحر بھی نہ ملی

 

حرفِ غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

شہر سخن کی شمع پگھلتے ہوئے بھی دیکھ

 

ہم اپنی بے گناہی کی سزا سے بچ نہیں سکتے

یزیدِ وقت کے لشکر میں سب پیاسے لہو کے ہیں

 

وحشتیں، تاریکیاں، رسوائیاں، بربادیاں

ہائے امیدوں کی بستی اور پھر اتنی اجاڑ

 

رشید افروز کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے گویا یہ کتابِ زندگی کی پڑھنے اور سمجھنے کی ایک شاعرانہ سعی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے ہاتھوں نے شاعر کی احساسات کی لوح پر رقم کیا ہے۔ یہ انفرادی نقوش سہی مگر یہی وہ نصاب ہے جو اس عہد کے افراد کے لیے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ زندگی کی تلخیاں اور فرد کی تنہائی کی صورتِ حال کم و بیش ہر جگہ وہی ہے اسی لیے ہمیں یہ نصاب اپنا سا لگتا ہے۔

اس شعری مجموعے میں بنیادی خیال خواب ہے جو مختلف حوالوں سے رشید افروز کی کئی نظموں میں وارد ہوا ہے اس سے مراد نا آ سودہ خواہشات، خوابوں کی شکست و ریخت اور زندگی کا وہ ادھورا پن جو اندرونی اضطراب کی شکل میں نمایاں ہوا ہے اور کہیں زخم بن کر روح کی گہرائی میں اتر گیا ہے۔ اپنی پسندیدہ زندگی کے خواب پورے نہ ہونے پر شاعر مایوسی، تشکیک اور بیزاری کا شکار ہوا ہے۔ اس کی مختلف تصویریں ان نظموں میں نمایاں ہیں۔ مختلف نظموں کے یہ مصرعے ملاحظہ فر مائیں۔

 

میں حقیقت کی دنیا میں

لوہے سے لڑتے ہوئے

انگنت خواب بنتا رہا (خوابوں کی امانت)

 

سنہرے ہرن کے تعاقب میں

اندھے سفر کی کہانی تھی یا خواب تھا (وہ دن خواب تھے یا کہانی)

 

جو خواب ہم نے سجائے

دھواں دھواں نکلے (سحر ہونے تک)

 

اسے جھیل سی گہری آنکھوں میں

خوابوں کی دنیا سجانے کا موقع ملے۔ (چاند اور تم)

 

رات خواب میں دیکھا

ڈوبتا ہوا ساحل

 

وہ ایک موڑ جہاں فاصلے تمام ہوئے

اس ایک موڑ پہ ہر خواب بے نشاں نکلا

 

منحرف خواب سے آنکھیں ہیں سحر ہونے تک

چاند پھر جھیل کے اُس پار اتر جائے گا

 

آج پھر ہم کو نگاہوں سے گزرنا ہو گا

رات بیدار ہے خوابوں کی پذیرائی میں

 

جاگ اٹّھا ہوں، مگر آنکھوں میں ہے

نیند کا احساس، خوابوں کا دھواں

 

شاعر اپنے سے باہر بھی ان خوابوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔ نظم ’فلیٹ نمبر 701‘ ایک خوبصورت عمارت ڈریم ہاؤس کی ساتویں منزل پر رہنے والے دو عمر رسیدہ والدین کی زندگی کا المیہ ہے جن کا بیٹا اور بہو امریکہ میں رہتے ہیں۔ ویکیشن میں کم سن بچے جب گھر آتے ہیں، اداسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔

رشید افروز کے ہاں سفر کی اس اذیت کو بھی بیان کیا گیا ہے جہاں نا رسائی اور منزلِ مراد نہ ملنے کا غم اسے زندگی کی بے معنویت کا احساس دلاتا ہے۔

 

میں دریا ہوں

اپنی رو میں بہتے بہتے

رستہ بھول گیا ہوں (تو جو چاہے)

 

صداؤں کی یلغار نے

شہ سواروں کو تاریک راہوں میں گم کر دیا (سفر شرط ہے)

 

تمام عمر یونہی، خاک چھانتے گزری

یہ آرزو ہی رہی آسماں بناؤں گا

 

یہاں کچھ بھی نہیں، شاید وہاں بھی کچھ نہ ہو گا

مگر اس پار جانے کا ارادہ کر لیا ہے

 

جس بات کا خدشہ تھا، وہی بات ہوئی ہے

گھر دور، بہت دور، ہے جب رات ہوئی ہے

 

سفر جاری ہے جب دن ڈھل چکا ہے

نہ جانے فاصلہ کیوں بڑھ گیا ہے

 

غروب ہوتے ہوئے آفتاب سے پہلے

فصیل ٹوٹ گئی، ہر طرف غبار اٹھا

 

گرفت چھوٹ گئی پہلے حدّ امکاں تک

پھر انتہا یہ ہوئی، اپنا اعتبار اٹھا

 

میں کامیاب ہو نہ سکا، اس لڑائی میں

دشمن کو ہر شکست سے پہلے کمک ملی

 

کس نے جانا تھا، اک ایسا مرحلہ بھی آئے گا

عمر بھر جو کچھ کیا، سب خاک میں مل جائے گا

 

گم شدہ پہچان کے اندھے کنویں میں قید ہوں

اب مجھے آواز دے کر اپنی پلکیں نم نہ کر

 

وہ کبھی وجہِ سکوں، راحتِ جاں سب کچھ تھا

رفتہ رفتہ اسی ہمدرد نے بیزار کیا

 

ہمارے درمیاں کیا کچھ نہیں تھا

مگر افسوس! اب کچھ بھی نہیں ہے

 

اندھیرا اس قدر گہرا نہیں تھا

چراغوں میں لہو کم ہو گیا ہے

 

مرے بدن پہ جہاں زخم پھوٹ نکلا ہے

اسی مقام کو پتھر سمجھ رہا تھا میں

 

شاخ سے گرتے پتوں نے

مٹی سے مانگا سہیوگ

 

روز بستر پہ خیال آتا ہے

آنکھ لگ جائے تو شب کچھ بھی نہیں

 

پاؤں آہستہ نکالو باہر

گھر بکھر جائے، عجب کچھ بھی نہیں

 

دو کر دار حقیقی تھے

باقی سب افسانہ تھا

 

رشید افروز کی شاعری سہل ممتنع کی عمدہ مثالیں پیش کرتی ہے۔ جدیدیت کے اہم موضوعات کو انھوں نے بخوبی برتا ہے۔ رشید افروز کا مجموعہ نصاب جو ان کے کلام کا ایک انتخاب بھی ہے انھیں ان کے معاصر شعرا میں ایک امتیازی مقام عطا کرتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے