غزلیں
اعجاز عبید
(1)
اگرچہ یادوں نے محفل یہاں سجائ۔۔۔ پر
جو نیند آتی ہے سولی پہ بھی، سو آئ۔۔۔پر۔۔۔۔!
سلگتی ریت کو دو دن میں بھول جائیں نہ ہم
یہ ایک شعر ہے اپنی برہنہ پائ پر
میں فرشِ خاک پہ سوؤں تو سوتا رہتا ہوں
ہزار خواب اترتے ہیں چارپائ پر
نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھِن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائ بھائ پر
عطا کرے مجھے اقلیمِ شعر کی شاہی
یہ شک نہیں ہے مجھے تیسی کبریائ پر
(2)
میرا اس کا میل ہی کیا، کیوں اس کا سوالی میں؟
وہ ہے اک مصروف سی ساعت، لمحۂ خالی میں
دیکھیں کب تک دیکھا ان دیکھا کرتے ہیں لوگ مرا
شعر ہیں اب بھی عروج پہ مائل، گو ہوں زوالی میں
کہنے سنے کی سب باتیں کب کی ختم ہوئیں
اب وہ بھی چپ چاپ رہے ہے ، خالی خالی میں
ہوا کا جھونکا۔۔ اس کو مہکا دے ، مجھے بکھرا دے
وہ آراستہ باغِ عدن ہے ، ربعُ الخالی میں
کرنوں یا پانی کو ترسنا دونوں کا ہی نصیب
وہ آمیزن بن کی دھرتی، قطب شمالی میں
قصّے طوطا مینا کے اب سب کو بھول گۓ
کس کا نام لۓ یوں چہکوں ڈالی ڈالی میں
(3)
سینۂ ساز میں چپ چاپ اترتے ہم بھی
ڈولتی ڈوبتی سرگم میں ابھرتے ہم بھی
تیز آندھی کا اشارہ بھی اگر مل جاتا
زرد پتوّں سے فضاؤں میں بکھرتے ہم بھی
ہم سے گر ایک کرن بھی کبھی ٹکرا جاتی
اگلے پل آئنہ صورت سے نکھرتے ہم بھی
کسی ننھے سے کھلونے سے بہل جاتے ہم
چند بے معنی سے الفاظ سے ڈرتے ہم بھی
تیرتے رہتے یوں ہی سارے حبابی خیمے
سطحِ آب سے اس طرح گزرتے ہم بھی
***