غزلیں ۔۔۔ دیوی ناگرانی

ان بْجھی پیاس، روح کی ہے غزل

خشک ہونٹوں کی تشنگی ہے غزل

 

نرم احساس مجھ کو دیتی ہے

دھوپ میں چاندنی لگی ہے غزل

 

اک عبادت سے کم نہِیں ہرگز

بندگی سی مجھے لگی ہے غزل

 

بولتا ہے ہر ایک لفظ اس کا

گفتگو یوں بھی کر رہی ہے غزل

 

مہراباں اس قدر ہوئی مجھ پر

میری پہچان بن گئی ہے غزل

 

اس میں ہِندوستاں کی خوشبو ہے

اپنی دھرتی سے جب جڑی ہے غزل

 

اس کا شرنگار کیا کروں دیوی

سادگی میں بھی سج رہی ہے غزل

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی پہچان پا گئی، یارو

میری ہستی ہی جب مٹی، یارو

 

ساتھ میں تھا ہجوم سوچوں کا

بھیڑ سے میں گھری رہی، یارو

 

بن گئی ایک خوشنما ٹیکا

دھول ماتھے سے جب لگی، یارو

 

میں جو ڈوبی کبھی خیالوں میں

اک غزل مجھ سے ہو گئی، یارو

 

بادلوں میں چھپا لیا چہرا

شرم سی چاند کو لگی، یارو

 

دیکھ کر عکس، آئینہ چونکا

تھی یہ دیوی کہاں چھپی، یارو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے