غزلیں ۔۔۔ خورشید بھارتی

گماں بجا ہے مگر اعتبار مت کرنا

چمکتی ریت کو پانی شمار مت کرنا

 

کوئی جو اچھا ملے مجھ سے اس کے ہو جانا

تجھے قسم ہے دکھاوے کا پیار مت کرنا

 

تمام جھیل کے پانی کو پی گیا سورج

پرندے پیاسے ہیں ان کا شکار مت کرنا

 

میں روشنی کی بلندی کو چھونے نکلا ہوں

دیا سنبھالے مرا انتظار مت کرنا

 

حسین لوگ بڑے بے وفا نکلتے ہیں

حسین لوگوں پہ تم اعتبار مت کرنا

 

ملیں گے مطلبی بھی زندگی کی راہوں میں

ہر ایک شخص پہ تم جاں نثار مت کرنا

 

مزاج لہروں کا خورشید آج ٹھیک نہیں

کسی بھی حال میں دریا کو پار مت کرنا

٭٭٭

 

 

 

بسی ہوئی ہے خلش ملگجے اجالوں میں

کٹے گی آج کی شب بھی ترے خیالوں میں

 

یہ زندگی بھی کوئی امتحان لگتی ہے

ہر ایک شخص ہے الجھا ہوا سوالوں میں

 

جو تیرے چہرے کو پڑھ کر نصیب ہوتا ہے

وہ لطف ہی نہیں ملتا مجھے رسالوں میں

 

کبھی جو ذکر چھڑے نامراد لوگوں کا

ہمارا نام بھی لے لینا تم حوالوں میں

 

تمام لوگوں کی نظریں تمہی پہ ٹھہریں گی

بس ایک پھول سجا لینا اپنے بالوں میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے