آفتاب اقبال شمیم کی نظم نگاری ۔۔۔ ارشد سعید

اُردو ادب میں ہمہ جہت تخلیق کار انگلیوں پر ہی نہیں بلکہ پوروں پر گنتی کیے جا سکتے ہیں۔ خاص کر وہ شاعرِ اور ادیب جو علمیت کی گہرائی چھاپ اور جدیدیت کا رنگ رکھتے ہیں جن کی شاعرِی سے بصارت اور بصیرت کی علمی کرنیں پھُوٹتی ہیں۔ جن کو پڑھ کر نوجوان شاعرِوں میں لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے، اُن کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور اُنکی تخلیقی سوچوں کو جلا ملتی ہے۔ ایسے ہی اُستاد شاعروں میں سے ایک نام پروفیسر آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کا بھی ہے جو نہ صرف اپنی نثری نظموں کے موضوعات، فکری اسلوب، ان کی جدیدیت میں یکتا ہے بلکہ اُن کے قلم سے نکلنے والی لویں اُن کی اپنی ہیں جن کی روشنی ادب میں چار دنگ روشن ہے۔ میری اور اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کی خوش قسمتی کہ آج اُردو ادب کے اُفق پر چمکنے والے ادب کے اس ستارے نے اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کی دعوت قبول کی اور آپ اس مشاعرے میں تشریف لائیں۔ میں اُردو سوسائٹی کے بانی رکن اور نائب صدر کی حیثیت سے جناب آفتاب اقبال شمیم صاحب کو اس مشاعرے میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

سامعین! پروفیسر آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی شاعرِی اور اُن کی ادبی خدمات کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں، آپ دورِ حاضر کے اُن چند منفرد قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید اُردو ادب کو ایک منفرد اسلوب سے روشناس کرایا اور اپنی منفرد آزاد نظموں سے آج کے دور کے سامع، قاری، اور ناقد کو متاثر کیا۔ آج کے جدید اُردو ادب میں جناب آفتاب اقبال شمیمؔ کی نثری شاعرِی کی بدولت ہماری آزاد نظم آج اُس مقام پر کھڑی ہے جہاں سے نئے موضوعات، عمیق ترین جذبات اور بلند تخلیل و افکار نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ جناب آفتاب اقبال شمیمؔ اُردو ادب کی ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور آپ کو اُردو ادب کی گرانقدر خدمات پر بے شمار ادبی انعامات و ایوارڈز سے نوازہ گیا ہے جن میں ستارہ امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی قابل ذکر ہیں۔

سامعین۔ موجودہ دور کے ناقد، سامع اور قاری نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ جناب آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی نظمیں ہر دور کی نظمیں ہیں۔ خاص کر وہ تمام شعرا کرام جو آزاد نظمیں لکھ رہے ہیں وہ کہیں نہ کہیں اپنی نظم کے آغاز یا انجام پر خود کو اُن ہی موضوعات پر لے جاتے لیں جہاں جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب نے اپنے قاری کو دس سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جب تک اُردو ادب میں جدید آزاد نظم لکھی جائے گی وہاں جناب۔ آفتاب اقبال شمیم صاحب کی فکری وسعت ہی کو اپنایا جائے گا۔ صرف اس لیے کہ وہ تخلیقی رویوں کے حامل شاعرِ ہیں اور تقلیدی رویوں کی شاعرِی اُن کے منشور میں نہیں آتی۔ جناب۔ آفتاب اقبال شمیم صاحب کی شاعری ذہن کو ہی نہیں بلکہ رُوح تک رسائی رکھتی ہے اور پڑھنے والے کے مزاج میں رچ بس جاتی ہے۔ اِس بات کو مجھکو خود تجربہ ہوا جب میری ایک عزیز اور دیرینہ دوست میری بہن۔ ڈاکٹر کوثر جمالؔ نے میری ایک نثری نظم فیس۔ بک پر پڑھی تو سب سے پہلے یہ مشورہ دیا کہ ارشدؔ اگر تم اگر نظم کی طرف آنا چاہتے ہو تو آفتاب اقبال شمیم صاحب کی شاعری ضرور پڑھو اور ساتھ ہی اُنھوں نے مجھکو آفتاب اقبال شمیم صاحب کی دو عدد کتابیں بھی پڑھنے کو مہیا کر دی۔ اِس طرح پہلی بار میں نے آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کو پڑھا بلکہ یوں کہ لیں کہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ اُن کی نظموں نے میرے ادبی شعور کو ایسا آئینہ دکھایا کہ ایک عرصہ تک غزل نہ لکھ پایا اور صرف آزاد شاعری کی طرف طبیعت مائل رہی۔ اس دوران ایک بار پھر ڈاکٹر کوثر جمالؔ صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو فوراً بولیں کہ ارشدؔ تم نظمیں اچھی لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس بار اُنھوں نے مجھکو کسی شاعر کی کتاب نہیں دی۔ میرا خیال یہ ہی جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کے فکری اسلوب کی وسعت ہے کہ وہ قاری کو اپنا بنا لیتے ہیں اور وہ پھر کسی اور شاعر کا نہیں رہتا۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی پُر اثر نظمیں ہر خاص اور عام قاری کے لیے ہیں اور نئے لکھنے والوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جو اُن کو لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں کسی کمھار کی طرح سوچ کے چاک پر حرف و لفظ کے پیکر ڈھالتے جاتے ہیں، گزرے لمحات کو بھی اپنے تجربوں اور مشاہدوں سے کشید کرتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ اپنی نظموں میں خود کو بھی بازیافت کرنے کی سعی میں نظر آتے ہیں۔ اس نظم کو دیکھئے جو کہ اُنھوں نے اپنے لیے لکھی ہے۔

نظم۔ میں

تمہیں معلوم ہی کیا ہے کون ہوں میں

کون سے ملتے بچھڑتے پل کے سنگم پر

کسی اسرار نے اپنی سنہری دھڑکنوں کی تال پر

مٹی سے بالیدہ کیا مجھ کو

تمہیں معلوم ہی کیا ہے!

اُس جہانوں کے جہاں والے نے

کس خوش بخت کو شہزادگی بخشی

چٹکتے کیسری لمحے کی بے سایہ زمینوں کی

تمہیں تو چاہئے تھا وقت سے لمحہ چرا کر

مجھ سے ملتے اُس ابد آباد جہلم کے محلے میں

جہاں کی تنگ نائی سے افق کی وسعتوں تک

سرحدیں تھیں میری کشور کی

کہاں مہلت ملی تم کو

کہ آ کر دیکھتے آوارگی کے تخت پر اُڑتے سلیماں کو

کبھی تم دیکھتے آ کر

صبا سے ساتھ قصرِ خواب کی پھلواریوں میں گھومتی

اُس موجِ پیچاں کو

تمہیں معلوم ہی کیا ہے۔ کون ہوں میں

ایک چوتھائی صدی سے عمر کی لمبی گلی میں

روز ہی جاتا ہوں دریوزہ گری کرنے

زمیں زادہ خداوندِ نعمت کی نوکری کرنے

سامعین۔ آپ نے دیکھا کہ اسلوب میں اگر جدید ہو، سلیقہ ہو تو وہ احساسات پر گراں نہیں گزرتا ہے۔ یہ ہی فکری اسلوب جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ کی آزاد شاعری میں آج کے قاری کو نظر آ رہا ہے۔ اُن کی نظمیں روایتی اسلوب سے ہٹ کر ہیں جن میں جدیدیت کی شدت شعورِ انسانی کی وسعتوں میں نئے امکانات کا سراغ دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیمؔ روایتی عقائد سے باہر نکل آئے ہیں۔ آپ کی شاعرِی سے آج کا قاری ادراک و آگہی کی نئی دُنیا مین سانس لینے لگا ہے۔ اُس کو احساس ہے کہ جس شاعرِ کی کتاب اُس کے ہاتھ میں ہے وہ جدیدیت کا فکری نظریہ لے کر دُنیائے ادب پر اُبھرا ہے اور جس نے اپنی منفرد شاعری سے دُنیا ادب کو چونکا دیا ہے۔ آپکی شاعری دریا کی روانی سے آگے کی جانب گامزن ہے، جو بہہ رہا ہے روکا نہیں جو ہر لحظہ تغیر پذیر ہے۔ یہ اس بات کا احساس جناب آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کو اپنی شاعری کے شروعات میں ہی ہو گیا تھا اس لیے آپ نے اپنے لیے رویوں کا راستہ چنا، تقلیدی نہیں اور اس چیلنج کو ادب کے نقادوں کی پرواہ کیے بغیر قبول کیا اور اپنے فکر انگیز رویے اور جدید اسلوب سے دُنیائے ادب میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ ان کی نظمیں جن میں۔ ایوری باڈی، نو باڈی، بھی شامل ہے ۱۹۸۰ میں ایک انقلابی سوچ کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ شروعات میں فیضؔ احمد فیضؔ اور علامہ اقبالؔ مرحوم سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن اپنی ادبی تخلیق میں، ادبی فکری سوچ میں منفرد اور یکتا دکھائی دیتے ہیں۔ جو آفتاب اقبال شمیمؔ کا اپنا ایک انداز ہے۔ آپکی شاعری میں وہ وسعت ہے کہ اُس پر کئی پہلوؤں پر مضامین لکھے جا سکتے ہیں اور شاید یہ مضمون اُن کی شاعری اور اُن کے قلم کی فکری لویں کی تیز رفتاری کو نہ پکڑ سکے۔ اس لیے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر شاعری کیفیت و احساس کے لفظی روپ کا نام ہے تو پھر آفتاب اقبال شمیمؔ کے ہاں ہمہ گیر تجربے، مشاہدے، زبان و بیاں کی روانی اور انفرادیت کے نہ ختم ہونے والے رنگ پہناں ہیں۔ اُردو ادب میں یہ تمام لوازمات زندگی کا جزو لطیف لیے ہوئے ہیں۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب عصرِ نو میں علمیت کی گہری چھاپ رکھے ہوئے ہیں اور آزاد نظموں میں وہ تجربات کر رہے ہیں جو صرف احساس و ادراک، برہان و عقل والا شاعر ہی کر سکتا ہے۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے ادیب و شاعر جتنا اپنی تخلیق کے اظہار میں بالغ ہوتا ہے ادب اتنا ہی ارفع و اعلی ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی شاعری پڑھنا بے حد ضروری ہے بلکہ واجب ہے۔ میری تمام بہت سی نیک تمنائیں اس دور جدید کے جدید نظم گو شاعر کے لیے۔ اللہ تعالیٰ اُن کا سایہ اُردو ادب پر شجر کی صورت میں قائم رکھے اور ہمارے علم میں اضافہ ہوتا جائے۔ آمین

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے