غزلیں ۔۔۔ راجیش ریڈی

اِس دن کے منتظر تھے جو، وہ یار کیا ہوئے

مر بھی چکا میں، میرے عزا دار کیا ہوئے

 

سوئے ہوؤں کو کرتے تھے بیدار، کیا ہوئے

بستی میں تھے جو سر پھرے دو چار، کیا ہوئے

 

اُس پار سے میں آیا ہوں دریا میں ڈوب کر

مجھ کو بلا رہے تھے جو اِس پار، کیا ہوئے

 

کرتا رہوں میں خود سے ہی کب تک مکالمہ

باقی مری کہانی کے کردار کیا ہوئے

 

پھر زندگی نے ہم کو کہیں کا نہیں رکھا

اک بار زندگی کے طلبگار کیا ہوئے

 

گھر کے بڑوں۔ بزرگوں کو سمجھانے لگ گئے

بچّے ذرا سا پڑھ کے سمجھدار کیا ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دنیا کو ریشہ۔ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں

آ بیٹھ تھوڑی دیر ذرا گفتگو کریں

 

جس کا وجود ہی نہ ہو دونوں جہان میں

اُس شئے کی آرزو ہی نہیں جستجو کریں

 

دنیا میں اک زمانے سے ہوتا رہا ہے جو

دنیا یہ چاہتی ہے وہی ہو بہ ہو کریں

 

ان کی یہ ضد کہ ایک تکلف بنا رہے

اپنی تڑپ کہ آپ کو تم، تم کو تو کریں

 

ان کی نظر میں آئے گا کس دن ہمارا غم

آخر ہم اپنے اشکوں کو کب تک لہو کریں

 

دل تھا کسی نے توڑ دیا کھیل۔ کھیل میں

اتنی ذرا سی بات پہ کیا ہاؤ-ہُو کریں

 

دل پھر بضد ہے پھر اسی کوچے میں جائیں ہم

پھر ایک بار وہ ہمیں بے آبرو کریں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے