احمد رشید: کھوکھلی کگر کا اکیلا مسافر ۔۔۔ نور الحسنین

احمد رشید اُردو کے ان چند افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی افسانہ گاری سب میں شامل ہوتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ جس زمانے میں جدیدیت کا بول بالا تھا اور چند ہی ایسے نام تھے جو جدید افسانوں کے سر خیل کہلاتے تھے تب بھی احمد رشید اُن کے ہمرکاب تھے لیکن بھیڑ کا حصہ بن کر نہیں بلکہ اپنے موضوعات اور اپنی جدت نگاری کے ساتھ۔ جب اُردو افسانہ جدیدیت کی طلسم ہوش ربا سے باہر آیا اور نئے افسانے کی نیو رکھی گئی اُس وقت بھی احمد رشید نے افسانے کے ساتھ وہ سمجھوتا نہیں کیا جو راستہ مراجعت کا تھا۔ اُنھوں نے اُس بیانیہ کا رخ اختیار کیا جو حقیقت پسندی کی اُنگلی تھے علامت استعارے کی موجودگی میں اپنا سفر طئے کر رہا تھا گویا درمیانی راہ کو تھامے ہوئے تھا۔ احمد رشید نے نئے افسانے کو ایک نیا مزاج دینے کی کوشش کی، اُنھوں نے ہمیشہ اپنے مزاج کے افسانے لکھے ہیں۔

آج افسانے کے اس نئے سفر میں اُن کے افسانے نہ تو اکھیرے موضوع کی قید میں ہیں اور نہ ہی اُس لج لجے معاشرتی زندگی کا طواف کرتے نظر آتے ہیں جہاں عام سے موضوعات قاری کا وقت برباد کرتے ہیں۔ وہ اُس بڑے کینوس پر کھڑے ہو کر دنیا کو دیکھتے ہیں جہاں مسائل میں گھرا فرد کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ غربت اور بے بسی کی زندگی جینے کے لیے تیار ہے تو ہے لیکن اُس سے نکلنے کا راستہ معدوم ہے۔ مذہب عمل کا نام ہے لیکن تصوف کی ردا اوڑھے اگربتیوں کی خوشبوؤں میں صبر و تحمل کا ایک احساس بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ عمل سے دور رہ کر کسی بھی کامیابی کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ احمد رشید کے افسانے خواب اور جاگ کے درمیان تخئیل کا سفر اس اُمید پر کرتے ہیں کہ کوئی ان دیکھی قوت اُن کے سارے مسائل کو دور کر دے گی:

’’السلام علیکم یا اہل القبور‘‘ منھ ہی منھ میں کہا، اور شیشم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر خاموشی سے نظارہ دیکھنے لگا۔ عصر و مغرب کے درمیان چڑھتا سورج مغرب میں اُتر رہا ہے۔ اُس کے چاروں طرف خون کی سرخی پھیل رہی ہے۔۔ عورتیں اور مرد ایک پلیٹ میں گلاب اور گیندے کی پنکھڑیاں، ایک ہاتھ میں بتاشوں کی پڑیا لیے سر جھکائے مزار شریف کی طرف جا رہے ہیں، سیڑھیوں پر ما تھا ٹیکے، مزار کے گرد چکر لگاتے، مجاور جو مزار کے قریب ستون سے کمر لگائے بیٹھا پھولوں کی پلیٹ اور بتاشوں کی تھیلی ہاتھ میں لیتا اور ایک جنستر میں ڈال لیتا۔ ہر شخص فاتحہ خوانی کر کے بڑے احترام سے مزار کی جانب چہرا کیے، کمر کی طرف سے سیڑھیوں سے اُتر جاتا۔ اگربتی اور لوبان کا دھواں مزار کے چاروں طرف پھیل رہا ہے۔ مجاور مور پنکھ جھاڑو زائرین کے چہروں پر مارتا ہے۔ کبھی کبھی مزار شریف کے اوپر بڑے احترام سے لہراتا، ’’آگے بڑھو۔۔ جلدی کرو کی آواز لگاتا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد مجمع ہلکا ہو گیا۔ مجاور بتاشے اور پھولوں کی ڈلیا لے کر چلا گیا ۰مزار کی سلطنت میں سنا ٹے کی حکومت قائم ہو گئی۔‘‘

(افسانہ۔ ابتداء کی طرف۔ ص۔ ۴۳۔ کتاب کھوکھلی کگر)

جیسے جیسے وقت گزرتا ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے اور ایک باخبر قلم کار ان تبدیلیوں پر بھی گہری نظریں رکھتا ہے۔ احمد رشید نے جب یہ محسوس کیا کہ اقدار کی وہ منزلیں بہت پیچھے رہ گئیں ہیں سماجی اور معاشرتی زندگی کہ آداب بدل چکے ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے جب کبھی محبوبائیں سورج مکھی کے پھول کی مانند منہ اُٹھائے محبوب کا انتظار کرتی تھیں، اور تو اور اب محبوب بھی وفا داریوں کے سارے سبق بھول کر بھونرے کی مانند پھول در پھول بھٹک کر مقابل کی بے وفائیوں کا شکوہ کرتا ہے۔ اب تو معاشرہ مشرق کی مٹتی قدروں اور مغربی تہذیب کے آمیزے میں سانسیں لے رہا ہے۔ اب نہ کوئی ستی ساوتری ہے اور نہ ہی ستیہ وان جو ایک بیوی سے سو بچوں کی پیدائش تک زندگی کا جوّا کھینچتا رہے۔ سب ہی حالات اور وقت کے مارے ہیں۔ تب اُن کے قلم نے افسانہ ’’دو سال بعد‘‘ تحریر کیا۔

آج کا زمانہ سائنس اور تکنالوجی کا زمانہ ہے۔ ایک طرف دنیا خلائی سفر اور سیاروں کی تسخیر میں مصروف ہے تو دوسری طرف وہ لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں جو آج بھی تو ہم پرستی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ احمد رشید اپنے اطراف بسنے والے افراد میں بھی اس کی جھلک دیکھی کہ کوئی بھورے سید کی شال اوڑھ کر اور کہیں تصوف کی وادیوں میں اُس اندیکھے کرامات میں پناہیں تلاش کرتا ہے جس کے نتائج کبھی اتفاق اور کبھی عقیدے کا ما حاصل ہوتے ہیں۔ احمد رشید نے ایسے افراد کی بھی کہانی ’’بھورے سید کا بھوت‘‘ لکھی ہے، جس میں توہم اور تصور کا تخئیل ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ تجسس اور اسرار کی فضاء میں قاری کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ افسانہ کسی شہر یا ہندوستان کے کسی خاص معاشرے کی تصویر کشی نہیں کرتا بلکہ اس میں وہ بھی نظر آتے ہیں جو بظاہر اس کے خلاف ہیں۔

احمد رشید کے افسانوں کی زبان نہایت صاف ستھری اور با محاورہ ہے۔ افسانہ اُن کے قلم کی نوک پر رقص کرتا ہے۔ اس لیے افسانہ اپنے قاری کو نگاہیں ٹھانے کا موقع نہیں دیتا۔ اُن کے افسانوں میں ایک خاص قسم کا ابہام ہوتا ہے جو تجسس کی لئے کو کہیں پر بھی مدھم ہونے نہیں دیتا۔ اُن کے افسانے کے آغاز میں ایک طرح کی اجنبیت ہو تی ہے اور کلائمکس و اختتام ایک ایسے اسرار کے حوالے ہو جاتا ہے جہاں قاری سوچتا رہ جاتا ہے۔

یہ دنیا اور اس میں آباد تمام مخلوق کی قسمت فنا میں پوشیدہ ہے۔ فنا ہونے کا یہ اسرار یا موت کی آہٹ کب کس کے لیے ظاہر ہو گی قدرت نے اُن لمحات، مقام اور وقت کو اپنے قبضے میں رکھا ہے۔ اس کے باوجود انسان اپنی عاقبت سے بے نیاز اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اُسے سنوارتا سجاتا ہے لیکن نہیں جانتا موت کی ٹرین کا وقت کیا ہے وہ کب آئے گی اور سب کچھ زمین کے اوپر ہی رہ جائے گا۔ احمد رشید نے اس فانی دنیا کے لیے ویٹنگ روم کی تشبیہ استعمال کی ہے جو نئی نہیں ہے لیکن ویٹنگ روم کو سجانے سنوارنے اور اپنے سفر کے سامان کی حفاظت کو زندگی کے معمولات سے جوڑ کر ایک نئی بات ضرور کہی ہے۔ انسان کی کبھی ختم نہ ہونے والی پیاس در اصل اُس کی وہ خواہشات ہیں جو زندگی کے آخری لمحات تک اُس میں موجود ہیں۔ حدیہ کہ ٹرین کا انتظار کرنے والا مسافر اتنا لاغر اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اُسے اُسی کی طرح کے چار مسافر سوار کر دیتے ہیں۔ افسانہ۔ ’’ویٹنگ روم‘‘ دنیا کی بے ثباتی کے موضوع پر یہ ایک کامیاب افسانہ ہے۔ اس افسانے کا اسلوب بیانیہ ہے لیکن جس آسانی سے وہ اُسے ویٹنگ روم کو دنیا اور ٹرین کو موت کی علامت میں بدلتے ہیں کہ افسانہ آخری سطور ہی میں ان رازوں سے پردہ اُٹھاتا ہے۔

صدیوں سے انسان یا تو مذہبی اُصولوں کا پابند رہا ہے یا پھر رسم و رواج کے چکر میں دھنسا ہوا ہے۔ قانون کے اپنے معیار ہیں۔ سوسائٹی چاہتی ہے کہ ان ہی اُصولوں اور قانون کی روشنی میں جرم و سزا کے فیصلے ہوں۔ احمد رشید اُن اُصولوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں جو زمانہ در زمانہ مروج ہیں اور انسان اُس طوطے کی مانند اُن رٹے ہوئے اُصولوں کی جگالی کر رہا ہے۔ اچھائی برائی، جرم اور سزا کی حقیقت کے باوجود انسان کا وجود ضروری ہے۔ قانون کا مطلب جرم کو ختم کرنا ہونا چاہیے نا کہ مجرم کے وجود کا صفایا۔ احمد رشید ازل تا ابد خواتین کو جس طرح مذہبی اُصولوں کی پاداش میں اگنی پریکشا کی کسوٹی پر دیکھتے ہیں جبکہ جرم میں مرد بھی برابر کا شریک ہے لیکن پاکیزگی کا مقدر ہمیشہ عورت ہی کے سر رہا ہے۔ وہ اس بات کو تاریخ کے اوراق، اور فیصلہ کرنے والوں کو طوطے کی طرح اُن ہی الفاظ کو دُہراتے ہوئے دیکھتے ہیں تو افسانہ ’’بن باس کے بعد‘‘ لکھتے ہیں۔ جانکی کے حق میں پنچ اگنی پریکشا کا حکم صادر کر دیتے ہیں لیکن راگھویندر کو یہ فیصلہ طوطے کا رٹا ہوا فیصلہ لگتا ہے:

’’راگھویندر کی نظر پنجرے کی سیخچوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے، جس میں طوطا ادھر اُدھر پھڑپھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چار پائی سے اُٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا۔۔ جانکی پنجرے کی طرف دوڑی، ’’ار۔۔ رے۔۔ رے۔۔

طوطا آزاد ہو چکا تھا اور وہ آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا، ’’یہ کیا کیا آپ نے؟‘‘

’’میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا۔۔ اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا۔، جہاں چاہے گا بیٹھے گا۔۔ جہاں چاہے گا اُڑے گا۔‘‘ جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ راگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا، ’’اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم لو مجھ سے چھین لے میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔‘‘ (افسانہ۔ بن باس کے بعد۔ ص۔ ۱۰۴۔ کتاب۔ کھوکھی کگر)

یہ افسانہ اپنے منہ زور بیانیہ، مذہبی، تاریخی حوالوں اور اُن طئے شدہ اُصولوں کی روشنی میں ایک احتجاج بن کر سامنے آتا ہے اور اُس طوطے کو تقدس کے پنجرے سے آزاد کر دینا چاہتا ہے، لیکن سوال یہاں یہی ہے کہ انسان اور انسانوں کا سماج اُن اُصولوں سے آزاد ہو سکتا ہے؟ اس افسانے کی بافت روانی، تجسس اور مطالعاتی وصف اس قدر پُر اثر ہے کہ قاری پورا افسانہ بے تھکان پڑھتا چلا جاتا ہے۔

اسی طرح افسانہ ’’مداری‘‘ سیاسی جبریت کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانے میں موجود اشارے اور علامتیں گنجلک نہیں ہیں بلکہ اس افسانہ کو تمثیلی افسانہ کہیں تو زیادہ درست ہو گا۔ افسانے کا آغاز ملاحظہ فرمائیں:

’’تماش بینوں کا ہجوم گھیرے میں کھڑا تھا۔ مداری ڈگڈگی بجا بجا کر چاروں طرف گھوم رہا تھا۔

’’ہاصتو مہربان، قدردان یا تو اپنی مرضی سے جموڑے بنو۔۔ ورنہ ہمیں جموڑے بنانا آتا ہے۔‘‘ اُس نے نظر گھمائی ڈگڈگی کو تیزی سے بجانے لگا۔

’’بھائیو! جموڑا ہماری مرضی سے چلے گا، اُٹھے گا، بیٹھے گا۔۔ ہم جو دیں گے وہی لے گا۔۔ آگے مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہو گا۔‘‘ وہ مسکرایا، چاروں طرف نظر گھمائی، دھوتی پہنے کثیر الجسامت شخص کی طرف اشارہ کیا۔۔ آگے بڑھ کر اُس کے جان میں کچھ کہا، وہ ’ نہیں‘ کرتے ہوئے ہجوم سے نکل گیا۔‘‘

(افسانہ۔ مداری۔ ص۔ ۸۸۔ کتاب۔ کھوکھلی کگر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ایک کالی داڑھی والا آگے بڑھا۔۔ مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’ہمیں بکرا نہیں چاہیے۔ ہمیں جموڑا چاہیے۔۔ بکرا تو ہم خود بنا لیں گے۔۔ داڑھی والا ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔‘‘ (افسانہ۔ مداری۔ ص۔ ۸۹۔ کتاب۔ کھوکھلی کگر)

یہ دو اقتباس ہی افسانے کو واضح کر دیتے ہیں کہ مداری کون ہے اور وہ کن کو جموڑا بنا نا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ احمد رشید کی افسانہ نگاری سفر جدیدیت کے دور میں ہوا ہے۔ اگرچہ نئے افسانے کے ساتھ اُن میں بہت ساری تبدیلیاں بھی آئیں لیکن افسانے کی فضاء سازی، ابہام اور تمثیلی فن اب بھی اُن کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے موضوعات بھی عام سے نہیں ہوتے۔ ان کے افسانوں میں اسلامی روایات، میتھالوجی اور تاریخی حوالوں کی آمد سے گہرائی و گیرائی پیدا ہو جاتی ہے ؤ اُن کا افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ ایک طویل افسانہ ہے بلکہ اُس کی جسامت کسی ناولٹ سے کم نہیں۔ یہ انسان کے پیدائش سے اُس کے ارتقائی سفر کی ایک طویل داستان ہے۔ یہاں زماں و مکاں کی قید نہیں ہے۔ وقت کی پرواز ہے یہ افسانہ انسان کے ایام جہالت، جب وہ شرم و حیا سے بے نیاز تھا۔ لباس سے آزاد تھا، پھر وقت کے ساتھ اُس کا ارتقاء اُس کی تہذیبی، تمدنی ادوار سے ہوتے ہوئے پھر ایک بار اُس کا شرم و حیا سے بے نیاز ہونا اور بے لباسی کی طرف مراجعت ہے۔ اس طویل اور انوکھے موضوع پر قلم اُٹھانے کی جرأت احمد رشید ہی کر سکتے ہیں۔

احمد رشید کا اپنا فلسفہ ہے۔ اپنی منطق ہے۔ وہ دنیا کو اور اُس کے نظام کو اپنی سوچ اور اپنے اُصولوں کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کا افسانہ ’’کھوکھلی لگر‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ افسانہ عصری دور میں زندگی کے ایک ایسے سفر کو بیان کرتا ہے جہاں سکون عدم دستیاب ہے۔ اُن دنوں میں بھی جب جب زندگی سائنس اور تکنالوجی کے غلاف سے بے نیاز چھوٹے چھوٹے گھروں میں سانسیں لیتی تھی۔ جب جان توڑ محنت کرنے کے بعد بھی سکون کی جستجو تھی اور انسان تصوف کی گھنی چھاؤں میں سکون پا لیتا تھا۔ خدا کی تلاش ہی زندگی کا محور تھا، لیکن بھگتی مارگ اور خانقاہیں عشق حقیقی سے پہلے عشق مجازی کی تربیت کرتی تھی۔ خدا تک انسان اُسی وقت پہنچ سکتا ہے جب تک وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو نہیں پا لیتا۔ یہی اس افسانے کا ما حاصل ہے۔ اس افسانے میں احمد رشید کا قلم تصوف کی زبان لکھتا ہے:

’’وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ سوچتا رہا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے، آنکھ درست ہو تو سارا بدن روشن ہو جائے۔ اگر آنکھ خراب ہو تو سارا بدن تاریک ہو جائے۔ پس وہ روشنی مجھ میں ہے۔ اُس نے مُڑ کر دیکھا کائنات پیچھے چھوٹ گئی ہے۔ آگے کی جانب نگاہ اُٹھائی۔۔ دور سرمئی کہسار پر رکا ہوا نیلا آسمان سفید بادلوں کی پوشاک زیب تن کیے کھڑا ہے۔ چاروں طرف دھویں کے مرغولے سائبان کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈھلان پر زیتون کی روشیں آب رواں کی لہروں جیسے پھیلی ہیں۔ پہاڑ کے قدموں کے نیچے سبز مخمل بچھی ہے۔ ایک فرلانگ کی دوری پر آئینہ کی طرح صاف و شفاف چشمہ میں آفتاب کی روشنی کا عکس ٹھنڈے پانی کے سنگ محو رقص ہے۔ ایک کنارے سے تھوڑے فاصلے پر ساگوان سے بنی کٹیا کشتی کی طرح زمین پر رکھی ہے۔ اُس کے دروازے پر انگور کی بیل ٹنگی ہے۔ چاروں طرف خوش گلو پرندوں کی نغمہ سرائی خوب صورت وادی میں شعلہ سا لپک جائے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ خوش منظر دیکھ کر اُس کی بصارت لوٹ آئی اور خوش آواز سن کر جیسے سماعت لوٹ آئی۔۔ جلوۂ حق دیکھ کر اُس نے خوش کلامی کی، ’’سبحان اللہ‘‘! بادشاہت، قدرت اور جلالت ہمیشہ تیری تھی، تیری ہے، تیری رہے گی۔‘‘ (افسانہ۔ کھوکھلی کگر۔ ں۔ ۱۶۲۔ کتاب۔ کھوکھلی کگر)

احمد رشید کا افسانہ ’’حصار‘‘ کا موضوع نیا نہیں ہے لیکن کرافٹ مختلف ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دنیا کے نقشے میں آج دو ملک ہیں لیکن ان کی روایتیں، تہذیب اور ماحول ایک دوسرے سے مختلف بھی نہیں ہے۔ عورت کا محبت کرنا فطری جذبہ ہے۔ اس کے باوجود اگر اُس کی محبت ناکام ہو جائے تب بھی شوہر سے وفاداری اُس کا اخلاقی فرض ہے اور بے وفائی جذبات کی کسوٹی پر ناکامی کی وجہ ہے۔ شادی کے بعد شوہر کے ملک سے واپس آنے کے بعد اپنے محبوب سے ملنا اور پھر شوہر کی امانتوں کو محفوظ رکھنا در اصل اُس وعدے کی تکمیل ہے جو نکاح کے وقت اُس نے اقرار کیا تھا۔

احمد رشید ایک بے باک مصنف ہیں۔ وہ جو کچھ بھی اپنے افسانوں کے وسیلے سے سماج کو دینا چاہتے ہیں وہ اُنکا اپنا فلسفہ ہے۔ اس فلسفہ میں منفی اور مثبت دونوں ہی باتیں ہیں۔ وہ کہیں تو روایات اور اُصولوں کو توڑنا چاہتے ہیں اور کہیں اُس کی پاسداری بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک بات اور، اُن کے اکثر افسانوں کی جزئیات اور تخئیل میں یکسانیت سی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُن کے افسانوں کا خاص وصف اُس کا مطالعاتی پہلو ہے۔ گو اُنھوں نے اپنے افسانوں میں تکنیک کے تجربات بہت کم کیے ہیں پھر بھی خود کلامی، فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک کا عمدہ استعمال ہے۔ آخر میں میں اُن کے فن کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنی کگر کے تنہا مسافر ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے