سہ ماہی ’’اردو ادب‘‘ کے شمارہ 248-49 (اکتوبر۔دسمبر 2018- جنوری۔مارچ 2019) میں شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب ’’اردو کا ابتدائی زمانہ: ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو‘‘ میں مذکور اس امر پر کئی تبصرے شائع ہوے ہیں کہ لفظ ’’اردو‘‘ کا اس زبان کے واحد نام کے طور پر بلا شرکتِ غیرے اور متفقہ طور پر اختیار کیا جانا اور مروج ہونا نسبتاً حال کا معاملہ ہے۔ مبصرین میں سے بعض کے خیال میں یہ رواج 1857 یا اس کے بعد کی بات ہے اور بعض کے نزدیک اس سے کچھ پہلے کی۔ تاریخ کے اس مقام کا درست تعین تحقیق کے نقطۂ نظر سے ضرور اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سے اس امر کے درست ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا جسے فاروقی صاحب کی کتاب میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کیا یہ امر مذکورہ کتاب میں پہلی بار بیان کیا گیا یا اس میں اولیت کا شرف کسی اور محقق یا کتاب کو حاصل ہے، یہ طے کرنا بھی اس معاملے میں بنیادی اہمیت نہیں رکھتا۔
فاروقی صاحب کی یہ کتاب سب سے پہلے کراچی سے آج کی کتابیں کے زیرِ اہتمام 1999 میں شائع ہوئی۔ فاروقی صاحب نے اسے ’’اردو ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو‘‘ یا اس سے ملتاجلتا نام دیا تھا۔ میں نے کتاب کے ناشر کی حیثیت سے مشورہ دیا کہ اس کو کتاب کا ذیلی عنوان بنا دیا جائے اور اصل عنوان ’’اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ ہو جو میری رائے میں زیادہ رواں اور سبک نام تھا اور کتاب کے ایک بنیادی اور اہم قضیے کی طر ف واضح اشارہ بھی کرتا تھا۔ یہ عنوان فاروقی صاحب کو پسند آیا اور کتاب کے تمام ایڈیشن (پاکستان اور ہندوستان میں) اسی عنوان سے شائع ہوئے۔
فاروقی صاحب نے اس عنوان پر جس وجہ سے بھی صاد کیا ہو وہ جانیں، میری تجویز کی بنیاد اس پر تھی کہ کتاب سے یہ نکتہ واضح طور پر ثابت ہوتا تھا کہ اس زبان کو اتفاقِ رائے سے ’’اردو‘‘ کا نام دینا تاریخ کا معاملہ ہے اور غالباً سیاسی نقطۂ نظر کا بھی۔ تاہم یہ بات اس اعتبار سے تشنہ رہی کہ نہ تو فاروقی صاحب نے (اس کتاب میں یا اس کے بعد کے بیس برسوں میں کہیں اور، اور نہ میری معلومات کی حد تک کسی اور نے، اس اتفاقِ رائے اور اس کے تاریخی اور سیاسی پس منظر کو تفصیل سے کھنگال کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ (1) یہ اہم اور دوررس تہذیبی فیصلہ کن با اثر شخصیات یا طبقات نے کیا، اور (2) یہ اتفاقِ رائے کس طرح اتنی تیزی اور کامیابی سے مروج ہو گیا کہ اب بہت سے لوگوں کو یہ تصور تک کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پونے دو سو سال پہلے اس کا وجود نہ تھا اور یہ زبان، جسے اب اردو اور صرف اردو کہتے ہیں، کئی ناموں سے پکاری جاتی تھی۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسا اہم موضوع ہے جس پر زبان اور تاریخ کے محقق اگر توجہ دیں تو بہت سے حقائق واضح ہو سکتے ہیں۔
1857 کے بعد کا زمانہ اس اعتبار سے بھی خصوصیت رکھتا ہے کہ اس میں پرنٹنگ کی قبولیت اور مقبولیت بڑھی اور تحریری زبان کے وسیع پیمانے پر رائج ہونے سے اس زبان کے نام، رسم الخط اور دیگر خصوصیات کے بارے میں مختلف موقف بالکل واضح ہو کر سامنے آئے۔ چھپائی کے لیے کھڑی بولی کی جس بدلی (اور بدلتی) ہوئی شکل نے فارسی پر اساس رکھنے والے رسم الخط کا استعمال کیا اس نے اپنے لیے ’’اردو‘‘ کا نام پسند کیا اور جس دوسری بدلی (اور بدلتی) ہوئی شکل نے ناگری لپی اختیار کی وہ خود کو ’’ہندی‘‘ کہنے لگی اور اس کا یہ نام باقی سب نے (بشمول اردو والوں کے) تسلیم بھی کر لیا۔
اب اگر فاروقی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ’’اردو‘‘ کا نام اختیار کیے جانے سے پہلے اسے (اس کے موجودہ رسم الخط سمیت) اتنے ہی واحد، بلا شرکتِ غیرے اور متفقہ طور پر ’’ہندی‘‘ کہا جاتا تھا، تو ان کی اس بات کو تسلیم کرنے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ’’ہندی‘‘ اس زبان کا واحد نام نہیں تھا؛ اس کے اور بھی نام مروج تھے، جیسا کہ اب تک کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ ’’ہندی‘‘ نام صرف اس زبان سے مخصوص نہ تھا جسے اب ’’اردو‘‘ کہا جاتا ہے؛ نہ صرف ناگری رسم الخط میں لکھی ہوئی زبان بھی ’’ہندی‘‘ کہلاتی تھی، بلکہ کئی اور زبانیں، جو غالباً لسانی خصوصیات کے اعتبار سے کھڑی بولی سے اتنا قریبی تعلق نہیں رکھتیں جتنا چھپی ہوئی اردو یا چھپی ہوئی ہندی کا ہے، مختلف جگہوں پر ’’ہندی‘‘ کے نام سے مذکور ہیں۔
پچھلے دنوں اپنی تحقیق کے دوران مجھے لائلپور خالصہ کالج، جالندھر، میں 1921 کی چھپی ہوئی ایک کتاب ’’تحفۂ بے نظیر‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ دیوان حافظ کی منتخب غزلوں اور ان کے منظوم ترجموں پر مشتمل ہے اور مترجم اور مولف کا نام شیخ غلام حیدر ہے۔ توجہ کے قابل بات یہ ہے کہ اپنے ترجمے کو۔۔۔ جو پنجابی زبان اور اس کے فارسی۔ اردو رسم الخط میں ہیں (جسے اب غالباً گورمکھی کے جواب کے طور پر ’’شاہ مکھی‘‘ کہا جانے لگا ہے)۔۔۔ شیخ صاحب نے ’’شرحِ نظمِ ہندی‘‘ کا نام دیا ہے۔ سرورق کی پوری عبارت درجِ ذیل ہے:
تحفۂ بے نظیر
یعنے
خلاصہ دیوان حافظ
بشرح نظم ہندی
مولفہ
شیخ غلام حیدر سیکنڈ ماسٹر مدرسہ پنڈ دادنخان جہلم
بنا بر افادہ و قدردانی اہل مذاق مُلک پنجاب
بار ہشتم
سنہ ۱۹۲۱ع میں
خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور میں باہتمام میاں عبد المجید پرنٹر و پبلشر طبع ہوئی
واضح رہے کہ مذکورہ کالج مغربی پنجاب کے شہر لائلپور میں ’’خالصہ کالج‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا تھا اور 1949 میں (اپنی لائبریری سمیت) جالندھر منتقل ہوا جہاں اس نے ’’لائلپور خالصہ کالج‘‘ کا نام پایا جو اب تک برقرار ہے۔ خود شہر لائلپور کا نام بعد میں بدل کر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔
اس کتاب سے مجھ پر انکشاف ہوا کہ 1921 تک فارسی۔ اردو رسم الخط میں لکھی اور چھپی ہوئی پنجابی زبان کے لیے بعض جگہ ’’ہندی‘‘ کا نام بھی مستعمل تھا۔ ممکن ہے کسی اور زبان یا کچھ اور زبانوں کو بھی ’’ہندی‘‘ پکارا جاتا رہا ہو۔ یہ امر تحقیق طلب ہے۔ تاہم یہ بات تقریباً واضح ہے کہ جب ناگری خط میں لکھی اور چھاپی جانے والی موجودہ ہندی نے اسے اپنے واحد اور بلا شرکتِ غیرے نام کے طور پر اختیار کیا تو پنجابی یا کسی اور زبان نے اس دعوے کو چیلنج نہیں کیا۔۔ اور اردو والوں نے تو بالکل بھی نہیں، کیونکہ ان کی ترجیح اپنی زبان اور رسم الخط کو ایک علیحدہ، مستقل اور پائیدار شناخت دینا تھا۔ اب اگر فاروقی صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اردو دراصل ’’ہندی‘‘ نام کی واحد اور بلا شرکت غیرے وارث ہے تو یہ بات نہ تو حقائق سے ثابت کی جا سکتی ہے اور نہ غالباً اس سے اردو کی وہ الگ شناخت قائم رکھنے میں کوئی مدد مل سکتی ہے جس پر ہندوستان میں اردو کے اربابِ حل و عقد نہایت دو ٹوک اصرار کرتے چلے آئے ہیں۔ اگر اس بارے میں کوئی دوسرا نقطۂ نظر ہے تو اسے واضح طور پر سامنے آنا چاہیے۔
٭٭٭