احمد رشید کی نثری نظمیں (خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق) ۔۔۔ پروفیسر شافع قدوائی

 

تخلیقی اظہار کا وفور صنفی حد بندیوں کا تابع نہیں ہوتا اور اکثر یہ اصناف کے بے لچک درجہ بندی پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ مرتعش اور پہلو دار اظہار نثر اور نظم کے باہمی ادغام سے نمو پذیر ہوتا ہے اور اس کی سب سے بہتر مثال نثری نظم ہے۔ تخلیقی دبازت کا کثیر حسی بیانیہ عرصہ قائم کرنے والے متعدد شعراء بشمول شفیق فاطمہ شعری، خلیل مامون، فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید، سارہ شگفتہ، شائستہ یوسف، خورشید اکرم اور شبنم عشائی نے اس صنف کو ایک نئے شعری آہنگ کے طور پر رائج کرنے کی سعی کی اور ان سے قبل خورشید الاسلام، محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی تھی مگر اوزان اور بحور اور ردیف و قافیہ کے قتیل اردو معاشرہ میں نثری نظم کو قبول عام کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔

مغرب میں علی الخصوص امریکہ میں نثری نظم کے تجربے پر ڈیڑھ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مشہور امریکی ناول نگار شیرو وڈ اینڈرسن (Sherwood Anderson 1876) نے اپنی تحریروں میں نثر اور نظم کی تفریق حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اینڈرسن کی کتاب (Winessberf ohio, 1919) شیر وڈ اینڈرسن اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔ دونو بل انعام یافتہ امریکی ادیبوں ارنسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway 1889-1961)اور ولیم فوکنز (William Faulkner 1897-1962)نے اینڈرسن کے گہرے اثرات کا برملا اعتراف کیا اور ہیمنگوے نے تو کثرت سے نثری نظمیں بھی لکھیں۔ اس امر سے واقفیت عام نہیں ہے کہ فرانز کافکا (Franz Kafca 1883-1924) اور جیمس جوائس (Joyce 1824-1924) نے بھی نثری نظمیں لکھیں۔ نثری نظم تخلیقی ارتباط کے اسرار کی نئی منزلوں کا پتہ دیتی ہے لہٰذا جامد تقلید سے گریزاں فنکار اسے مسلسل ذریعہ اظہار بناتے رہتے ہیں اردو میں بھی کچھ یہی صورت نظر آتی ہے۔ خیال انگیز افسانوں کا ایک مخصوص اسلوب قائم کرنے والے عہد حاضر کے معروف افسانہ نگار احمد رشید نے اب نثری نظم کو اپنی تخلیقی تگ و تاز کا محور بنایا ہے۔ احمد رشید کو متعین بحور، ردیف اور قوافی کا مربوط نظام، مخصوص صنفی ہیئت اور جذباتی مدارات کا شعوری اہتمام خوش نہیں آتا۔ اس عمومیت سے گریز پائی سے ان کی تازہ کاری کی کشاکش کا ثمرہ ان کی سو سے زاید نثری نظمیں ہیں جواب ایک مجموعہ کے طور پر شائع ہو رہی ہیں۔ اردو میں نثری جملوں کا اختتام فعل پر ہوتا ہے لہٰذا مترنم آہنگ کی تشکیل بہت دشوار ہو جاتی ہے تاہم مصرع کے مقابلے میں جملہ زیادہ خود مکتفی (Self contained) ہوتا ہے۔ لیکن احمد رشید نے اس تصور کی بھی تکذیب کی ہے۔ جملے میں الفاظ سیاق، در و بست، اور تراکیب الفاظ کے ادغام سے اپنا وجود قایم کر کے معنی کی سطح پر سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ احمد رشید نے اپنی نظموں کی اساس حیات انسانی کے متضاد اور متناقض رویوں کا بیک وقت اثبات اور استر داد کرنے والے جملوں پر رکھی ہے۔ لمحہ منور کی سحر انگیزی کو حسی واردات کے ایک متحرک سلسلہ کے طور پر پیش کرتی ہیں اور معنی کی حتمی ترسیل کو موخر کرتی ہیں اور قاری کو قرأت مکرر کی طرف راغب کرتی ہیں کہ یہی اچھی شاعری کا لازمہ ہے) تشدد، جبر، بے رحمی اور انتظام سے نمو پذیر ہونے والی دنیا میں مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی ضوابط محض طاقت کے محور پر گردش کرتے ہیں۔ عفو و درگزر کی بالا دستی پر اصرار کرنے والا ہر نظام تشدد اور انتقام کو بنظر استحسان دیکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے اجتماعی حافظہ میں زیادہ تر ان افراد کے نام محفوظ ہیں جنھوں نے انسانی خون کی ارزانی کو روا رکھا۔ اصل قوت جارحانہ رد عمل کو شعوری طور پر مسلسل موخر کرتے رہنا ہے۔ سزاد بنا در اصل اپنی لاچاری اور بے بسی کا اعتراف ہے کہ طاقتور انسان کو قتل تو کر سکتا ہے مگر اس کے عیوب اور نقائص سے درگز رنہیں کر سکتا۔ طاقت جلا پاتی ہے معاف کرنے سے۔ اس لیے انسان کی ساری تگ و دو انا کی آبیاری سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ انا کی تسکین معافی سے زیادہ ہوتی ہے۔ احمد رشید کی ایک مختصر نظم اسے ایک Lived Reality کے طور پر پیش کرتی ہے بہت کمزور انسان تو معافی کرنے پر مجبور ہے مگر طاقت ور عفو سے گریز کر کے اپنی ضمیر کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے اور یہی اصل ناتوانی ہے۔ رواداری اور خوش خلقی سے طاقت کا حصول نا ممکن نہیں اور یہی اصل طاقت کی امتیازی صفت ہے۔

’’شناخت‘‘

ہم اس سے ناتواں ہیں

کہ ہمارے پاس

عفو نہیں

ور نہ معافی

شناخت ہے

طاقت کی

اجتماعیت انسانی حرمت کی پامالی سے برگ و بار لاتی ہے اور اسے ہدف ملامت شاذ ہی بنایا جاتا ہے۔ افزونی حیات کو دو چند کرنے والی قدریں اپنی عددی قوت پر نازاں اکثریت خاطر میں نہیں لاتی۔ اس صورت حال کو ہجومیت یا (Mobocracy) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاشرتی ضابطوں سے انحراف کی سخت سزا جانور اور فرد کو دی جاتی ہے مگر جب انحراف شدید تر ہو کر معاشرے میں بڑے پیمانے پر نفوذ کر جائے تو پھر مکر وہ عمل مباح کیوں کر ہو جاتا ہے۔ احمد رشید نے پاگل پن کے شیں متضاد انسانی رویے Chronic posturing کو صورت میں پیش کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک طاقت کے نشے میں دھت اکثریت کا عمل پاگل پن کی ہی ایک شکل ہے۔

’’شکتی شالی‘‘

جانور پاگل ہو جائے

گولی ماردو

اگر انسان پاگل ہو جائے

پاگل خانے میں بند کر دو

بہو جن پاگل ہو جائے

کوئی پاگل نہ کہنے پائے

یہ کیسا پاگل پن ہے

احمد رشید نے حیات آفریں اقدار جو فی زمانہ طاق نسیاں کی زینت بنا دی گئی ہیں، پر اظہار تاسف نہیں کیا ہے بلکہ ان کے انسانی سیاق کو واضح کیا ہے گو کہ نظم تلقین میں منتقل ہو گئی ہے۔

’’اجالا‘‘

اگر تمہارے پاس

شمع ہے

اسے جلتے رہنے کے لیے

دوسروں کی موم بتیاں جلاؤ

ور نہ تمہاری

روشنی بھی

بجھ جائے گی

ہمارے عہد کو ما بعد صداقت دورPost truth period کہا جاتا ہے۔ یعنی اب سچ ایک اضافی شے ہے ٹھوس مری حقائق جذباتی رد عمل پر فوقیت نہیں رکھتے اور اب حقیقت وہی ہے جسے انسان اپنی تہذیبی، اعتقادی، اور لسانی ضروریات کی تکمیل کی خاطر وضع کرتا ہے بقول میر ’’یاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘

اس صورت حال کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ احمد رشید کے مطابق اپنے ضمیر کی آواز پر، جو آلائشوں سے پاک ہوتی ہے، لبیک کہہ کر انسان سچ کا اثبات کر سکتا ہے اور اس کا حافظہ ہمیشہ سرخرو رہے گا اور یہی مکتی کی راہ ہے۔

’’مکتی‘‘

سدا ستیہ بولو

مکتی اس میں چھپی ہے

یوں

تمہیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں

کہ تم نے کیا بولا تھا

انسان انقلاب کا داعی ہوتا ہے مگر ذاتی طور پر Status quo کا مؤید اور اپنے کو بدلنے پر تیار نہیں ہوتا فرد کے بدلنے سے معاشرہ تبدیل ہوتا ہے۔ شاعر اس نکتے سے واقف ہے۔

’’انقلاب‘‘

اپنے آپ کو بدلو

جو تم

اس سنسار میں

دیکھنا چاہتے ہو

پھر اس سنسار کو بدلو

جیسا

تم دیکھنا چاہتے ہو

احمد رشید کی نثری نظمیں خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق وا کرتی ہیں جس کی پذیرائی لازمی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے