مرسلہ غضنفر
(ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی نے اپنی حیات میں مضمون بھیجا تھا پڑھنے کے لیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی رسالے میں ان کی موجودگی میں شائع ہوا یا نہیں۔ ایک دن میری ایک فائل میں یہ مضمون اچانک نظر آ گیا۔ پڑھا تو مجھے اچھا لگا۔ اچھی چیز یا اچھی خبر کو شیئر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ چنانچہ میں مرحوم فرقان سنبھلی کی یہ تحریر احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ بہت کم عمر میں ڈاکٹر فرقان سنبھلی نے اپنی ایک پہچان بنا لی تھی۔ وہ اردو ادب کو بہت کچھ دے سکتے تھے مگر اللہ نے انھیں بہت جلد اپنے پاس بلا لیا۔ خدا انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فر مائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غضنفر)
کہانی انکل بڑا ہی دلچسپ کردار ہے، وہ بچوں کو صرف دلچسپ کہانیاں ہی نہیں سناتا، بلکہ انتظامیہ کے اختراع کردہ ظلم، قہر اور استحصال کا قوی ’کاؤنٹر ٹیکسٹ‘ بھی تیار کرتا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج اور مسلسل جد و جہد کا نیا استعارہ بھی تشکیل دیتا ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ کتابیں زندگی کی جد و جہد کا رہ نما عنصر ہو سکتی ہیں لیکن پیڑ تو حالات سے پیدا ہونے والے تجربات کے کھاد پانی سے ہی پھلتا پھولتا ہے۔ ناول در اصل نو کہانیوں کا ’کولاژ‘ ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت کی نو پرتیں ہیں جو باری باری سے موقع و محل مناسبت سے ابھرتی پلٹتی ہیں۔ آپ اسے نو پردوں (حالانکہ سات پردوں ہی کی روایت رہی ہے، ویسے وقت کے لحاظ سے دو پردوں کا اضافہ غیر واجب نہیں مانا جانا چاہیے) کے پیچھے پوشیدہ حقیقت کو باہر لانے کی جان لیوا کوشش بھی مان سکتے ہیں۔
خونخوار درندہ ہمیشہ اپنی اصل شکل میں نہیں رہتا۔ بلکہ زیادہ وقت تو ’حاتمی نقاب‘ میں ہی خود کو چھپائے رہتا ہے۔ اس سے شکار میں سہولت ہوتی ہے۔ یہ اصلی روپ میں تبھی آتا ہے جب یا تو اسے شکار کرنا ہوتا ہے یا پھر اسے اس بات کا پختہ یقین ہو جائے کہ اب وہ تمام کوششوں کے بعد بھی اپنی اصلیت کو چھپائے رکھنے میں ناکام ہی رہے گا۔ ایسے حالات میں درندہ پاگلوں کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔ اس کا ارادہ محض شکار نہیں ہوتا، اس کا ارادہ سب کچھ تہس نہس کر دینے والا ہوتا ہے۔ سامنے جو بھی آئے اس کو نوچنا، کھسوٹتا، مارنا لوٹنا۔ بس یہی ایک مقصد ہوتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مرگی جیسی ہی ایک بالکل علیحدہ اور بے حد خوفناک قسم کی یہ غیر انسانی بیماری اسے دبوچ لیتی ہے اور اس کی گرفت میں آ جانے کے بعد وہ صرف اپنے مفاد کے لیے قتل اور لوٹ مار نہیں کرتا، بلکہ اپنے وجود پر آئے خطرے کو ٹالنے کی کوشش میں وحشت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
آج کے اس مابعد جدید دور میں سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کسی سے مخفی نہیں رہی۔ یورپ میں نازی باد، پھاسی واد اور دو عالمی جنگوں کے پس منظر میں حقیقت کا جو گوشہ مخفی رہ گیا تھا وہ اب بازار اور قدرتی وسائل پر تسلط قائم کرنے کی مچی ہوڑ اور سسٹم کی بے ایمانیوں کی شکل میں سامنے آنے لگا ہے۔ عام آدمی کی آڑ میں خاص آدمیوں کی غلامی، جمہوریت کی آڑ میں سرمایہ داری نظام اور اس کی تقویت کے لیے اٹھائے جا رہے تمام اقدامات اس کی مثال ہیں۔ نکسل ازم اور دہشت گردی کی اوٹ میں ملک کو ’پولس اسٹیٹ‘ میں تبدیل کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ ہندوستان کے وسائل پر آنکھیں گڑائے مٹھی بھر ’قارون‘ یہ جانتے ہیں کہ ملک میں امن و امان کا ماحول ان کے منصوبوں پر پانی پھیر سکتا ہے لہٰذا مذہب اور دھرم کی آڑ میں پھاسی ازم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ غریب آدی واسی لڑکیوں اور عورتوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے۔ لالچ کے سامنے خود سپردگی نہیں کرنے والوں کو سبق سکھائے جا رہے ہیں۔ بھوگ کا نیا ارتھ شاستر تخلیق کیا جا رہا ہے۔
کہانی انکل کو پڑھنے ہوئے بار بار اُدے پرکاش کی طویل کہانی ’’پیلی چھتری والی لڑکی‘‘ کی یاد آتی ہے۔
’’اس طاقتور بھوگی لونڈے نے ایک نیا نظریہ دیا تھا جسے ہندوستان کے وزیر خزانہ نے مان لیا تھا اور خود اس کے پرس میں جم کر گھس گیا تھا۔ وہ نظریہ یہ تھا کہ اس آدمی کو کھانے سے مت روکو۔ کھاتے کھاتے جیسے اس کا پیٹ بھرنے لگے گا وہ جھوٹن اپنی پلیٹ سے باہر گرانے لگے گا۔ اسے کروڑوں بھوکے لوگ کھا سکتے ہیں۔ کانٹی نینٹل، مقوی جھوٹن۔ اس آدمی کو سیکس کرنے سے مت روکو، ویاگرا کھا کھا کر وہ سیکس کرتے کرتے لڑکیوں کو اپنے بستر سے نیچے گرانے لگے گا، تب کروڑوں ناشاد ملکی لڑکے ان لڑکیوں کو پیار کر سکتے ہیں۔ ان سے اپنا گھر خاندان بسا سکتے ہیں۔‘‘
مطلب صاف ہے امیروں کے لیے غریبوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر سبھی کے پاس دولت اور وسائل ہوں گے تو پھر ٹھاٹ باٹ کی اہمیت نہیں رہ پائے گی۔ امیر اپنا جھوٹن پھر کس کو تقسیم کریں گے؟ یہ غریبوں کا احتجاج یا پھر بہتر زندگی کا خواب خطرناک ہی مانا جائے گا۔ نا انصافی کا احتجاج اور حق کی لڑائی کو ناکام کرنے کے لیے کئی طرح کے فریب دیے جائیں گے۔ مذہب اس کا بڑا اور کار آمد ہتھیار ہے۔ 1953 میں ہی سوامی سجتا نند سرسوتی نے اس حقیقت کو محسوس کر لیا تھا ’’غریبوں کو چوسنے کے لیے امیروں کی ایک تنظیم ہو سکتی ہے ہوتی ہی ہے اور سدا سے ہوتی ہی آئی ہے تو پھر غریبوں کی ایک تنظیم اپنی حفاظت کے لیے کیوں نہیں ہونی چاہیے؟‘‘ لیکن بات ایسی ہے نہیں۔ غریبوں میں تو تنظیم ہے ہی نہیں اور اگر کوئی اس کے لیے کوشش کرے تو وہی تصادم اور کلاس، کی جنگ کا رونا رویا جاتا ہے اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی دہائی دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خبردار ایسا مت کرو، نہیں تو مذہب خطرے میں پڑ جائے گا اور قومیت منتشر ہو جائے گی۔ جب امیر لوگ منظم ہو کر سیکڑوں طرح سے غریبوں کا اور مزدوروں کا استحصال کریں تو یہ مذہب سمجھا جائے اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگے گی لیکن اسی ایک استحصال اور لوٹ کو بند کرنے کے لیے اپنے گھر کی رکھوالی کے لیے جب غریبوں کو منظم کرنے کی بات ہو تو مذہب کے خطرے کی گھنٹی بج جائے۔ یہی ہے اس نرالی دنیا کا نرالا تماشا۔ یعنی ملک کی ترقی، عوام کی ترقی نہیں ہے۔ جدید سیاق میں سرمایہ داروں کی ترقی ہی ملک کی ترقی ہے۔ عوام اگر اپنی عقل اور ہنر سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے تو نظام ایسا نہیں ہونے دے گا۔ راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔
غضنفر کے ’کہانی انکل‘ کا آغاز زندگی کی اسی جد و جہد کی داستان ہے۔ ہوٹل اور کتاب کی دکان کے ذریعہ بہتر روزی روزگار کی امیدیں مذہب کی نذر ہو گئیں۔ آگ کی لپٹوں نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔ ’’سُکرات، مارکس، لینن، کبیر، غالب، گاندھی، نہرو وغیرہ بھی‘‘۔ سرمایہ داری نظام کے خیالات سے پرانی دشمنی رہی ہے۔ خیالات کسی بھی ’کلوزڈ سسٹم‘ کے لیے خطرے کی گھنٹی رہے ہیں کیونکہ یہ اس کی پوری پول پٹی کھول دیتے ہیں۔ ایسے میں کوئی استحصالی نظام کو پنپنے یا پھیلنے پھولنے کیسے دے سکتا ہے؟ وہاں، ایک مسئلہ تو ہے کہ اگر نظام نے سیدھی مداخلت کی تو عوام میں اس کا بھروسہ مشتبہ ہو جائے گا۔ لہٰذا اس سے نپٹنے کے لیے مذہب کی آڑ سب سے بے خطا اسلحہ ہے۔
ادب اقتدار-سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم نوّے کی دہائی کو نہیں بھول سکتے، جب پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے عالمی بازار کے دباؤ میں غیر ملکی سرمائے کے لیے ملک کا دروازہ کھولا تھا اور یہی وہ وقت بھی تھا جب پوری بے حیائی کے ساتھ مذہب کو سیاسی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع ہوئی تھیں۔ لال کرشن آڈوانی نے رام مندر کے لیے رتھ یارا نکالی تھی اور آزادی کے بعد پہلی بار بڑے پیمانے پر جگہ جگہ فسادات کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مسجد کا ڈھانچہ گرایا گیا اور پنجاب کشمیر میں پیدا ہوئی دہشت گردی اچانک قوی مرض میں تبدیل ہو گئی۔
’’گھر آنگن کا ساز و سامان فروخت کر کے پھیری لگانا شروع کیا تو کسی نے اس پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا اور کسی نے اسے دہشت گرد ٹھہرایا۔ تفتیش میں پولس نے اتنا پریشان کیا کہ تنگ آ کر اسے پھیری سے بھی منھ موڑنا پڑا۔‘‘
ناول نگار غضنفر کی نظر اپنے وقت پر ہے۔ وہ پوری شدت کے ساتھ ملک کے بدلتے سیاسی اور سماجی حالات کو محسوس کرتے ہیں۔
جس نواُدار واد کی بنیاد نرسمہا راؤ کے زمانہ میں ڈالی گئی تھی ابھی حال ہی میں اس کا کلائی میکس سامنے آیا، جب من موہن سنگھ نے تمام مخالفت اور خطروں کو درکنار کر تھوک بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو منظوری دے کر ملک کو ترقی پذیر بنانے اور عام آدمی کی زندگی کے ایک بار سنور جانے کے بڑے بڑے دعوے کیے۔ شمالی ہندوستان سے زیادہ جنوبی ہندوستان میں شاپنگ مال کھلے۔ یہاں تک کہ سبزیاں بھی ایر کنڈیشنڈ دکانوں کی زینت بن گئیں۔ ابتدائی دور میں لاگت سے کم قیمت پر چیزیں فروخت کی گئیں۔ جب ریہڑی اور منڈی والوں کی کمر ٹوٹ گئی اور انھوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے تو اب ریٹیل میں اتری وہی بڑی کمپنیاں صارفین سے من موافق قیمت وصول کر رہی ہیں۔
کہانی انکل کے کپڑے کی دوکان کا حشر بھی یہی ہوا۔ ’’کلاتھ مارکیٹ کے گھاگھ تاجروں نے قیمتیں اتنی کم کر دیں کہ خریداری ایک دم ٹھپ ہو گئی۔‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کم لاگت میں زیادہ منافع کمانا۔ جدید مشینوں اور بڑے کارخانوں سے ہی یہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں پہلے جہاں سو لوگوں سے کام لیا جاتا تھا وہاں اب بمشکل دس لوگوں میں ہی کام نکل جاتا ہے۔ سہولت پسند سماج نے اپنے مفاد کے لیے جس بد عنوانی کو پالا پوسا تھا وہ بھی اب ’سُرسا‘ کے منھ کی طرح خطرناک روپ لے چکا ہے۔ ایسے میں لیاقت یا قابلیت کا کوئی خاص مطلب نہیں رہ گیا ہے۔
’’اور تیزی سے لائٹر جلا کر اس کی لو پر ڈگریوں کا بنڈل رکھ دیا۔‘‘
بڑھتی بے روزگاری، بدعنوانی، اور نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی اور غصہ، اَنّا تحریک کے دوران صاف نظر آیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ سسٹم مسلسل بے پردہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی اصلی شکل و صورت اب لوگوں کی نظروں میں اترنے لگی ہے۔
یہ سچ ہے کہ انسان کتابوں سے کم، تجربے سے زیادہ سیکھتا ہے، کہانی انکل کا کردار اس کی گواہی دیتا ہے۔ تعلیمی دور میں دیکھے گئے تمام خواب ایک ایک کر بے دم ہوتے جاتے ہیں۔ وہ اب خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت سے رو برو ہو رہا ہے۔ اب اس کے سامنے دنیاوی محاورے اپنا مفہوم بدل رہے ہیں۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے کہ جنھیں دنیا حیرت کا لقب دیتی رہی ہے، ان میں در اصل حیرت جیسی کوئی بات ہی نہیں۔ ’’قاتل کو انعام دیا گیا‘‘، سرپرست تحفظ کا گھلا گھونٹ رہا تھا، آنکھ والا ٹھوکر کھا رہا تھا‘‘ سفید سیاہ تھا، یعنی جنھیں اب تک ہم تجربے کی کمی کی وجہ سے حیرت انگیز گردانتے رہے تھے وہ تو دنیاوی حقیقتیں تھیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کسی کی لیاقت اس کے کام آ گئی، ایک مصنف کے طور پر غضنفر کی نگاہ کافی وسیع اور گہری ہے۔ موجودہ نظام کا بالکل سیدھے سادے الفاظ کی مدد سے وہ نیا استعارہ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ایک الگ قسم کی تشکیل ہے۔ خواب اب چہروں پر مسکراہٹ نہیں لاتے۔ وہ بے طرح ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں اور اب ان کی کرچیں حوصلوں میں چبھن اور درد کی وجہ بن رہی ہیں۔
نظام میں جو برائیاں ہیں وہ کہانی انکل کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔ وہ کامیابی کے لیے بار بار کوششیں کرتا ہے۔ بار بار راہ بدلتا ہے۔ لگن، محنت اور قابلیت کے دم پر وہ کامیابی کی سیڑھیاں بھی چڑھنے لگتا ہے لیکن یہی کامیابی اس کو نظام مخالف ثابت کر دیتی ہے۔ اسے بار بار اجاڑا جانا اور اس کا بار بار زندگی کو پٹری پر واپس لے آنا، کہانی انکل کے حوصلے کا ہی نتیجہ ہے۔
پریم چند کے ناول گؤدان کا ہیرو ’ہوری‘ کا استحصال کے باوجود زمیندار رائے صاحب کے یہاں جاتا، ان کی جی حضوری کرنا، اس کے بیٹے گوبر کو سخت ناپسند ہے، وہ اپنے باپ سے اس کی شکایت بھی کرتا ہے۔ تب ہوری کہتا ہے کہ ’’بیٹا جس پیر کے نیچے گردن ہو اس کو سہلانے میں ہی بھلائی ہے۔ کہانی انکل کی ابتدائی کوششوں کا مفہوم بھی یہی ہے۔ وہ سسٹم سے سیدھے سیدھے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے؟ اس کی کوشش یہی ہے کہ وہ امن و امان کے ساتھ روٹی جٹائے اور اپنے بیوی بچوں کی ڈھنگ سے پرورش کرے لیکن عام آدمی کا پیٹ اگر بھر گیا تو وہ پھر غلام نہیں رہ سکتا۔ غلامی کے لیے غریبی ضروری ہے۔ کہانی انکل بار بار سرمایہ لگاتا ہے۔ جب منافع ہونے لگتا ہے تو سسٹم کسی نہ کسی بہانے اس کی دکان بند کروا دیتا ہے اور وہ بار بار غیر یقینی مستقبل کے دورا ہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں کہانی انکل ایک ایسا طریقہ اختیار کرتا ہے جس میں نہ تو سرمایہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی خاص جگہ کی۔ وہ اب کہانی سنانے کو اپنا پیشہ بناتا ہے اور نئی نسل کو بالکل نئے طریقے سے کہانیوں کے ذریعہ زندگی کی تلخ سچائیوں سے رو برو کراتا ہے حالانکہ ناول میں ایک جگہ پر مصنف کی مداخلت صاف نظر آتی ہے جب کہانی کی پیچیدگی کے مسئلے پر کہانی انکل اپنی فکر کا اظہار کرتا ہے۔ ’’اس نے اپنی لکھی ہوئی کہانیوں پر نظر دوڑائی تو وہاں بھی کوئی کہانی نہیں دکھائی دی۔ وہ ساری کہانیاں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھی گئی تھیں جن کی باتیں مشکل، پیچیدہ اور فلسفیانہ تھیں۔ ان کی زبان بھی پیچیدہ اور فلسفیانہ تھی۔‘‘ فکر بھلے ہی کہانی انکل کی ہو لیکن یہ بدقسمتی ہندوستانی ادب کے ساتھ شروع سے ہی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیاں معاشرے پر اپنا ویسا اثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہیں جیسا کہ وہ چھوڑ سکتی تھیں۔ بشرط یہ کہ اس کی زبان اور اس کے مفہوم پیچیدہ نہیں ہوتے۔
کہانی انکل کا مقصد بالکل واضح ہے۔ اب وہ سسٹم سے بچ کر نہیں بلکہ دو دو ہاتھ کرتے ہوئے اس سے متصادم ہو کر آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ پختہ عمر کے لوگوں میں وہ حوصلہ اور ویسی قوت نہیں بچی ہے کہ ان سے کرانتی کی امید رکھی جائے۔ ایسے لوگ تصادم کے ’ہراول‘ نہیں بن سکتے۔ اس کو تو نئی نسل ہی ممکن بنا سکتی ہے۔ لہٰذا وہ ملک کے مستقبل یعنی بچوں میں امید پاتا ہے اور انھیں سچ اور حوصلے کا درس دینے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ ان میں برائی اور نا انصافی کے خلاف ان کے اندر آگ بھرتا ہے۔ اچھائی اور انصاف کے بیج بوتا ہے۔ اظہار کی آزادی کیا ہوتی ہے؟ جدید جمہوریت میں اس آزادی کا عام آدمی کے لیے کیا مطلب ہے؟ یہ وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ لہٰذا اس کی کہانیوں میں پینچ تنتر کی کہانیوں جیسے کردار آتے ہیں۔ وہ میٹافر، بمبوں علامتوں میں نظام کی قلعی کھولتا ہے۔ جمہوری ملک میں جیلوں (کانجی ہاؤس) کی افادیت کیا ہے؟ وہ کچھ یوں عیاں ہوتا ہے۔ ’’گاؤں والوں نے کانجی ہاؤس کے ایک ایک کونے میں جھانک کر دیکھا، مگر انھیں کہیں بھی کوئی سائڈ نہ ملا۔ وہاں تو ایسے جانور بند تھے جو بہت ہی پہلے کمزور اور دبلے پتلے تھے۔ جن کے پیٹ اندر تک دھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ یہ جو کمزور جانور ہیں وہ در حقیقت عام آدمی کی ہی علامت ہیں جبکہ سانڈ پر بھو گروہ کی لٹھیت۔
کہانی انکل ہر بار بچوں کو ایک الگ طرح کی کہانی سناتا ہے۔ واقعات بدلتے ہیں۔ کبھی سماج، کبھی اخلاقیات، کبھی سائنس تو کبھی شعور یعنی علم کی جیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کہانیوں کا بچوں پر اثر بھی ہوتا ہے۔ بچوں میں کہانی انکل کی مقبولیت بھی بڑھتی ہے، استحصال کبھی بھی اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ گدھوں کے سینگ کی کہانی اسی سچ کو اجاگر کرتی ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں عام آدمی میں عام آدمی کی فلاح کے نام پر آئے دن ان کی زندگی کو مشکل بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ پہلے عام آدمی کا خیر خواہ بننا، اس پر احسان جتانا اور پھر اس کا استعمال کرنا۔ میں آپ سے ایک چھوٹا سا کام چاہتا ہوں۔ دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے میں نے دواؤں کا ایک کارخانہ لگایا ہے، پر میری دوائیں دکھیوں تک پہنچ نہیں پاتیں۔ جس سے میرے دل پر بہت بوجھ رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بوجھ کو کم کر دیں۔ گدھوں کے سر پر غیر ضروری سینگ اگا کر سرمایہ دار انھیں اپنا بندھوا مزدور بنا لیتے ہیں۔ اس بات کا بہت بعد میں انھیں احساس ہوتا ہے۔ کیا یہی حال ہمارا نہیں ہے؟
غضنفر ایک یوٹوپیا تخلیق کرتے ہیں۔ جہاں گدھا بھی گھوڑا بن سکتا ہے۔ غلامی کی زندگی جینے کو مجبور آدمی بھی اپنا سر بلند کر سکتا ہے۔
’’کچھ دیر بعد اچانک اس نے گدھے میں تبدیلی محسوس کی۔ دھیرے دھیرے گدھا پھولنے لگا، اس کا جسم بڑھنے لگا، پیٹ کے گڈھے بھر گئے۔ جھکی ہوئی کمر سیدھی ہو گئی۔ قد اونچا ہو گیا۔ لمبائی بڑھ گئی، بدن کس گیا۔ کھال چکنی ہو کر چمچمانے لگی۔‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کس طرح دھیرے دھیرے عام انسان کا خون چوس رہا ہے؟ سسٹم سے کس طرح سہارا مل رہا ہے؟ یہ حقیقت فقیری سنگ ریزے کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔ کیا ہمارے لیڈران مداری کے کردار میں نہیں ہیں۔ کیا وہ جمہوریت کا تماشا نہیں دکھا رہے؟ مجمع لگائے کھڑی بھیڑ کو بیوقوف نہیں بنا رہے؟
کہانی انکل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی کہانی کو اس کے انجام تک لے جانے کے خواہشمند نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسے ’ایکسٹریم‘ پر کہانی کو لے جاتے ہیں، جہاں پر بچوں کا دماغ خود ہی اختتام کی تلاش میں مشغول ہو جاتا ہے۔ یعنی کہانی انکل بچوں میں سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت ہے اس کو نکھارنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
’’تالیوں کے شور پر کہانی انکل کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں تالیوں بجاتے ہوئے ننھے منّے ہاتھوں کے علاوہ بہت سارے نظارے ابھرتے چلے گئے جن میں بھنچی ہوئی مٹھیاں بھی تھیں۔‘‘ یہ بھنچی ہوئی مٹھیاں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ کہانی انکل اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ نظام کے پیدا کردہ استحصال کے خلاف ان میں بیداری پنپ رہی ہے اور یہی سسٹم کے لیے خطرناک ہے۔
کہانی انکل کی شہرت ایک قصے سے نکل کر پورے صوبے میں پھیلتی ہے اور یہاں پر ایک بار پھر انھیں نظام کے غصے کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کہانی انکل کو بچوں سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کمیشن کہانیوں کو ضبط کرنے کی حمایت میں ہے لیکن کہانیاں تو بچوں کے ذہن میں جذب ہو چکی ہیں۔ ایسے میں اب کہانی انکل کی کہانی سنانے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اسے گرفتار کیا جاتا ہے لیکن نئی روشنی سے لبریز نسل سسٹم کے اس ظلم کی پر زور مخالفت کرتی ہے۔ ’’غصے میں بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ بچوں کا جلوس تھانے پہنچ کر اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے لگا۔‘‘ کہانی انکل کی شہرت ایک قصے سے نکل کر پورے صوبے میں پھیلتی ہے اور یہاں پر ایک بار پھر انھیں نظام کے غصے کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کہانی انکل کو بچوں سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کمیشن کہانیوں کو ضبط کرنے کی حمایت میں ہے لیکن کہانیاں تو بچوں کے ذہن میں جذب ہو چکی ہیں۔ ایسے میں اب کہانی انکل کی کہانی سنانے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اسے گرفتار کیا جاتا ہے لیکن نئی روشنی سے لبریز نسل سسٹم کے اس ظلم کی پر زور مخالفت کرتی ہے۔ ’’غصے میں بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ بچوں کا جلوس تھانے پہنچ کر اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے لگا۔ اس کی رہائی کے لیے آسمان چیر دینے والے نعرے لگنے لگے۔ آوازوں کا شور دفتروں کے کمروں میں گھس کر گونجنے گرجنے لگا۔ ٹریفک رک گیا۔ کام کاج ٹھپ ہو گیا۔ اور اس طرح کہانی انکل کو الزامات سے بری کر جیل سے رہا کر دیا گیا۔‘‘ ناول کے اس حصے کو پڑھتے وقت آپ کے ذہن میں بار بار ایمرجنسی کا دور لوٹ آتا ہے۔
کہانی انکل کو بھلے ہی جم غفیر کی حمایت حاصل ہو لیکن سسٹم اتنی آسانی سے ہار نہیں مانتا۔ خاص طور پر تب، جبکہ کہانیوں کا بچوں پر اثر ہو رہا ہے۔ اب بچے صرف کہانیاں سن کر کھلکھلاتے یا خوف زدہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اب لڑائی کے لیے خود کو بالکل تیار پاتے ہیں۔
’’ہمارے گاؤں میں راکشش آیا تو ہم بھی اس کو مار گرائیں گے۔‘‘
کہنے کی ضرورت نہیں کہ کہانی جاری تھی۔ حالات بدل رہے تھے۔ زمین انگڑائی لے رہی تھی۔ آسمان کسمسا رہا تھا۔ ہواؤں کی سمت بدل رہی تھی۔ فضائیں سنبھل رہی تھیں۔ چاند
’’کہانی وہ بھی کہتی ہے جو کہا نہیں گیا۔ وہ بھی سناتی ہے جو سنا نہیں گیا۔ وہ بھی دکھاتی ہے جو دیکھا نہیں گیا۔ وہ بھی سناتی ہے جو سنائی نہیں دیتا۔‘‘
جب ایڈمنسٹریشن (انتظامیہ) کہانی انکل کی زبان پر لگام لگانے میں ناکام رہتا ہے تو جھٹکے سے کہانی انکل کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ جیسا کہ لگتا ہے اب کہانی ختم ہو گئی لیکن نہیں کہانی کی یہیں سے شروعات ہوتی ہے۔ اب کہانی انکل کہانیاں نہیں سنا سکتے۔ لیکن انھوں نے جس نسل کو تیار کیا ہے وہ اب کہانی انکل کی مہم کو آگے لے جانے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ ہر گلی، ہر گھر میں کہانی انکل نظر آنے لگے ہیں۔ نظام نے جن لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جو نظام کی غلط پالیسیوں کے پالنے والے ہیں خود ان کے گھروں میں بھی کہانی انکل سانس لیتے ہیں۔ یہی کہانی انکل کی جیت ہے۔
کہانی انکل ایک ہی وقت ہماری روایتی قصہ گوئی والی طرز کو زندہ رکھنے اور علامتوں کے آرام دہ استعمال کے ساتھ ہی بچوں میں تجسس کو بھی پیدا کرتے ہیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بچوں کے ذہنی ارتقاء کے لیے ان کے اندر تجسس کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ میڈیا کرانتی کا دور ہے۔ یہاں سب کچھ دکھا دینے کا چلن ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ اب بچوں میں تخیل کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ فرد واحد پر خاندان اور دنیاوی آپادھاپی نے ماں باپ کو اتنا مصروف کر دیا ہے کہ وہ بچوں کے لیے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں، اب نانی دادی بھی کہانیاں نہیں سنا پاتیں۔ ایسے میں کہانی انکل بچوں کو ایک نئی لیک (طرح) پر لے جانے کی کوشش بھی ہے۔
٭٭٭