غزل
عبداللہ ناظر
حسین چاند سا چہرہ خمار آنکھوں میں
کہاں سے آئے ہو بے اختیار آنکھوں میں
نہ وہ چمن ہے نہ رنگِ بہار آنکھوں میں
رہا نہ لطفِ نظر اشکبار آنکھوں میں
بلا سے وعدہ تجھے اپنا یاد ہو کہ نہ ہو
امید قلب میں ہے انتظار آنکھوں میں
سزائے وعدہ خلافی ملی ہے جو تجھ کو
میں پڑھ رہا ہوں تری شرمسار آنکھوں میں
کبھی تو مجھ کو بھی تعبیر ان کی سمجھاؤ
جو خواب تم نے بنے بے قرار آنکھوں میں
ثبوتِ حسرتِ اظہارِ حالِ دل کے لیے
سجائے بیٹھا ہوں تصویرِ یار آنکھوں میں
بڑھے قدم تو رکے بس پہنچ کے منزل پر
ہوائیں پھونک رہی تھیں غبار آنکھوں میں
یہ کس نے توڑ دیا دل تمہارا اے ناظر
امڈتے اشک ہیں کیوں بار بار آنکھوں میں
***