غزلیں ۔۔۔ خاور حسین

ایک بدلی جو مرے دشت پہ چھائی ہوئی ہے

اس نے بس پیاس کی شدت ہی بڑھائی ہوئی ہے

 

ہمسفر تیز نہ چلنا کہ سرِ راہ وفا

میں نے احساس کی گٹھڑی بھی اٹھائی ہوئی ہے

 

تیرے ہونٹوں کا تکلم، مرے سازینہ فروش

دل کی دھڑکن بھی اسی دھن پہ بنائی ہوئی ہے

 

تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ میں چپ ہی رہوں

اس لئے تجھ سے کوئی بات چھپائی ہوئی ہے

 

چشم وا ہی رہے، ہونٹوں پہ مگر قفل رہے

یہ عجب رسم ہے جو شہر میں آئی ہوئی ہے

 

تو نے جو بات چھپا رکھی ہے اب تک ہم سے

تیری آنکھوں نے جہاں بھر کو بتائی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

عشق رستے میں کبھی ایسی گھڑی آتی ہے

اپنے مضبوط ارادوں پہ ہنسی آتی ہے

 

یہ رہِ کرب و بلا ہے سو مرے ساتھ یہاں

دوست وہ آئے جسے ہم سفری آتی ہے

 

پہلے میں ڈھونڈتا رہتا تھا محبت کا جواز

اب مجھے ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے

 

اِس طرح آتی ہے ساحل پہ وہ آہستہ خرام

جیسے اک ناؤ چراغوں سے بھری آتی ہے

 

قیدِ تنہائی میں زنجیر چھنکنے کی صدا

ایسی آتی ہے کہ جوں خوش خبری آتی ہے

 

کرچیاں بکھری پڑی ہیں مرے چاروں جانب

میں سمجھتا تھا مجھے شیشہ گری آتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے