احمد رشید کے بیانیوں کا تنزیہی عمل ۔۔۔ پروفیسر طارق سعید

احمد رشید میرے معاصر ہیں لیکن میں ان کو ان کے افسانوں کے ذریعہ ہی جانتا ہوں۔ شاید کسی فنکار کو اس کی تحریروں کی روشنی میں جاننے کا عمل، سب سے بہتر جاننا ہے۔ حقائق کا تنزیہی عمل جب کسی بیانیہ کا مقدر بنتا ہے، تو بقول شافع قدوائی ’’احمد رشید کے لا زمانی اور لامکانی جہت کا تھوڑا سا اندازہ ہو جاتا ہے۔ احمد رشید کے بیانیہ میں زندگی کا التباس ایک تخلیقی تجربہ بن کر اور اسے تہذیبی علائم سے آشکار کرتا ہوا کسی دردمند انسان کا قول محال بن جاتا ہے۔ بیان کنندہ، اصل مصنف اور تخلیق کار کی حیثیت سے ہر جگہ حاضر و موجود ہے اور غائب متکلم کے بجائے بنفس نفیس، بیان کنندہ خود، بیانیہ کے دال و مدلول کی بنیادی شرط پورا کرتا ہوا بیرونی و خارجی مظاہر پر اپنی تخلیق کی مہر ثبت کرتا ہے۔ احمد رشید کے بیانیوں کا یہی وہ داخلی ارتکاز سازی کا عمل (Internal Focalisation) ہے، جہاں غیر یا راوی بھی ارتکاز کے قیام میں معاون و مددگار ہے۔ ارتکازِ بیانیہ کی تنزیہ کی ایک مثال کہانی ’’برف تلے‘‘ ہے جو ’معانی کی تلاش‘ میں ہے۔ سگریٹ، ماچس، دھواں، ان کے دائرے، تنہائی، خاموشیاں، اندھیرا، آغوش، ریشمی، ملائم اور سیاہ زلفیں، بے خودی کا عالم، اندھیرا اور کمرے سے باہر نکلنا خارجی ارتکاز کی لسانی اکائیاں ہیں لیکن ان لسانی اکائیوں میں بیان کنندہ ’’معنی تلاش کر رہا ہوں‘‘ کا داخلی ارتکاز کا اعلان کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ قاری ’’برف تلے‘‘ کہانی میں ارتکاز کی جب شرطوں پر ایک نظر ڈالتا ہے تو اسے زبردست حیرت ہوتی ہے کہ احمد رشید کی Story line مندرجہ ذیل خطوط پر چلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔

(۱)    لسانی تفاعل کا موضوع اور موٹف کا ارتکاز

(۲)    ناظر اور منظر کا ارتکاز

(۳)    بصارت اور بصیرت کا ارتکاز

(۴)    بیان کنندہ، فیبولا اور سوژیٹ کا ارتکاز

(۵)    یادداشت، حافظہ اور وقت و مکان کا ارتکاز

(۶)    ٹھوس زمینی حقیقتوں کو اجنبی بناتے وقت بیانیہ کے وژن سے ارتکاز

اب احمد رشید کے بیانیہ سے ایک مختصر سی مثال، ان کے بیانیاتی اکائیوں سے پیش ہے۔ کہانی کا عنوان ہے ’’تیسری شخصیت‘‘ عنوان ہی سے ٹھوس زمینی حقیقت کا خارجی روپ، اس کا داخلی روپ اور ان کے درمیان باہم شدید کشمکش کا ہونا، کے ارتکازات کی اطلاع دے رہا ہے۔ بیانیاتی اکائیوں کا اجمالی خاکہ ان لفظیات میں مضمر ہے، ’’شریف آدمی کا بزدل ہونا، بیرونی شخصیت، اندرونی زندگی، چہرے پر کالک، شرافت کا تمغہ، خوبصورت بھابھی، پردہ، فرد کی آنکھیں، کپڑے اتارنا، پتلون کی بیلٹ درست کرنا، خوبصورت عورتیں، دسمبر کی راتیں، بھابھی کے جسم پر لحاظ ڈالنا، بھابھی اور دیور، بھیا کا دہلی جانا، بھابھی کا فطرتاً ڈرپوک واقع ہونا، آپ کا شریف آدمی ہونا، اندر سے کنڈی بند کرنا، احساس ندامت گناہ کی لذت، نئی پڑوسن، ملا داڑھی کی اوٹ، مرد کی ذات کا گندہ ہونا، بھابھی کا بھیا کو نماز کی تاکید کرنا، آدمی کا مختلف سیرتوں کا ہونا (جیسا کہ بھابھی کا کردار باوجود اچھے بچے، اچھا شوہر اور اچھا گھر) بھابھی کا زور دے کر بیان کنندہ حاضر راوی، حاضر متکلم کو یہ مخاطب کرنا کہ ’’مجھے تمہاری ضرورت ہے‘‘ یا بھابھی کا اعتراف، ’’میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں‘‘ اور بھابھی کی تیسری شخصیت کا ظہور۔

اس مختصر سے خاکہ سے بیانیہ کی بنت میں فیبولا کی کارگزاری آپ نے ملاحظہ کیا، احمد رشید نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ ایک زمینی حقیقت کو ایک ناظر کی بصارت سے ہم آمیز کر کے، بصیرت آمیز نکتہ پر سوژیٹ کو مرتکز کیا ہے۔ یہاں حافظہ اور یاد داشتیں، دسمبر کی سردی اور گرم مرد کی بیوی کا کمرہ، وقت اور مکان کا ایک ایسا آمیزہ پیش کرتا ہے کہ صرف ’’گرم مرد کی بیوی‘‘ کا استعارہ بلکہ علامت یہ ثابت کرتا ہے کہ خداوند قدوس نے احمد رشید کو ارتکاز نظر کی دولت بیداد سے خوب خوب سرفراز کیا ہے۔ یہاں نمازی بھابی میں کسی تیسری شخصیت ’بیوی‘ کا ہونا، عجب معنی کی جانب اشارہ کناں ہے اور شدید اخلاقی بحران کو خاطر نشان کرتا ہے۔

عصری اخلاقی بحران احمد رشید کے بیانیوں کا وہ جوہر اصلی ہے، جو ان کے تمام فیبولا میں ناخن اور گوشت کی طرح موجود ہے۔ ان کے بیانیوں کا نفس مطلب جو کہانی کے متن کے ذریعہ سوژیٹ کی تشکیل میں معاون ہے، اخلاقیات کی تاکیدی جہت کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اس کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھیے۔ اخلاقی بحران کے مناظر فسادات میں عام طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ کہانی کار نے ایک سانحۂ فاجعہ کو دیکھا، اس کا قلم بے قرار ہوا، اس بے قراری نے متن افسانہ کے تفاعل کو متحرک کیا اور سوژیٹ پر تاکیدی ارتکاز نے فیبولا کے ایک ظاہری روپ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا۔ اس پورے فنی تماشے میں اخلاقی پستی کا اضطراب ہی سبب بنا، پلاٹ کی تشکیل کا، اور اسی اضطراب سے کمی اور بیشی سے بیانیہ کا تاثر، کم یا زیاد پیٹرن کے ساتھ، ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کسی مضطرب منظر مثلاً فسادات کے مناظر پر احمد رشید کا بیانیہ پوری قوت کے ساتھ، کہانی کے سوژیٹ (متن) سے ناخون اور گوشت کی طرح پیوست رہتا ہے۔

’’سہما ہوا آدمی‘‘ عنوان ہی اضطرار و اضطراب اور ایک اخلاقی جہت کو نشان زد کر رہا ہے۔ گھر، شہر، گلی، بارود، دھواں، دھماکے، بوٹوں کی آوازیں، ٹانگوں کے درمیان کسی خاص مذہب کی پہچان، مارو، مارو، ٹائیں، ٹائیں، پٹ پٹ، دہلتی ہوئی زمین، خاموش آسمان، زن زن دوڑتی کار، بھاگم بھاگ، کرفیو، انسان گھروں میں اسیر، موت زندگی کے تعاقب میں اور ماں، بیٹی، بہن سب اپنی کائنات کی بربادی کی نوحہ گر۔ ’’میرا فساد میں سب کچھ لٹ گیا‘‘ (ایک خوبصورت عورت) کی غماز المناک کہانیاں۔ بیانیہ کا یہ تہذیبی المیہ بھارتی اقدار کی شکست کا کھلا ہوا وہ منظرنامہ ہے، جہاں کپڑوں سے یا پائجامہ کھول کر مذہب کی پہچان کی جاتی ہے (ایک خوبصورت عورت) یا ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘ یا ’’جدید دور میں تہذیبی انحطاط کا نام ماں ہے۔‘‘ یا ’’خاندانی وقار کی خاطر بیٹی کا اسقاط حمل ضروری ہے لیکن بیٹے کا ناجائز جنسی عمل باعث افتخار ہوتا ہے‘‘ جنسی اباحیت کی مثالیں کہاں تک دی جائیں، جب پورا معاشرہ ہی گلے گلے گناہوں دھنسا ہوا ہے اور بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور شرم کا داغ لگنے سے وہ منہ چھپاتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ اسے جینے دے یا اس ذلت کی مٹی کو مٹی میں ہی دبا دے۔ (’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ سے اخذ کچھ لسانی اکائیوں کے تغیر کے ساتھ)

اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ احمد رشید کے بیانیے کا پیٹرن پوری قوت کے ساتھ بیانیہ کے داخلی ارتکاز سے مربوط، متصل اور Involved ہوتا ہے بیانیے کے اس داخلی ارتکاز کے ارتباط و اتصال سے کہانی میں ایک زبردست ردم (Rhythm) پیدا ہوتا ہے۔ احمد رشید کے بیانیے معاشرہ کی اخلاقی زوال کی تصویر کاری کے سبب، کیوں کہ افسردہ خاطر ہیں، اس لیے ان کے قصوں میں المیہ کی غمناک موسیقی کا پیدا ہونا تخلیق عمل کا ایک فطری عمل کہا جائے گا۔ کسی بھی فن پارے میں غمناک موسیقی کا ظہور، کسی بھی نشاطیہ آرٹ کے مقابلہ، ہزارہا درجہ بہتر اور اثرو تازہ کے لحاظ سے ہزارہا درجہ دیرپا ہوتا ہے۔ Comedians، جوکر اور میڈیاکرس در اصل وبال ادب ہیں، وہ عصری انسانی رسوائیوں اور زوال آدم خاکی بدعنوانیوں سے نابلد ہوتے ہیں۔ گوں گا قلم اور اندھا مصنف، انسان کی غمناکیوں کو کیوں کر پسند کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دانشور احمد رشید کے دل گداختہ کی چند دردمند آوازوں کی مثالیں ملاحظہ کیجیے:

(۱)    ’’کتا اچانک ڈبہ کی جانب لپکا، جس کی کھڑکی میں سے ایک مسافر نے اپنی جھٹن اس کی طرف پھینکی جو غلیظ کپڑے پہنے، بھیک مانگ رہا تھا۔ کتا لپک کر اس دونے کو اٹھا کر لے گیا۔ بچے کی بھیگی ہوئی مایوس آنکھیں اسٹیشن کی دیوار پر اشتہار پر ٹنگ گئیں۔ ’’میرا بھارت مہان ہے‘‘(کہانی بن گئی)

(۲)    ’’زندگی کے بوجھ میں دھنسا بچہ زور زور سے آواز لگا رہا تھا۔ ’’آج کی تازہ خبر، بچوں سے مزدوری کرانا اپرادھ ہے۔‘‘ (کہانی بنگئی)

(۳)    ’’آنکھیں آنسوؤں میں بھیگ گئیں اور مرد ہونے کا خول، جیسے پگھل کر عورت ہونے کے سانچہ میں ڈھل گیا۔‘‘ (کہانی بن گئی)

ایک سوگوار فضا، غمناک ردم، غریب الوطنی، جلاوطنی، مہاجر ہونا، انسانی تہذیب کے مقدرات کی کتاب میں مرقوم فیصلے (ویٹنگ روم)، ایک کنگال، تنہا، مسافر انجان منزل کی جانب آمادۂ سفر، اپنے بوجھ تلے دبا ہوا، کسی کو کسی کی خبر نہیں، نفسی نفسی کا عالم (ویٹنگ روم) سچ بولنے کا انجام سزائے موت۔ (ویٹنگ روم) یا وہ کہانی ’’فیصلے کے بعد‘‘ کا اختتام ملاحظہ کیجیے:

’’اس کے چاروں طرف غبار ہی غبار ہے، سر میں خاک، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے اور چہرے پر لکیروں کے درمیان اس کی شناخت کھو گئی ہے۔‘‘ یا ’’ہاف ہوٹل بلڈ‘‘ افسانہ کی یہ تحریر ’’خودکش نہیں، خود کشیدگی، ایک جرات مندانہ عمل ’’تم سے میں ہار گئی، نرس نے سنجیدگی سے کہا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئی ہیں‘‘ یا ’’اس کی آنکھیں پتھرا گئیں جو ابھی تک جھونپڑے پر نیگی، سرکیوں کو گن رہی تھیں جس میں غریبوں کی زندگی کے ایک ایک پل کا حساب موجود ہے۔ (کہانی رینگتے کیڑے کی آخری سطریں)

کہاں تک مثالیں پیش کی جائیں، جب کہ یہ مثالیں بغیر کسی کوشش کے Random انتخاب ہے، لیکن کہانی کا سوژیٹ المیہ کی فضا سے معمور ہے۔ اور کیوں نہ ہو، سارا ملک، سارا ماحول، سارا معاشرہ بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ دنیا ایک کرب کا سمندر (کہانی) کی حقیقت بن چکا ہے۔

ہر جانب ’’دھواں دھواں خواب‘‘ (کہانی) اور ’’اندھا قانون‘‘ (کہانی) کا بول بالا۔ یہی اس کائناتی المیہ کا نوحہ ہے جس کو غم گسار، احمد رشید بیان کر رہے ہیں۔

اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ احمد رشید کا رنج و محن سے مملو بیانیہ، در اصل ایک زمینی حقیقت ہے جس کا نفس مطلب اور سوژیٹ انتہا کی واضح اور شفاف معنی پر دلالت کرتا ہے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ سوژیٹ میں ذرہ برابر التباس نہیں تو بیانیہ کی تشکیل کیسے ممکن ہو سکے گی اور بیانیہ اگر تلبیسی عمل کی تحیر افزونی سے مبرہ ہے تو کہانی بننے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ ٹھوس زمینی حقائق کی پیشکش کو کامیاب فنکار، بیانیہ کی تشکیل میں کس طرح ملتبس کرتا ہے، احمد رشید کے حوالے سے پروفیسر صغیر بجا طور پر فرماتے ہیں:

’’اسٹیشن کی منظر کشی، انسانوں کی چہل پہل، ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کا انتظار، یہ سب کچھ ریل کے سفر کی تصویرکشی ہے لیکن حقیقت میں زیریں سطح پر انسانی زندگی اور کائنات کے فناہونے کی آتی جاتی لہریں، انسان اور اس کی تہذیبی تاریخ کی منہ بولتی تصویریں ہیں جو مذکورہ کہانی (ویٹنگ روم) کا جزو لازم بن جاتی ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۱۸)

حقیقت تو یہ ہے کہ احمد رشید کے بیانیے، التباس و اغماض کی قابل رشک پردہ داری کے غماز ہیں کہ امجد کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے:

آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے

کل شب عجیب عکس مرے آئینے میں تھے

امجد اسلام امجد

التباس کی تحیر افزونی کی انتہا یہ ہے کہ شافع قدوائی سے رتن سنگھ تک احمد رشید کو استعارہ سازی اور علائم کاری کے ہنرمند کے طور پر دیکھتے ہیں، ساتھ اس علائم ساز کے قلم کو بقول نارنگ ’’کہانی کا جوہر یعنی اساطیر کا تفاعل‘‘ کا محافظ اور امین بتاتے ہیں۔ متھ، اسطور سازی، تمثیل اور قول محال، فکشن کے ایسے حربے ہیں، جس کے ذریعہ بعینہ زندگی کا سچا واقعہ بیانیہ کی بُنت میں آ کر، حقیقی زندگی کا ’’التباس‘‘ بن جاتا ہے اور احمد رشید کے حوالے سے صحیح بات یہ ہے کہ ملتبس زندگی کا حقیقی واقعہ جو اجنبی بن کر بیانیہ میں نمودار ہوا ہے، در اصل احمد رشید کو یہ تخلیقی نمود بہت عزیز و محبوب ہے اور اسی تخلیقی رویے سے ان کی شناخت بآسانی کی جا سکتی ہے۔

بیانیہ کا یہ تخلیقی رویہ، بیان کنندہ کی حاضری کے سبب، ظہور پذیر ہوا ہے۔ یہاں ایک شبہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ احمد رشید کے افسانوں میں راوی کا کردار کمزور ہے یا احمد رشید ہی راوی کا کردار بھی نبھا رہے ہیں۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ شاعری ہو یا فکشن، بغیر راوی کے معاملہ نہیں بنتا، یعنی شعر اور قصہ کی ایک ضرورت کا نام راوی ہے ؛ صرف ایک مصرعہ:

’’دیکھا! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا‘‘

اس دعویٰ کو پایۂ ثبوت تک پہچانے کے لیے کافی ہے۔ یاد رہے کہ جب فنکار اپنی تخلیق میں حد درجہ Involve ہو جاتا ہے تو ’’مضمر راوی‘‘ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے اور بیانیہ کے اس مضمر راوی کی صورتیں عجیب و غریب ہیں۔ یہ متکلم، مشاہد، عامل، مخبر، ہمہ داں، فاصلاتی حتیٰ کہ غیر مطلوب راوی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر بہروپ یا ہمزاد بن جاتا ہے۔ اس لحاظ سے احمد رشید کا مضمر راوی، بہت حد تک اپنے بیانیوں میں مندرجہ ذیل طریقوں سے نمودار ہوتا ہے۔ مضمر مصنف قاری سے قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔ یہ فاصلہ ذہنی ہو سکتا ہے۔

مضمر مصنف جو قاری کو ساتھ لے کر چلنا چاہ رہا ہو، کرداروں سے قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔ دوسرے فاصلے قدر کے کسی محور (Axis) پر ہو سکتا ہے یعنی بہت کامیاب مصنفین اپنے کردار کو ہر اعتبار سے بہت زیادہ فاصلے پر رکھتے ہیں۔ عام طور پر مصنف، راوی، مشاہد اور دوسرے کرداروں کے درمیان مختلف النوع روابط تشکیل پاتا ہے اور راوی اپنے قاری سے مختلف النوع وابستگی یا علیحدگی سے مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ اختلاف شدید ذاتی تعلق سے لے کر معتدل یا قدرے تعجب خیز یا صرف ایک انوکھی علیحدگی تک ہو سکتا ہے۔

کسی بہتر اصطلاح کی غیر موجودگی میں، احمد رشید کے اس راوی کو معتبر راوی کہنا درست ہو گا۔ رشید کا یہ راوی متن کے معیار سے ہم آہنگ ہوتا ہے یا اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ (متن کی اقدار سے مراد مضمر مصنف کے معیار Norm ہیں) اور اس راوی کو غیر معتبر کہتے ہیں جب وہ اس معیار کا پابند نہ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ احمد رشید کے یہ راوی جو در اصل ایک Outsider کی طرح ہے، اتفاقیہ طور پر طنز میں ملوث ہوتا ہے۔ وہ مضمر راوی کی شکل اختیار کر لیتا ہے، غالباً اسی لیے اور اس اعتبار سے کہ ان میں دھوکہ دینے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے یعنی وہ التباس کی گہری چادر اوڑھے ہوئے ہوتا ہے لیکن ایک گہرا یا پیچیدہ طنز کسی راوی کو غیر (Outsider) بنانے کے لیے کافی نہیں ہے اورنہ عام طور پر Outsider ہونا صرف غلط بیانی کا معاملہ ہوتا ہے حالاں کہ جان بوجھ کر یا شعوری طور پر دھوکہ دینے والے راوی کردار جدید زمانے کے فکشن نگاروں کا اہم ماخذ ہیں۔ جیسا کہ احمد رشید کے طنزیہ ڈسکورس کا آئرنی سے مملو فنٹاسی کا وطیرہ ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا افسانوی بیانیہ کو دنیا اور زندگی کو جاننے اور سمجھنے کا ایک بنیادی یا اہم وسیلہ فنٹاسی کو مان لیا جائے یا پھر بیانیہ کا کوئی نہ کوئی بیان کنندہ/راوی ہوتا ہے جو کہانی سے باہر موجود ہو سکتا ہے۔ لیکن کہانی کے اندر داخل ہو کر اور قلب ماہیت سے گزر کر، مضمر راوی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ہنر کاری کا یہ تماشہ، کوئی بازیچہ اطفال نہیں اور نہ آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے مثلاً احمد رشید کی کہانی کا بیانیہ مدلول ہے، اور ان کے پلاٹ دال یا اسی طرح یہ نکتہ کہ احمد رشید کا مضمر راوی بیان کنندہ کی ہی ایک آزاد ہے، جو ان کے غیر (Outsider) کے کردار کا احاطہ کرتا ہے نیز پوری قوت کے ساتھ ثقافتی اور تہذیبی اقدار کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے احمد رشید کے بیانیے، مضمر راوی کے توسط سے سماجی سروکاروں پر گہرے طنز کی علامتی مثال بن جاتے ہیں، مثلاً ’’فول-پھول، کرب کا سمندر، رینگتے کیڑے، تیسری شخصیت، مداری، وہ اور پرندہ، سراب، کھوکھلی کگر، اندھا قانون، سفید لباس، سیاہ راتیں وغیرہ وغیرہ افسانے۔

احمد رشید کا کوئی افسانہ لے لیجیے۔ ان کا مضمر راوی، شدید طنز کا بلیڈ لیے، سماجی ناسوروں کے آپریشن پر مستعد اور منہمک ہے۔ ساتھ ہی بیان کنندہ کے اس مضمر راوی کے انکشاف کے بعد، احمد رشید کے بیانیوں کے تنزیہی عمل کا تعارف بھی مکمل ہو جاتا ہے، جو در اصل سماجی ناسوروں سے زخم خوردہ ہے، سراپا احتجاج ہے یا سرایا دعا ہے یا اس کا دل گداختہ اس نفسی نفسی کے جہانِ مضطر میں فریاد رس کے کہ، یا رحمن و رحیم، تیری کریمی کا واسطہ اے مالک کون و مکاں! اس کالی کائنات کو مشرق تا مغرب پھر سے بقعہ نور سے بھر دے۔ اسی نور و رحمت کے ذکر کو دوبارہ بلند فرما اور خاک و خون سے آلود زمین کو، نور ہی نور (صلی اللہ علیہ و سلم) سے تزکیہ فرما دے، آمین۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے