غزل ۔۔۔ اسلم عمادی

 

تیری محفل میں ملے ایسے بھی چہرے ہم کو

جن کے اطوار مناسب نہیں لگتے ہم کو

 

جو تری بزم میں سجدے میں پڑے رہتے ہیں

بغض کی بو ہی ملی ان کی ادا سے ہم کو

 

اس دریچہ سے اٹھا چاند ، تو موسم جاگا

پھول روشن نظر آنے لگے پھر سے ہم کو

 

اس دریچہ سے ہی وابستہ ہے شوقِ دیدار

عین ممکن ہے کہ تو خود نظر آئے ہم کو

 

وہی گیسو، وہی عارض ، وہی روشن سی جبیں

موہ لیتے ہیں سدا آپ کے جلوے ہم کو

 

ٹوٹتے خوابوں نے یہ حال کیا ہے اپنا

اب تو صحرا بھی دکھتے ہیں سفینے ہم کو

 

دور حاضر کی سیاست ، کہ عدالت، کہ اصول

سب کے پہلو میں نظر آتے ہیں دھوکے ہم کو

 

اب تو مصنوعی سا لگتا ہے جہاں کا ماحول

ہر جگہ ملتے ہیں اب کھیل تماشے ہم کو

 

کبھی اس شہر میں الفت کا اجالا تھا رواں

اب تو ہیں پیش ہر اک رہ پہ اندھیرے ہمکو

 

تھے وطن میں کبھی مانوس سبھی دوست، احباب

نام سے کوئی یہاں اب تو پکارے ہم کو

 

بس یہی حرف دعا نقش ہے لب پر اسلم

پھر افق پر نظر آ جائیں اجالے ہم کو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے